اچھے تخلیق کار کی تعریف کیا ہے؟ اس سوال کا جواب مختلف لوگ مختلف انداز میں دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے مگر اچھا تخلیق کار وہی ہوتا ہے جسے چاہنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہو اور جس کے حاسدین بھی کم نہ ۔ وہ اپنی شخصیت ،اپنی تخلیقات کے حسن اور اپنے نظریات اور کمٹمنٹ کی بدولت لوگوں میں بیک وقت چاہا بھی جائے اور ناپسند بھی کیا جائے۔ ایک طبقہ اگر اس سے شدید محبت کرے تو دوسرا طبقہ اس کے ساتھ شدید نفرت کا اظہار کرے۔ وہ اصولوں پر ڈٹا رہے اور منافقت کو مصلحت قرار دیتے ہوئے زندگی نہ گزار ے۔ سرکاری ملازمت سے وابستہ قلمکاروں کیلئے یہ مقام حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، وہ عمومی طور پر کسی بھی نظرئیے کے ساتھ کمٹمنٹ کا واضح اظہار نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے نظریات کو یا تو چھپا کر رکھتے ہیں یا پھر حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تبدیل کرتے رہتے ہیں اور جو ایسا نہ کرے ،اپنی سوچ کا کھل کر اظہار کرے وہ ڈاکٹر انوار احمد کی طرح بے پناہ چاہا بھی جاتا ہے اور اسی تناسب سے اس کے حاسدین کی تعداد بھی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد سے ہمارا پہلا تعارف 1983ءمیں ہوا۔ ڈیرہ اڈا سے حسن پروانہ روڈپرجائیں تو ڈاکخانے والے موڑ سے پہلے ایک ہوٹل میں تھیٹر ہے جہاں اب ڈرامے ہوتے ہیں۔ ان ڈراموں میں پھکڑپن اور رقص ہوتاہے اور اسی پھکڑ پن کو دیکھنے کیلئے رات کو اس تھیٹر میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ 1980ءکے عشرے میں اس ہوٹل میں ادیب اور شاعر بھی بیٹھتے تھے اور یہاں ادبی تقریبات بھی منعقد ہوتی تھیں۔ ہمیں یاد ہے کہ اسی ہوٹل کے تہہ خانے میں اظہر سلیم مجوکہ نے اپنے رسالے سائبان کی تعارفی تقریب منعقد کی ۔اس تقریب کی صدارت ڈاکٹر انوار احمد نے کی تھی اور وہاں پڑھے جانے والے اپنے ایک مضمون کی بدولت ان کے ساتھ ہمارا پہلا تعارف ہوا تھا۔تقریب کے دوران ڈاکٹر انوار احمد نے اس مضمون کی غیر معمولی انداز میں تعریف کی تھی۔ وہ مضمون ایسا خوبصورت تھا یا نہیں لیکن ڈاکٹر انوار احمد کی پذیرائی کا انداز اتنا خوبصورت تھا کہ ہمارا حوصلہ بڑھ گیا۔ اقبال ساغر صدیقی اور نوشابہ نرگس نے اگر پہلی تحریر شائع کرکے ہمارے لئے ادب کی راہیں کھولی تھیں تو ڈاکٹر انوار احمد نے بھرپور پذیرائی کے ذریعے ہمارے قلم کو مہمیز دے دیا۔ ان کا یہ اندازِ محبت آج بھی اسی طرح جاری ہے اور یہ انداز صرف ہمارے لئے ہی مختص نہیں۔ اُن کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور گفتگو کے دوران بلاتخصیص نئے لوگوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں اور بسا اوقات ان کی تعریف کرتے ہوئے مبالغے کے ساتھ کام لینے سے بھی گریز نہیں کرتے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ غلط بخشیاں بھی کر دیتے ہیں۔شاید انہوں نے یہ اندازِ پذیرائی ڈاکٹر عرش صدیقی سے سیکھا کہ تقریبات میں ان کی گفتگو بھی نئے لوگوں کا سیروں خون بڑھا دیتی تھی۔
جس دور کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ بھی آمریت کا دور تھا، ضیاءالحق کا مارشل لاءپورے عروج پر تھا۔ سیاسی کارکن جیلوں میں بند تھے، کوڑے کھا رہے تھے یا جلاوطنی پر مجبور کر دیئے گئے۔ اس دور میں بات کرنا کتنا مشکل تھا اس کا اندازہ وہ لوگ کر ہی نہیں سکتے، جنہوں نے وہ دور دیکھا نہیں ہے۔ انوار احمد اس دور میں بھی بات کر سکتے تھے۔ کسی کتاب کی تعارفی تقریب، کسی افسانہ سیمینار یا کسی مجلس مذاکرہ میں وہ جب بات کرنے آتے تو ہال میں سناٹا طاری ہوجاتا اور پھر وہ بولتے تو اپنے ہی نہیں لوگوں کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتے۔ بات مکمل مفہوم ادا کرتی مگر سلیقہ ایسا کہ کوئی چاہتا بھی تو ان پر گرفت نہ کر سکتا۔ خوبصورت تخلیقی جملے ان کی تقریر کا بھی حسن ہیں اور تحریر کا بھی۔ ڈاکٹر انوار احمد کہانی لکھنا بھی جانتے ہیں اور سنانا بھی۔ افسوس صرف یہ ہے کہ انہوں نے کہانی لکھنے کی بجائے کہنے میں زیادہ وقت گزار دیا۔ یہ بات بارہا تحریر کی گئی اور کئی لوگوں نے تحریر کی کہ ڈاکٹر انوار احمد جیسے ذہین تخلیق کار نے اپنی بہت سی توانائیاں یونیورسٹی کی سیاست کی نذر کر دیں۔ وہ بہت کچھ لکھ سکتے تھے مگر انہوں نے بہت کم لکھا۔ خاص طور پر اردو افسانے میں تخلیقی سطح پر انہیں جتنا Contribute کرنا چاہیے تھا، انہوں نے نہیں کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے ایک استاد کے طور پر پوری نسل کی تربیت کی۔ زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کو ملکی سطح پر انہی کی وجہ سے پذیرائی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر انوار احمد کو یہ ہنر آتا ہے کہ انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی نظریاتی سطح پر کام جاری رکھا اور اپنی نوکری پر بھی آنچ نہ آنے دی۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہمیں کوئی کام کرنا ہے تو ساتھ ہی خود کو بھی بچا کر رکھنا ہو گا۔ خود ہی نہ رہے تومشن بھی ادھورا رہ جائے گا۔ دوسری طرف صلاح الدین حیدر اور عابد عمیق جیسے ان کے جذباتی دوست تھے جنہوں نے جیلیں بھی کاٹیں اور حق گوئی کی پاداش میں ان کا دور دراز مقامات پر تبادلہ بھی کردیا گیا۔
یہیں سے انوار احمدحاسدین کی الزام تراشیوں کی زد میں بھی آئے۔ ان پر نظریاتی حوالے سے بھی الزامات عائد کئے گئے اور لسانی حوالے سے بھی، نظریاتی مخالفین نے تو سازشیں کرنا ہی تھیں مگر ڈاکٹر انوار احمد نے جب اپنی نوکری بھی بچائے رکھی تو بعض نظریاتی دوست بھی ان سے خائف ہو گئے۔ اپنے رویے اور اندازِ تدریس کی وجہ سے وہ طالب علموں میں مقبول ہیں، سو یہاں پیشہ ورانہ رقابت نے کام دکھایا، ان کے شعبے میں جو ”زاہد تنگ نظر“ قسم کے ان کے کچھ دوست تھے وہ اسی بات پر ناراض ہو گئے کہ طالب علم ڈاکٹر انوار احمد سے محبت کیوں کرتے ہیں۔ لسانی حوالے سے ان پر یہ الزامات لگے کہ انہوں نے ایک مخصوص زبان سے تعلق رکھنے والوں پر یونیورسٹی کی فضا تنگ کردی اور اسی بنیاد پر عاصی کرنالی کی جگہ ڈاکٹر اسلم انصاری کی پذیرائی کی لیکن الزام لگانے والے یہ بھول گئے کہ سرائیکی شعبہ میں شبیر حسن اختر کے ساتھ مرزا ابن حنیف اور حنیف چوہدری کی خدمات بھی ڈاکٹر انوار احمدنے ہی حاصل کی تھیں۔ ان تمام تر الزامات کا ڈاکٹر انوار احمد نے مسکرا کر سامنا کیا۔ وہ الزام تراشیوں پر دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہیں۔ پسپائی اختیار کرنے کی بجائے اپنا کام جاری رکھتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔
11 جون کو ڈاکٹر انوار احمد کی 60 ویں سالگرہ ہے۔ بظاہر ان کے شاندار کیرئیر کا اختتام ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے شعر وادب اور تعلیمی شعبے میں جو خدمت انجام دی ہیں ان کے تناظر میں ان کے دوستوں کو قوی امید ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یونیورسٹی کے ساتھ ان کی وابستگی جاری رہے گی اور انہوں نے شعبہ اُردو کے ذریعے ملتان کے ادبی خدوخال نکھارنے کا جو کام شروع کیا ہے۔ وہ اسی رفتار کے ساتھ جاری رہے ۔ ڈاکٹر انوار احمد کا پورا کیرئیر مسلسل جدوجہد کی عملی تصویر ہے ۔ وہ ایک سیلف میڈ انسان ہیں جنہوں نے بہت نامساعد حالات میں عملی زندگی کا آغاز کیا اور اب وہ نہ صرف ملتان بلکہ پورے جنوبی پنجاب کی آواز بن چکے ہیں ۔ یہ ایک ایسے ترقی پسند کی زندگی کا احوال ہے جو صرف ترقی پسند ہی نہیں عملیت پسند بھی ہے ۔ جو خوابوں پر نہیں ان کی تعبیروں پر یقین رکھتا ہے اور جوخواب بھی وہی دیکھتا ہے جن کی تعبیر کا اسے یقین ہوتا ہے۔
فیس بک کمینٹ