خواتین و حضرات جیسا کہ آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ رمضان کے بابرکت مہینے میں اللہ اپنے بندوں کو رحمت سے، جبکہ تاجر ہمیں مہنگائی سے نوازتے ہے اسی لیئے رمضان کا بگل بجتے ہی ہمارے ملک کا سفید پوش طبقہ آنے والی مہنگائی کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہتا ہے ۔۔ دوسری طرف کاروباری حضرات دونوں ہاتھوں سے رمضان کے لیئے ذخیرہ اندوزی جیسے نیک کام میں جتے ہوتے ہیں ۔۔۔ اور ایسے میں ہم جیسے ندیدے لوگ پہلے سے افطار پارٹیوں کے لیئے اپنے دانت تیز کر رہے ہوتے ہیں۔ غرض کہ رمضان کی آمد پر ہر مسلمان اپنے اپنے دھنتر میں مصروف ہوتا ہے ۔ ایسے ہی ایک رمضان کا واقعہ ہے کہ چاند نکلنے میں ابھی ایک دو دن باقی تھے اور میں حسبِ معمول اپنا سا منہ اُٹھائے ایک شاہراہِ عام پر چلا جا رہا تھا کہ ایسے میں مجھے زمینی جن یعنی کہ جناب حضرت صاحب مل گئے مجھ پر نظر پڑتے ہی پہلے تو وہ اس ڈر سے کنی کترا کر نکلنے لگے کہ کہیں ان پر چائے ہی نہ پڑ جائے۔۔۔ لیکن پھر نہ جانے کیا سوچ کر انہوں نے آخری وقت میں ایک یو ٹرن لیا اور میری طرف بڑھتے ہوئے بڑے تپاک سے ملنے کے بعد بولے ۔۔ سنا ہے کہ اس رمضان میں تم بھی افطاری کروا کے ثوابِ دارین حاصل کر رہے ہو؟ حضرت صاحب کی یہ بات سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۔ اور آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا۔۔۔۔ پھر میں نے ایک نظر ان کے عظیم الشان جثے کی طرف دیکھا ۔۔ اور سوچنے لگا کہ حضرت صاحب کو افطاری کرانے سے بہتر ہے کہ میں اگلے ماہ ہونے والی اجتماعی شادیوں کا سارا خرچہ اُٹھا لوں ۔۔۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت صاحب نے ایک بار پھر اپنا بھاڑ سا منہ کھولا ۔۔۔اور کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ میں نے جلدی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حضور یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہو گی میرا تو ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے پھر ان پر جوابی حملہ کرنے کی غرض سے عرض کیا کہ محترم آپ سنائیں ۔۔۔ اس رمضان میں آپ کا کیا پروگرام ہے؟ تو آگے سے حضرت صاحب جو پتہ نہیں کس ترنگ میں تھے ( یا شاید کہیں سے مفت کھانا کھا کر آئے تھے ) کہنے لگے۔۔۔۔ پکوڑے کھائیں گے ۔۔۔شربت پئیں گے موج اُڑائیں گے اور کیا۔۔۔ حضرت صاحب کی ہرزہ سرائی سن کر مجھے ذرا حیرت نہ ہوئی کہ ۔۔ان جیسے اللہ لوک بندے سے مجھے اسی قسم کے جواب کی توقع تھی۔۔۔ اس لیئے میں نے اگلا سوال داغتے ہوئے ان سے پوچھا۔۔۔ حضور وہ تراویح، وہ عشاء کا کیا ہو گا؟ تو میرے اس سوال پر حضرت صاحب کی بجائے ان کے پاس کھڑا ایک من چلا کہنے لگا کہ اگر حضرت صاحب کو افطاری سے فرصت ملی اور بشرط کہ آپ ہوش میں بھی ہوئے تو ضرور پڑھیں گے ۔ یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ ہمارے حضرت صاحب اس قدر جذباتی ہو کر افطاری کرتے ہیں کہ اکثر اوقات افطاری کی خالی پلیٹوں اور دستر خوان کے پاس نیم بےہوشی کی حالت میں پڑے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ حضرت صاحب کے بارے میں ایک افواہ ساز نے (جس کی بات میں کچھ دم لگتا ہے ) مارکیٹ میں یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ آپ سے پہلے افطاریوں اور دعوتوں پر جناب کے قبلہ والد مرحوم جایا کرتے تھے اور ان کی وفات حسرِتِ آیات کے بعد یہ بھاری ذ مہ داری حضرت صاحب کے گلے پڑ گئی تھی تو اس سلسلہ میں راوی کا کہنا ہے کہ جب حضرت صاحب اپنی پہلی افطاری کھا کر واپس گھر آئے تو اپنی والدہ محترمہ کو مخاطب کر کے بڑے فخر سے کہنے لگے کہ ماں جی آج میں نے افطاری میں اس قدر کھایا ہے کہ مجھ سے چلا نہیں جا رہا تھا اس لیئے میں دیواریں پکڑ پکڑ کر گھر پہنچا ہوں ۔۔ حضرت صاحب کی بات سن کر ان کی ماں نے بڑی ہی ملامت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور پھر ان پر تُف بھیجتے ہوئے بولیں ۔۔ افسوس! آج تم نے اپنے بہشتی باپ کا نام ڈبو دیا ہے اور اس کی برسوں کی کمائی ہوئی عزت کو مٹی میں ملا دیا ہے پھر حضرت صاحب پر باقاعدہ نفرین بھیجتے ہوئے کہنے لگیں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایسے موقعوں پر تمہارا بہشتی باپ اس قدر کھا لیا کرتا تھا کہ محلے کے لوگ اسے چارپائی پر اُٹھا کر گھر لایا کرتے تھے کہتے ہیں کہ اپنی ماں کی یہ بات سن کر حضرت صاحب نے شرم کے مارے اپنی گردن جھکا لی اور عرقِ ندامت ان کے ماتھے سے ٹپکنے لگا ۔۔۔۔ کافی دیر کے بعد انہوں نے اپنا سر اُٹھایا اور اپنی ماں سے کہنے لگے۔۔ ماں جی آج کے بعد آپ کو شکایت کا موقعہ نہیں ملے گا ۔۔ اور پھر اس دن کے بعد حضرت صاحب نے اپنے بہشتی باپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس قدر کھانا شروع کر دیا کہ ان کو روکنے کے لیئے بعض اوقات 15 کو بلانا پڑتا تھا ۔۔۔ تو دوستو یہ تھا ہمارے حضرت صاحب عرف زمینی جن کا مختصر سا تعارف ۔۔
جبکہ حضرت صاحب کے تفصیلی تعارف کے لیئے مجھے فیتے کی ضرورت پڑے گی کیونکہ حضرت صاحب کا طول بلد بھی اتنا ہی جتنا کہ عرض بلد ۔۔ ایک اور خاص بات ۔۔ اور وہ یہ کہ حضرت صاحب دور سے دیکھنے پر بھی اتنے ہی نامعقول نظر آتے ہیں جتنے کہ نزدیک سے دیکھے پر ۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا گول ہے ۔۔۔اور ۔ آپ جناب کے بارے میں۔۔۔۔میں بقلم خود اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ آپ جناب گول مگول نہیں ۔۔ بلکہ گول منگول ہیں۔۔ منگول اس لیئے کہ آپ دستر خوان پر پڑی کھانے پنیے کی اشیاء کے ساتھ ٹھیک وہی سلوک فرماتے ہیں کہ جو پرانے زمانے میں منگولوں نے بغداد کے ساتھ فرمایا تھا ۔آپ کے بارے میں یہ بات بھی زبانِ ذدِ عام ہے کہ آپ ہر بات دماغ سے نہیں بلکہ پیٹ سے سوچتے ہیں مثلاً اگر ان سے پوچھا جائے کہ حضرت وقت کیا ہوا ہے ؟؟ تو آپ گھڑی کی طرف دیکھ کر کہیں گے بس چندا کھانا کھانے میں تھوڑا ہی ٹائم رہ گیا۔۔۔ غرض کوئی بھی بات ہو ان کی تان ہمیشہ کھانے پر ہی ٹوٹتی ہے حضرت صاحب کے بارے میں ایک اور انفارمیشن اور وہ یہ کہ آپ "صحت کی خرابی ” کی وجہ سے روزے تو کم ہی رکھتے ہیں لیکن افطار کا ثوات اپنے دونوں ہاتھوں اور اکیلے منہ سے ہر گز نہیں جانے دیتے ہیں چنانچہ اس پروگرام کے تحت آپ جناب ہر افطار کو اپنی آخری افطار ڈنر سمجھ کر کچھ اس مذہبی جوش و جزبے کے ساتھ کھاتے ہیں کہ انہیں یوں سامانِ افطاری کے ساتھ دست و گریبان دیکھ کر دشمن تو دشمن دوست بھی خوف زدہ ہو جاتے ہیں ۔
چونکہ ذکر رمضان کا ہو رہا تھا تو چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ افطاری میں حضرت صاحب کو خاص کر پکوڑوں سے بہت رغبت ہے اور اکثر ببانگِ دھل ارشاد فرماتے ہیں کہ برِصغیر میں تراویح کے ساتھ بطورِ خاص مسلمانوں کے لیئے پکوڑے بھی اتارے گئے اسی لیئے جس افطاری میں پکوڑے موجود نہ ہوں یہ اسے مکروہ گردانتے ہیں ۔۔ پکوڑوں کے بارے میں ان کا ایک اور فرمان ہے کہ پکوڑوں کو افطاری میں وہی مقام حاصل ہے جو کہ ریاضی میں مسلہ فیثا غورث کو ۔۔ یا گھریلو ٹوٹکوں میں زبیدہ آپا کو حاصل ہے ۔ مزید یہ کہ افطاری میں پکوڑوں کی عدم دستیابی پر حضرت صاحب خاصا ناک منہ چڑھاتے ہیں ۔۔۔۔ شنید ہے کہ پکوڑے بھی انہیں دیکھ کر ایسا ہی کرتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔
آخر میں حضرت صاحب کے بارے میں ایک اور بھی انکشاف کر دوں کہ جناب ہمارے افطاری فیلو ہیں ۔۔۔ افطاری فیلو یوں کہ شہر میں جہاں کہیں بھی افطاری کا پروگرام ہو رہا ہو ہم لوگ اس پروگرام میں ثوابِ دارین حاصل کرنے کے لیئے بن بلائے پہنچ جاتے ہیں اس سلسلہ میں حضرت صاحب اور ہمارے رفقائے کار نے باہمی رضا مندی اور مشاورت سے ایک غیر اعلانیہ ایم او یو پر بھی دستخط کر رکھے ہیں کہ جس کے مطابق فریقِ اول ، فریقِ دوئم کو یہ بات بتانے کا پابند ہو گا کہ آج ہمارے شہر میں کس کے ہاں افطار ڈنر کا اہتمام ہو رہا ہے۔ ویسے تو حضرت صاحب شہر میں ہونے والی کوئی بھی افطار پارٹی مس نہیں کرتے لیکن اگر کسی وجہ سے کہیں افطاری نہ ہو رہی ہو تو پھر مجبوراً حضرت صاحب گھر پر ہی افطاری کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اور حضرت صاحب کی افطاری اللہ اللہ ۔۔ افطاری کے وقت ان کے دستر خوان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مسلمانوں پر رمضان میں بس دستر خوان نازل ہوا تھا ۔