ڈاکٹر اورنگ زیب نیازیکالملکھاری
تو پھرہمارے ہیرو کہاں ہیں؟ ۔۔ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی

ہمارے ہیرو کہاں ہیں؟ اس ایک سادہ سوال کے جواب میں ایک سادہ ذہن ایک لمبی فہرست پیش کر سکتا ہے لیکن یہی ایک سوال کسی سوچنے والے بیدار ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے۔ اس ایک سوال کا محرک اصغر ندیم سید کا افسانہ ”ہمارے ہیرو ہمیں واپس کر دو“ ہے جو ملتان سے ڈاکٹر انوار احمد کی زیرِ ادارت شائع ہونے والے ”پیلوں“ کی حالیہ اشاعت میں شامل ہے۔ اجمال اس افسانے کا یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کے سرحدی علاقے پر میزائل داغے جاتے ہیںجس پر ہائی کمیشن کے اعلیٰ افسر کی وزارتِ خارجہ میں طلبی ہوتی ہے۔احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا ہے اور یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے ہیروز کے نام پر میزائلوں کے نام نہ رکھے جائیں۔ ہائی کمیشن اس مطالبے کی اطلاع پاکستانی وزارتِ خارجہ کو دیتا ہے جس پر وزارتِ خارجہ اور وزارتِ دفاع میںکھلبلی مچ جاتی ہے۔ نئے ناموں کی تلاش کے لیے اعلیٰ سطح کی ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین شامل ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس میں تجویز پیش کی جاتی ہے کہ میزائلوں کے نام اسلامی تاریخ کے ہیروز محمد بن قاسم ، خالد بن ولید ،طارق بن زیاد وغیرہ کے ناموں پر رکھے جائیں۔اس پر اعتراض اٹھتا ہے کہ کل کلاں کو عربوں نے بھی اپنے نام واپس مانگ لیے توپھر کیا بنے گا؟ کسی نے قائدِ اعظم کا نام تجویز کیا جسے چئیرمین نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ قائدِ اعظم مدبر اور صلح جو انسان تھے۔ مزید یہ کہ ہم قائدِ اعظم کے نام کی پہلے ہی بہت بے حرمتی کر چکے۔صوفیا کے ناموں پر اتفاق نہ ہو سکا کہ صوفیا نے امن اور محبت کا پیغام دیا۔ شاعروں کے نام اس لیے رد کر دیے گئے کہ ان میں وہ رعب اور جلال نہیں جو جنگ کے لیے ہونا چاہیے۔کمیٹی نئے نام تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہے اور اجلاس بے نتیجہ ختم ہو جاتا ہے۔
یہ سادہ تکنیک میں لکھا گیا ایک مختصر افسانہ ہے لیکن پورا افسانہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بظاہر افسانہ نگار نے جنگی ہتھیاروں کا ذکر کیا ہے لیکن درپردہ پوری تہذیبی شناخت پر سوال اٹھایا ہے۔تہذیبی شناخت اور جداگانہ ثقافت کا یہی سوال قیامِ پاکستان کے فوراََ بعد اٹھایا گیا تھاجس نے پاکستانی ادب کی تحریک کو جنم دیا ہے۔ان مباحث میں ہر مکتبِ فکر کے دانشوروں اور ادیبوں نے حصہ لیا مگر کسی واضح نتیجے تک نہ پہنچ پائے۔ کسی نے مذہب کی بنیاد پر پاکستانی تہذیب کا رشتہ چودہ سو سال قبل طلوعِ اسلام سے جوڑا تو کسی نے اس کی جڑیں قدیم ہندوستان میں تلاش کیں۔کسی نے اس کے ڈانڈے ٹیکسلا اور گندھارا کی تہذیبوں سے ملائے تو کسی نے وادی سندھ کی قدیم تہذیب سے، کسی نے مخلوط تہذیب کی بات کی تو کسی نے ثقافتی اکائیوں کی وحدت پر زور دیا۔ مگر یہ مسئلہ لاینحل رہا اور تہذیبی شناخت کا سوال جوں کا توں باقی ہے۔
قوموں کی تاریخ اپنے ہیروز کے کارناموں کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ جن قوموں کے پاس ہیروز نہیں ہوتے وہ قومیں بانجھ رہتی ہیں۔ہماری انفرادی تاریخ آزادی کے ساتھ شروع ہوتی ہے، ما قبل آزادی کی تاریخ میں بہت کچھ مشترک ہے اس لیے معرضِ سوال میں ہے۔ ہم جن شخصیات کو اپنے ہیرو تسلیم کرتے ہیں ان کے ساتھ ہمارا مذہبی ،روحانی ےا جذباتی تعلق ہو سکتا ہے مگر یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ وہ اس دھرتی پر حملہ آور کی صورت میں وارد ہوئے۔ تو کیا ایک حملہ آور ہیرو ہو سکتا ہے؟ ممکن ہے وہ حملہ آور مقامی حکمران کے ظلم و استحصال کے خلاف ایک نجات دہندہ کے طور پر آیا ہولیکن مسلمان حکمران، مسلمان حکمرانوں پر حملہ آور ہوئے۔ ایسے میں وہ ہم سے زیادہ ہندواور دوسری قوموں کے لیے نجات دہندہ ہوئے۔مگر ہندو انھیں اپنے ہیرو تسلیم نہیں کرتے۔ حضرت علی ہجویری،نظام الدین اولیا، بابا فرید اور دیگر صوفیوں نے ہر طرح کی سیاست اور جنگ سے ماورا ہو کر بلا تخصیص مذہب،رنگ ونسل اور ذات پات کے امن ،محبت ،روداری اور آشتی کے جو چراغ جلائے وہی چراغ گورو نانک ،بھگت کبیر اور میرا بائی کے ہاتھوں میں بھی نظر آتے ہیں۔انگریزی نو آبادیات کے خلاف جنگ ہماری مشترکہ جنگ تھی۔ بلا شبہ اپنی جان پر کھیل جانے والا احمد خان کھرل ہمارا ہیرو ہے۔ لیکن اسی کاز کے لیے جان دینے والا بھگت سنگھ کیوں نہیں؟
اصل سوال آزادی کے بعد ہماری ستر سالہ انفرادی تاریخ میں ہیروز کا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہیرو پیدا ہی نہیں ہوئے اور اگر کچھ پیدا ہوئے ہیں تو ہم نے انہیں ہیرو بننے ہی نہیں دیا اور اگر کسی کو بنانا چاہا ہے تو وہ پشت دکھا گیا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے ہیرو بن کر ابھرے،مگر چند سالوں میں دیوار سے لگا کر ہیرو سے زیرو کر دیے گئے۔ایساعالمی دباﺅ پر ہوا یا داخلی حالات کی وجہ سے یا اس میں ہمارے ہیرو سے کچھ خطا ہوئی۔سب قیاس آرائیاں اور مفروضے ہیں۔اصل راز سے پردہ اٹھ ہی نہیں سکا۔ان آنکھوں نے اپنے لڑکپن میں عمران خان کو ہیرو کے روپ میں دیکھا ۔ جب وہ پہلی مرتبہ شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ کے لیے نکلا تھا۔ سڑکوں ،بازاروں ، گلیوں ،محلوں میں بچوں، بوڑھوں ،عورتوں،جوانوں ،امیروں،غریبوں نے اس پر نوٹوں کے ساتھ بے پناہ محبتیں نچھاور کیںاس نے قوم کو مایوس نہیں کیا لیکن وہ بھی سیاست کے گندے تالاب میں اترا تو اب آئے روز اس کے دامن پر غلاظت کے چھینٹے پڑتے ہیں۔
جہانگیر خان اور جان شیر خان جنہوں نے سکواش کی دنیا پر ڈیڑھ ،دو دہائیوں تک بلا شرکتِ غیرے حکمرانی کی۔جن کو شکست دینے کی خواہش یورپی کھلاڑیوں کی حسرت بن گئی۔ آج آپ کو کسی ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں تو کیا رمضان ٹرانسمشن میں بھی دکھائی نہیں دیتے۔
ابھی برس روز نہیں ہوا ایک سورما رتھ پر سوار آیا تھا۔ پوری قوم نے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے۔ہر طرف سے شکریہ شکریہ کی صدائیں گونجتی رہیں۔شہر کے خارجی دروازوں پر ”جانے کی باتیں جانے دو“کے اشتہار آویزاں ہوئے مگر وہ اپنے تیر و تفنگ سمیت سرحد پار کر گیا۔ سنا ہے کسی دربارِ عالیہ میں بڑے عہدے پر متمکن ہے۔
ہمارے سوات کی گل مکئی کو مغرب نے ہمارا ہیرو بنانے کی کوشش کی تو قوم نے اسے تسلیم نہیں کیا۔رہے ایک عبدالستار ایدھی جنہوں نے اہنی ساری زندگی دوسروں کے لیے بسر کی۔ اس کا زیادہ اعتراف ان کے مرنے کے بعد ہوا۔وہ بھی دیکھیں کب تک۔کچھ فتوے تو کفن میلا ہونے سے پہلے آ چکے تھے۔رہے کچھ شاعر ادیب تو ان کی شہرت ادب سے دلچسپی رکھنے والے ایک محدود طبقے تک ہے۔ نئی کمپیوٹر نسل کی اکثریت تو ان کے نام سے بھی آشنا نہیں۔ایسے میں ہمار ا اصل ہیرو توایک ہی شخص رہ جاتا ہے جس کے سائنسی کمالات کا لوہا دنیا آج بھی ما ن رہی ہے۔ لیکن کیا آپ اس کا نام لے سکتے ہیں؟ میں تو نہیں لے سکتا کہ میں ابھی اپنے پیاروں کے ساتھ کچھ دن اور زندہ رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔