ہفت روزہ ” دید شنید“ میں ہمارا کالم ” تحفہ ء ملتان “ ہوتل بابا کے قلمی نام سے شائع ہوتا تھا ۔ معروف صحافی اور کالم نگار محترم رفیق ڈوگر اس رسالے کے مدیر تھے ،ڈوگر صاحب نے دھمکی آمیز خطوط اورٹیلی فون کالز کے باوجود ان کالموں کی اشاعت جاری رکھی ۔ بعد ازاں ایک طویل عرصہ تک ہم ملتانی کے قلمی نام سے بھی ادبی کالم لکھتے رہے ِ۔ ہوتل بابا کے نام سے یہ کالم ہم نے 1986 ء میں تحریر کیا ۔ ہوتل بابا کا قلمی نام ہمیں ڈاکٹرانور سدید نے عطا کیا تھا اور یہ بابا ہوٹل سے مناسبت رکھتا تھا جو اس زمانے میںادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا ۔ یہ تمام کالم اب کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آ رہے ہیں ۔ تیس سال بعد ان کالموں پر نظر ثانی کی گئی ہےکہ یہ تند و تیز کالم آج اصل صورت میں شائع ہو ہی نہیںسکتے کہ لوگوں میں اب برداشت اور حوصلہ نہیںرہا ۔کچھ واقعات جو اب دلچسپی کھو چکے انہیں حذف کر دیا گیا ہے اور کچھ شخصیات جو اب اس جہان میں نہیں رہیں ان کا ذکر جہاں کہیں بہت جارحانہ تھا ، اسے اب” قابلِ ا شاعت “ بنا دیا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے عہدِقدیم میں ملتان سے چا رتحفے منسوب تھے۔گرد گرما گداوگورستان۔اب یہ تحفے امتدادِزمانے کی نذرہوگئے۔کیونکہ
اُڑنے لگا ہے شہر میں طائر کھُلا
ہم نے اس مصرعے میں اشارہ اپنی جانب نہیں کیاکیونکہ ہمارے پرکٹے ہوئے ہیں اور ہم اُڑنے کی قوت سے محروم ہیں۔البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر طائرِ لاہوتی تحفۂ ملتان قراردیا جاسکتا ہے تو ہمارے اس کالم کوبھی تحفۂ ملتان ہی تصور کیجئے۔ہم کوشش کریں گے کہ زبان بند رکھ کر سارا کام کانوں اور آنکھوں سے لیں۔دید کو اہمیت دیں تو شنید کوبھی کم اہم شمارنہ کریں اور جو کچھ دیکھیں وہ سب آپ تک خلوص نیت سے پہنچا دیں۔آپ کو حق حاصل ہے کہ اس کہے سنے سے آپ کی تعریف کا پہلو نمایاں نہ ہو تو صرف احتجاج ’’دید شنید ‘‘ کوبھیج دیں اور تعریف کاپہلو نکل آئے تو ہمیں اطلاع دیں تاکہ ہم آپ کی مزید تعریف لکھ کر آپ کو بگولوں کاہم سفر بنادیں ۔یعنی آپ کو گھر کا رکھیں نہ گھاٹ کا۔ملتان میں 1986ء کے ادب کی پہلی صبح 1985ء کے ادبی جائزے سے طلوع ہوئی لیکن ہمیں یہ جائزہ اس لیے پسند نہیں آیا کہ جائزہ نگار نے نری گُل قند جمع کردی ہے۔ہم تو کھٹے آموں کے اچار کے طلب گارتھے۔جائزہ نگار کی رسائی چونکہ صرف کتابوں اوررسالوں تک ہوئی اس لیے اس نے ان ممولوں کو نظرانداز کردیا جو سال بھر شہبازوں پر لپکتے رہے۔انہوں نے یہ بتانے کی بھی زحمت نہ کی کہ پروفیسر تاثیر وجدان ایک مقامی اخبار کے ادبی ایڈیشن کے انچارج سے کیوں جھگڑ پڑے تھے ۔حالانکہ اس اخبار کے ادبی ایڈیشن میں پروفیسر صاحب کی تصویر کو ان کی تحریر سے زیادہ نمایاں حیثیت دی گئی تھی۔کچھ اسی قسم کی صورتحال غزل کے ممتازشاعر ممتاز اطہر نے بھی پیدا کی تھی اورحریفوں نے رپٹ تھانے میں لکھوادی تھی۔اس رپٹا رپٹی کا فائدہ یہ ہوا کہ شاعر کو کنج تنہائی میسرآگیا اورپھرانہیں میر وغالب کے اشعار میں بھی اغلاط نظرآنے لگیں۔ایک دفعہ تو اسی برس کے دوران ہمارے پسندیدہ طائرِلاہوتی جناب عرش صدیقی سے بھی لاڈلے بچوں کی طرح روٹھ گئے تھے۔اورانہوں نے اپنا آشیانہ حبیب فائق کے دولت خانے میں بنالیاتھا۔یہ سب باتیں ملتان کے جائزے میں آجانی چاہیے تھیں لیکن افسوس کہ بہت سی گفتنی ناگفتہ رہ گئیں۔لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے سال ہم ایک جائزہ خود لکھیں گے ۔اہل ادب سے درخواست ہے کہ وہ ہمیں اپنی کتابیں ابھی سے بھجواناشروع کردیں اوران کی ارسال کردہ کتابیں اگر کسی ’’سنڈے فٹ پاتھ سٹال‘‘ پر نظرآجائیں تو ناراض ہرگز نہ ہوں۔کیونکہ ہم کتابوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو بھارتی ادیبوں کے وفد نے طاہر تونسوی صاحب کی کتابوں کے ساتھ کیاتھا۔موصوف نے اپنے ناشر سے کتابیں خرید کر انہیں پیش کیں لیکن بھارتی ادباء انہیں لاہور میں ہی مقبول احمد مقبول کی نذر کرگئے ۔مقبول صاحب پرانے کتابوں کاکاروبار کرتے ہیں۔
ہم یہ کلمات لکھ ہی رہے تھے کہ ہمیں اعزاز احمد آذر بہت یاد آئے۔ملتان کا نیشنل سینٹر ان کاآشیانہ تھا اوروہاں وہ گل افشانئ گفتار کا اہتمام کرتے تھے۔کیسے کیسے طوطی پکڑ کرلاتے اور پھرانہیں سامعین بھی فراہم کرتے۔جس محفل میں سامعین کم پڑ جاتے ۔کمی نیشنل سنٹر کے ملازمین سے پوری کرلی جاتی۔پھربھی بات نہ بنتی تو علاقے کے کونسلر صلاح الدین ڈوگر سے مدد طلب کی جاتی اوروہ سینٹری انسپکٹر کی قیادت میں خاکروبوں کی پوری فوج بطور سامع نیشنل سینٹر کوفراہم کردیتے تھے۔اس تمام عرصے میں علاقے کے سب خاکروب صاحبِ ذوق ہوگئے ۔اشعار پرداد کاجھاڑو پھیرتے تو وہ گرد اُڑتی کہ اچھا شعر بھی نظر سے اترجاتا۔افسوس کہ ان کی یہ سخن فہمی و سخن سازی فلکِ کج رفتار کو پسند نہ آئی۔ایک طبقے نے ان کے خلاف پتھر اٹھالیے تو اُن کی آذری بھی کام نہ آئی ۔اعزاز احمد آذر نے اپنا بستر سمیٹا اور گوجرانوالا چلے گئے جہاں سے ان کاگھر ’’ککڑ اُڈاری‘‘کے فاصلے پر ہے۔نیشنل سینٹر ملتان کے تمام ملازمین انہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ہم نے اقبال ارشد ،حسین سحر ،انورجمال ،محمد امین ،حیدرگردیزی،خالد خلیل، شاکرحسین شاکر،سلیم جہانگیر،اطہرناسک،بیدل حیدری،رضی الدین رضی،اسلام تبسم اورقمررضا شہزاد کو اُن کے فراق میں بہت اداس دیکھا ہے۔یہ تمام لوگ شام کو بابے کے ہوٹل میں جمع ہو کر ’’غمِ فراقِ آذر‘‘چائے کی پیالی میں غلط کرتے رہے۔شاکرحسین شاکر اور رضی الدین رضی تو اتنے غمزدہ ہوئے کہ دونوں نے ملتان کو خیرباد کہنے کافیصلہ کرلیا۔شاکر سعودی عرب چلے گئے اور رضی نے لاہور میں ڈیرے ڈال لئے۔آخری خبریں آنے تک یہ دونوں حضرات ملتان واپس نہیں آئے اور ملتان کے ادباء سکھ چین کا سانس لے رہے ہیں۔’’نوائے ملتان‘‘ سے بھی اب کوئی نیا شوشہ نہیں اٹھتا۔
ہم نے بابا ہوٹل ملتان کا ذکر بے وجہ نہیں کیا ۔اسے ملتان کاٹی ہاؤس سمجھیں جہاں ادیب مل بیٹھتے ہیں اور ادب کی سیاست پر کھلے بندوں بحث کرتے ہیں۔ملتان میں ادب کے جوادارے مضبوطی سے قائم ہیں ان میں ایک بابے کاہوٹل بھی ہے۔آپ کے لیے یہ اطلاع بھی صحت افزا ہوگی کہ نسیم شاہد بہت تیزی سے طائرِلاہوتی بننے کی کوشش کررہے ہیں۔انہوں نے ابتداء شاعری سے کی، پھرافسانہ نگاری کی طرف آئے ،کچھ عرصہ انشائیوں سے محبت کی ،پھرترجمے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی سعی کی اوریہ سطریں لکھتے وقت وہ پیروڈی میں مٹرگشت کررہے ہیں۔ان دنوں کوئی اخباریا رسالہ ان سے محفوظ نہیں ۔طائرِلاہوتی اور نسیم شاہد میں فرق ہے تو بس یہ کہ اولالذکر کے پاؤں میں چکر ہے اورمؤخرالذکر صرف قلم کوہی گردش میں رکھتے ہیں۔دونوں میں قدرِمشترک یہ ہے کہ ڈاکٹر اے بی اشرف اور انوار احمد کی مجلس سے بھاگتے ہیں۔
پندرہ روزہ دید شنیدلاہور۔یکم فروری1986ء