اٹھائیس برس قبل چھ دسمبر کو ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد ہندو انتہا پسندوں کا نشانہ بنی تھی اور اس کے بعد گویا آگ لگ گئی ۔ پاکستان سمیت مختلف ممالک میں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو گیا ، کراچی لاہور ملتان اور اندرون سندھ لگ بھگ چالیس مندر گرا دیے گئے اور فسادات میں کئی جانیں بھی ضائع ہوئیں ۔ معاملات سات ستمبر سے بگڑنا شروع ہوئے تھے جب حکومت نے اس واقعہ کے سوگ میں تعطیل کا اعلان کیا ۔ بس پھر کیا تھا سکولوں کالجوں کے لڑکے جلوس لے کر سڑکوں پر آ گئے اور میدان گرم ہو گیا ۔ میں ان دنوں روز نامہ نوائے وقت سے منسلک تھا اور اس روز کی لیڈ سٹوری میں نے ہی بنائی تھی ۔ بابری مسجد کے گنبدوں پر چڑھ کر نعرے لگاتے جنونیوں کی تصویر میں سے کم و بیش آدھے صفحے کی سرخی نکالی گئی تھی۔ اس کوصحافتی زبان میں” پھٹّا “ لگانا بھی کہا جاتا ہے ۔ شہ سرخی بناتے ہوئے ایک صاحب نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ اگر بابری مسجد کے ساتھ شہید کا لفظ استعمال ہو گیا ہے تو تکرار لفظی سے بچنے کے لئے فسادات میں مرنے والے مسلمانوں کو شہید کی بجائے جاں بحق لکھ دیا جائے ۔
خیرہم سات ستمبر سے ہونے والے بلووں کا ذکر کرتے ہیں جن میں پرہلاد کے مندر سمیت ملتان میں بھی کم از کم دو مندروں کا گرایا جانا مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ اندرون شہر خیر المدارس کے اندر ایک مندر گراتے ہوئے ملبے کے نیچے آ کر کچھ لوگ جان سے بھی گئے تھے لیکن اس وقت جذبات ہی ایسے تھے کہ کسی کو روکنا ممکن نہیں تھا ۔ اس وقت کی حکومت بھی جذبات کو بھڑکا رہی تھی اور اپوزیشن اس معاملے میں اس کے ساتھ ایک پیج پر تھی ۔ پرہلاد کا مندر گرانے والے جلوس کی قیادت اس وقت کے میئر ملتان ملک صلاح الدین ڈوگر نے کی ، ڈوگر صاحب اس بعد میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر بھی رہے ۔
اب تو بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر ہو چکا اور وہ مسجد ماضی کا حصہ بن چکی لیکن اُس ایک جنونی حرکت کے نتیجے میں کیا کچھ تباہ ہوا اور کیسے کیسے تارٰیخی مندر اور مساجد تباہ ہوئیں یہ ایسا نقصان ہے جس کا ازالہ نہیںہو سکتا ۔ پرہلاد کے مندر کے بارے میں بہت سی روایات ہیں جن میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسی مندر سے ہولی کے تہوار کا آغاز ہوا تھا ۔ ملتان میں پرہلاد اور سورج کنڈ کے مندر تاریخی اہمیت رکھتے تھے اور ان مندروں میں بڑے بڑے اجتماعات ہوتے تھے ، دنیا بھر سے ہندو زائرین ملتان آتے تھے ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ملتان شہر میں تین سو کے قریب ہندو گھرانے اور دو ہزار افراد آباد ہیں، تاہم عبادت کے لیے صرف تین مندر ہیں۔ ان میں ڈبل پھاٹک کمہار منڈی میں بالمیک مندر، باغ لانگے خاں میں کبیر نواس مندر اور نصرت کالونی میں کرشنا مندر شامل ہیں۔ لیکن اگر تاریخی پرہلاد پوری مندر کی تعمیر نو کرکے اسے کھول دیا جائے تو سب وہیں جمع ہو کر عبادات کرسکیں گے۔
کرتار پور راہداری کھولے جانے کے بعد ہندو برادری کو توقع تھی کہ پرہلاد مندر سمیت تمام مندروں کی تعمیر و مرمت اور بحالی کے لئے موجودہ دور حکومت میں کوئی پیش رفت ضرور ہو گی لیکن سر دست معاملات جوں کے توں ہیں ۔ ملتان کی عظمت رفتہ کا عینی شاہد پرہلاد کا مندر ایک کھنڈر کی صورت میں موجود ہے اور ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب وہ ہزاروں لاکھوں افراد کی توجہ کا مرکز ہوتا تھا ۔
( بشکریہ : سب نیوز ۔۔اسلام آباد )