زاہد حسین گردیزی ایک محبت کرنے والے انسان ہیں۔وہ ایک سچے اور کھرے ملتانی ہیں ایک ایسے ملتانی جویہاں کے رسم ورواج سے محبت کرتے ہیں،جویہاں کی زبان سے محبت کرتے ہیں۔جوملتان کی ثقافتی سرگرمیوں میں بھرپور شریک ہو تے ہیں اورجن کی موجودگی ملتان کی ادبی محافل کو معتبر بناتی ہے۔ان سب خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ ملتان کی اصل پہچان کے وارث ہیں اور ملتان کی یہ پہچان آم ہیں، زاہد حسین گردیزی مینگو گروورز ایسوسی ایشن کے عہدیدار ہونے کے ناطے شہر کی اس پہچان کواجاگرکرنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ ملتان کی یہ شناخت اگرکوئی چھیننے کی کوشش کرے تو وہ اس کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں وہ آموں کے باغات کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل کیے جانے کے عمل پر طاقت ور لوگوں کے سامنے بھی آواز بلند کرنے سے گریزنہیں کرتے، لیکن اس سے بڑھ کربھی ان کی ایک پہچان ہے اور وہ پہچان انہیں پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں معتبر بناتی ہے، وہ پہچان ان کے والد سید قسور گردیزی ہیں،قسورگردیزی ملتان میں بائیں بازو کی سیاست کا سب سے معتبرنام ہے۔صرف سیاست ہی نہیں وہ صنعت وتجارت کے حوالے سے بھی ملتان کے محسنوں میں شمارہوتے ہیں وہ ملتان میں ایوان تجارت وصنعت کے بانی صدر تھے،انہوں نے اس زمانے میں یہاں تاجروں اورصنعت کاروں کے حقوق کے لیے یہ چیمبر قائم کیا جب ابھی یہاں صنعتیں اتنی زیادہ نہیں تھیں اوراس کے بعد ملتان صنعت وتجارت کے میدان میں آگے بڑھتا چلاگیا۔ قسورگردیزی شاعر بھی تھے اوران کی ایک اورپہچان ان کا وہ کتب خانہ ہے جس میں بہت سی نایاب کتابیں موجودہیں اوراس کتب خانے کے حوالے سے وہ علمی و ادبی حلقوں میں بھی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، وہ ان چند سیاست دانوں میں سے تھے جنہوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد میں قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کیں سیاست کو تجارت کی بجائے خدمت کاذریعہ بنایا اور آمریتوں کے خلاف ہمیشہ سینہ سپررہے،ان پر تشدد بھی ہوا۔ ان پر جھوٹے مقدمے بھی قائم ہوئے لیکن کوئی بھی ظلم ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکا۔
مقتدرہ قومی زبان کے سابق چیئرمین، نامور ماہر تعلیم،دانشور اورمحقق ڈاکٹر انوار احمد ایک طویل عرصہ سے اس کوشش میں تھے کہ قسور گردیزی صاحب کی کوئی ایسی مستند سوانح مرتب کی جائے جس کے ذریعے سرائیکی خطے کے بارے میں یہ تاثر ختم کیاجاسکے کہ اس خطے کے لوگ ہمیشہ آمریتوں کے سامنے سرجھکاتے ہیں ا ور ان کے حکم پر اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں، ڈاکٹر انوار کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے قسور گردیزی ایک روشن مثال ہیں جن کی سیاسی فکر کو ان کے بھائی ولایت حسین گردیزی اور پھر ان کے داماد حیدرعباس گردیزی نے بھی آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر انوار احمد کی تحریک پرہی سید قسور گردیزی کے صاحبزادوں مظفر عباس گردیزی اور زاہد حسین گردیزی نے ان کی سوانح مرتب کرنے کے لیے ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹرصلاح الدین حیدر، احمد سلیم،مظہر عارف ا ور اصغر ندیم سید پرمشتمل ایک ادارتی بورڈ قائم کیا اور جس نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ ان کی سوانح کاجو کام نامور محقق اور دانشورمحترم احمد سلیم نے شروع کیاتھا اورجوان کی علالت کے باعث مکمل نہیں ہوسکا اسے مکمل کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ان کے قریبی دوستوں کے ساتھ ملاقاتیں کی جائیں، ان کے انٹرویوز کی مدد سے اس سوانح عمری کو کم سے کم وقت میں اشاعت کے لیے روانہ کردیا جائے۔قسورگردیزی کے دوستوں میں ایک بڑا نام یوسف مستی خان کابھی ہے یوسف مستی خان عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر ہیں،ان کاتعلق بلوچستان سے ہے اوربائیں بازو کی تحریک میں انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا۔ملتان میں قسور گردیزی کی رہائش گاہ ایک زمانے میں بائیں بازو کی تحریکوں کامرکز ہوتی تھی۔ یوسف مستی خان کے علاوہ میرغوث بخش بزنجو، مولانا عبدالحمید خان بھاشانی، اجمل خٹک، خان عبدالولی خان، سردار شیر باز خان مزاری سمیت اس زمانے میں بائیں بازو کی سیاست سے منسلک اہم رہنما قسور گردیزی سے ملنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر آیا کرتے تھے،یوسف مستی خان کے ساتھ اسی سوانح کے حوالے سے ہم چند ماہ سے رابطے میں تھے اوریہ طے تھا کہ وہ جب بھی ملتان آئیں گے توان کے ساتھ ایک نشست سید قسورگردیزی کی یادوں کے حوالے سے ہوگی۔ گزشتہ ہفتے یوسف مستی خان ملتان آئے تو زاہد حسین گردیزی کی رہائش گاہ پر ان کے ساتھ طویل ملاقات ہوئی۔
جب ہم گردیزی صاحب کے گھرپہنچے تو یوسف مستی خان اور ان کی پارٹی کے رہنماء جاوید اختر نامورصحافی شوکت اشفاق کے ساتھ محوکلام تھے، شوکت اشفاق اور یوسف مستی خان کی گفتگو کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ بلوچستان کو اس کے معدنی وسائل اور جغرافیے کی وجہ سے دنیا بھر میں اہمیت بھی ملی اور اسی کے نتیجے میں بلوچوں کے دکھوں میں بھی اضافہ ہوا،سوئی گیس، کوئلے،سونے اور تابنے کے ان ذخائر نے یہاں کے لوگوں کو تو خوشحال نہیں کیا لیکن اوربہت سے لوگ اس کے نتیجے میں خوشحال ہوگئے اوراسی حوالے سے یہ خطہ سی پیک کاحصہ بھی بن گیا، لیکن ہمارا آج یہ موضوع نہیں۔ ہم دوبارہ اصل موضوع کی جانب ہی آتے ہیں یوسف مستی خان جب قسور گردیزی کا ذکر کر رہے تھے تو میں خود کو اسی زمانے میں محسوس کر رہا تھا جب قسور گردیزی ، عبدالولی خان،نسیم ولی خان، میرغوث بخش بزنجو سمیت نیپ کی پوری قیادت کو حیدرآباد ٹربیونل کیس میں گرفتار کیا جاچکا تھایوسف صاحب کی زبانی ہمیں ایسے بہت سے واقعات بھی سننے کوملے جو کسی کتاب میں موجودنہیں، انہوں نے بتایا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے قانون بنایا تھا کہ جو بھی قومیت کا پرچارکرے گا اسے سات سال قید بامشقت ہوگی اوراس کی پارٹی کو کام کرنے سے روک دیاجائے گا اوراسی بنیاد پر نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) پر پابندی بھی لگی انہوں نے بتایا کہ نیپ پرپابندی لگائے جانے کے بعد قسور گردیزی کو قید وبند کی بہت سی صعوبتیں برداشت کرناپڑیں ان پر بے پناہ تشددکیاگیا۔مصطفی کھر اس زمانے میں بھٹو صاحب کے معتمد ساتھی اورپنجاب کے گورنرتھے۔ قسور گردیزی کو برف کے بلاکس پر لٹایا جاتا تھا اور پردے کی دوسری جانب مصطفی کھر خود بیٹھ کر ان کی اذیت سے لطف اندوزہوتے تھے۔ اس زمانے میں قسورگردیزی نے بہت مصیبتیں جھیلیں لیکن وہ عزم والے انسان تھے، یہ عزم ہی تھا کہ وہ اذیتیں بھی برداشت کرتے رہے،قید وبند کابھی سامنا کیا، ان کے کاروبار کوبھی نقصان پہنچایا گیا لیکن کے ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔
(بشکریہ: روزنامہ پاکستان)
فیس بک کمینٹ