اس شخص کے بارے میں لکھنا جس کے بارے میں اس کی موت کے پچاس برس بعد بھی یہ طے نہ ہو سکا ہو کہ وہ بڑا آدمی تھاکہ برا آدمی… کچھ آسان کام نہیں ہے۔ سعادت حسن منٹوکے ہم عصروں سے لے کر اس کے بعد آنے والے ادیبوں کی کئی نسلیں اس بات پر اتفاق نہیں کر سکیں کہ منٹو کو کس نام سے یاد کیا جائے۔ وہ جو کرتا ہے چھپاتا نہیں اور جودیکھتا ہے وہ لکھ دیتا ہے۔ ایک ایسے شخص کو ایک ایسا معاشرہ جو اپنے باسیوں کی کئی نسلوں میں دوغلے پن کو ایک خوبی کے طور پر قبول کر چکا ہو، کیوں کر قبول کر سکتا ہے۔ اس لئے یہ لفظ بہت چھوٹے ہو جاتے ہیں کہ ’منٹو ایک سچا آدمی تھا‘۔ منٹو بے شک ایک سچا آدمی تھا لیکن وہ صرف اس سچائی کو بیان کرنے پر اصرارکرتا ہے جسے پورا معاشرہ بے کار اور متروک شے سمجھ کر نظرانداز کرنے پر مصر ہے۔ وہ اس اندھیری کوٹھری میں اپنے مشاہدے کی تیز روشنی لے کر پہنچ جاتا ہے جہاں صدیوں کے فرسودہ سماجی اور معاشرتی رویوں اور روایتوں کا ایک انبار ہے۔ یہ رویے ہمارے اردگرد چلتے پھرتے زندہ انسانوں کی روح اورمزاج کا حصہ ہیں لیکن ان پرروشنی پڑے اور ان کو منظر عام پر لایا جائے، یہ ہمیں گوارا نہیں ہے۔منٹوکی حیثیت اس عینی شاہد کی ہے جس نے اپنی آنکھوں سے جرم ہوتے دیکھا ہے اور وہ اسے ببانگ دہل بیان کرتا ہے لیکن پولیس اور اس کے گواہ، ایف آئی آر اور اس کے مندرجات اور اس سارے جھمیلے میں گھڑے گئے تکنیکی اور منطقی شواہد اس چشم دیدکو غلط قرار دینے پر بضد ہیں۔ اب ایک ایسا شخص جو پورے سماج کے اصرار اور بازپرس کے باوجود اپنی شہادت پر یقین بھی رکھتا ہے اور اسے بیان کرنے پر اصرار بھی کرتا ہے….. سچا ہو تو ہو، اچھا آدمی کیوں کر ہو سکتا ہے؟
میں اورمیرامعاشرہ دل سے چاہتا ہے کہ سعادت حسن منٹو کو جھوٹا آدمی ثابت کر سکیں مگر ہماری بوسیدہ، گلی سڑی روایتوں اور رویوں کی وہ کال کوٹھری جس میں یہ شخص گھس گیا ہے، ہمارے اس عزم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اب ہمارے پاس اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے کہ یہ اعلان کیا جائے کہ برائیوں کوکریدنا ایک برا فعل ہے اور جو شخص بھی گندگی سے کھیلتا ہے وہ گندا اور غلیظ ہے۔ وہ خام خیال ہے اورناپختہ شعور کی نمائندگی کرتا ہے۔ سعادت حسن منٹوکو بھی اپنی تعریف سننے کا ایسا کوئی شوق نہیں تھا۔ اسے معلوم تھاکہ اس نے جو کام شروع کیا ہے وہ قابل ستائش نہیں ہے لیکن اس کے اندر کا انسان اور اس میں پروان چڑھنے والا فنکار، کیوں کر اس گندگی اور غلاظت سے درگزر کر سکتا تھا جو اسے چہار سو بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ فنکار منٹو جانتا تھا کہ سچائی جانے بغیر اصلاح ممکن نہیں ہے اور وہ اس سچائی کو جسے وہ دیکھ رہا تھا، جس کو وہ جانتا تھا اور جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ وہ معاشرے کی جڑوں میں موجود ہے….. کسی طور چھپانے پر تیا رنہیں تھا۔ اب اس کو اس بات سے غرض نہیں تھی کہ یہ تعفن ماحول کو مزید آلودہ کر دے گا یا اس حقیقت کا بیان جسے اس کی فنکار آنکھیں دیکھتیں اورباشعور ذہن محسوس کرتا، سماج کے ٹھیکیداروں کو بار گزرے گا۔ وہ نہ تو خود اپنے آپ سے شرمندہ ہونے پر تیار ہے اور نہ ہی اسے اس بات کا ملال ہے کہ اس نے اپنی تحریروں سے بہت سے چہروں کو ننگاکر دیا ہے لیکن وہ اپنے اس ’جرم‘ کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہے۔ لہٰذا نقوش کے مدیرمحمد طفیل کے ساتھ اپنی موت سے صرف ایک برس قبل منٹو کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:
’میں کہتاہوں نقوش کا منٹونمبر نکالو’
’اب تک جتنی گالیاں ملی ہیں وہ سب سے پہلے چھپیں گی اور جتنے بے وقوفوں نے میری تعریف ہے وہ سب سے آخر میں چھپیں گی‘۔
جو شخص گالیاں سن کر بدمزہ نہ ہوبلکہ اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہو، اس کے سچے ہونے میں کسی کو کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں منٹوکو برا ثابت کرنے کے مختلف ہتھکنڈے اختیارکرنے کے سوا ہمارے پاس چارہ ہی کیا تھا۔ کسی نے کہا کہ ’اردو زبان میں افسانے کی زبان ہی موجود نہیں تھی اس لئے اگرمنٹو کی زبان خام ہے تو اس سے درگزرکرنا چاہئے‘۔ کسی نے اس کے افسانوں میں حقیقت پسندی تو دیکھی لیکن اس کا بیان انتہائی کم تر سطح کا پایا۔ کسی دوسرے مفکر کو ایسالگا کہ ’منٹو راستے میں ہی گم ہو گیا ہے اور منزل کی اسے فکرہی نہیں ہے‘۔ بعض لوگوں کو اس کا تیکھا اور دوٹوک لہجہ گراں گزرتا ہے کہ بڑے ادب کو تخلیق کرنے والے دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کا جواب دعویٰ نہایت سہل ہے اور حسب توقع دوٹوک بھی۔ وہ لکھتاہے:
’زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تومیرے افسانے پڑھئے۔ اگر آپ ان افسانوں کوبرداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے….. مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں….. میری تحریر میں کوئی نقص نہیں ہے جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، دراصل موجودہ نظام کانقص ہے….. میں ہنگامہ پسند نہیں۔میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی….. میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں، درزیوں کا ہے‘۔
بڑی حیرت کی بات ہے ایک شخص وعظ دینا نہیں چاہتا لیکن ہم اس سے اخلاقی درس کی توقع کرتے ہیں۔ ایک شخص اپنے معاشرے کا پرتو ہے مگرہم اس سے منزلوں کا سراغ پوچھتے ہیں۔ منٹو آئینہ ہے جس میں آپ وہی دیکھتے ہیں جو کچھ کہ آپ ہیں۔اس معاشرے اوراس کے کرداروں کی وہ تصویر جو ہم میک اپ کے ذریعے مدھم کر دینا چاہتے ہیں مگر سعادت حسن منٹو گرم پانی کے ایک چلو سے وہ جعلی میک اپ اتار پھینکتا ہے اور ایک مکروہ، بھیانک چہرہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے کیونکہ یہی اصل چہرہ ہے۔ وہ ہتک کی سوگندھی ہویا کالی شلوار کی سلطانہ….. وہ ایک ایسا آئینہ ہیں جسے دیکھنے سے ہم شرماتے ہیں مگرمنٹو پوری تفصیل سے وہ چہرہ ہمیں دکھانے پر اصرارکرتا ہے۔ اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں موندلیں اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
سعادت حسن منٹو نے گندگی کے اس ڈھیرمیں سے بھی سچے نگینے نکال کرہمیں دکھائے ہیں۔ اس پر ہمیں درحقیقت اس کا شکرگزارہونا چاہئے۔ طوائف کے بارے میں اس کے افسانے ان بنیادی انسانی خوبیوں کو بھی سامنے لاتے ہیں جو ہم نے ایک خاص طبقہ کے نام ہبہ کر دی ہیں۔
منٹوکی طوائف اصول کی بات بھی کرتی ہے اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار بھی ہے اور ایثارکرنے پر بھی آمادہ ہے۔منٹوکے افسانوں کی طوائفیں ہمیں بعض ایسے سبق دیتی ہیں جوہمیں پرائمری کلاسوں میں یادکروائے جاتے ہیں لیکن جو یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے بھلادیے جاتے ہیں۔ منٹو خوداپنے کرداروں کے بارے میں یہ بیان کرتا ہے:
’جب میں ٹرین میں بیٹھابیٹھا اپنا قیمتی قلم نکالتاہوں، صرف اس غرض سے کہ لوگ اسے دیکھیں اور مرعوب ہوں تو مجھے اپنا سفلہ پن بہت عجیب محسوس ہوتا ہے….. میرے پڑوس میں اگرکوئی عورت ہر روز خاوند سے مارکھاتی ہے اورپھر اس کے جوتے بھی صاف کرتی ہے تو میرے دل میں اس کے لئے ذرہ برابر ہمدردی پیدانہیں ہوتی لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑ کر اور خودکشی کی دھمکی دے کر سینما چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے تک سخت پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں سے ایک عجیب و غریب قسم کی ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی لڑکے کولڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا۔ مگر وہ لڑکامیری توجہ ضرور کھینچے گا جو ظاہرکرے کہ اس پر سینکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ….. اس بظاہر کامیاب عاشق کی رنگین باتوں میں جو ٹریجڈی سسکیاں بھرتی ہو گی، اس کو میں اپنے دل کے کانوں سے سنوں گا اور دوسروں کو سناؤں گا….. چکی پیسنے والی عورت جو دن بھرکام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو سو جاتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آیا ہے….. اس کے بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اچٹتی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑچڑاپن، اس کی گالیاں، یہ سب مجھے بھاتی ہیں….. میں ان کے متعلق لکھتاہوں اور گھریلو عورتوں کی سشتہ کلامیوں،ان کی صحت اور نفاست پسندی کونظرانداز کر جاتا ہوں‘۔
سعادت حسن منٹو اپنے عہد اور اپنے دور کا انسان تھا لیکن اس کا معاشرہ اور اس مشاہدہ کو بیان کرنے کا اس کا انداز اس کے نثر پاروں کو آفاقیت کے معیارپر پہنچا دیتا ہے۔ وہ معاشرے کے جس طبقے میں گھومتاپھرتا اور رہتا ہے، جس کو دیکھتا اور جانتا ہے، اس کے بارے میں ہی بیان کرتا ہے۔اس کا یہ بیان صرف سماجی آبلوں کی پردہ دری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کے افسانے اس عہد کے سیاسی منظرنامے کی بھی ایسی جامع تصویر پیش کرتے ہیں جو قاری کو چونکا دیتی ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بشن سنگھ اور نیا قانون کااستاد منگو ایسے کرداروں کی بہت جاندار مثالیں ہیں۔ یہ دونوں کہانیاں اپنے عہد کا مکمل منظر نامہ ہیں اور ایسے کھرے اور تیکھے سوال بھی جو اب تک تشنہ جواب ہیں۔
مجید امجد بھی سعادت حسن منٹو کے عہد اور طبقے کا انسان تھا۔ اس لئے اس کی یہ نظم منٹو کی سوچ،شخصیت اور فن کو شاید سب سے بہتر اندازمیں منعکس کرتی ہے:
میں نے اس کو دیکھا ہے
اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں
پھیلتی بھیڑ کے اندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں
جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے
’دنیا تیرا حسن یہی بدصورتی ہے‘
دنیا اس کو گھورتی ہے
شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے
انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال
کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال
بام زماں پر پھینکا ہے
کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پُرپیج دھندلکوں میں
روحوں کے عفریت کدوں کے زہراندوز محلکوں میں
لے آیا ہے، یوں بن پوچھے، اپنے آپ
عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ؟
کون ہے یہ گستاخ؟
تاخ! تراخ
تاخ تراخ کہ یہ آواز ہر اس چوٹ کی گونج اور دھمک ہے جو منٹو کی کہانیاں پڑھتے ہوئے قاری کے دل و دماغ پرلگتی ہے۔ روح پر لگے زخموں کا بیان سہل نہیں ہوتا لیکن جب تک ان زخموں سے پردہ نہ اٹھایا جائے، نہ ان کی صفائی ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کاعلاج ممکن ہے۔ منٹو نے بڑی ہمت اور جرات کے ساتھ سماجی علتوں کی نشاندہی کی ہے اور ان کے بیان میں اتنی احتیاط اور چابکدستی سے کام لیا ہے کہ وہ کسی صالح کی تقریرنہیں بنتے۔ پورا منظرنامہ پڑھنے والوں کی نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ قاری خودکو اس ماحول کا حصہ محسوس کرتاہے اور یوں لگتا ہے کہ کردار اپنی کہانی خود اس کو سنا رہے ہیں۔ منٹوکی یہ سچائی اور اس کا یہ انداز انتہائی سفاکانہ ہے لیکن یہ کسی قاتل کی سفاکی کی بجائے ایک ہمدرد کی سفاک ہے جو ان زخموں کا علاج چاہتا ہے۔ اب اس سے علاج اور دوا کی توقع کرنا نہ تو مناسب ہے او ر نہ ہی یہ ایک ادیب کاکام ہے۔
کیشولال منٹوکے افسانہ ’نعرہ‘ کاکردارہے۔ وہ کہانی کے اختتام میں حالات کی ستم ظریفی سے تنگ آکر پھیپھڑوں کی پوری قوت سے نعرہ بلند کرتا ہے۔ اس نعرہ کی دھمک سے ایک راہگیر خاتون سہم جاتی ہے تو اس کا شوہر اسے تسلی دیتے ہوئے کیشولال کے بارے میں کہتا ہے:
’پاگل ہے‘
منٹوکے نعرہ مستانہ کے جواب میں اب اس سے اچھی طفل تسلی اور کیا ہوگی۔
(یہ مضمون جنوری 2005 میں سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی کے موقع پر لکھا گیا تھا اور ہفت روزہ جد و جہد میں شائع ہؤا تھا)
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )