دوستو! جوبات بھی کرتی ہوں ذاتی تجربےاور اردگردکے لوگوں کےمشاہدے کی بنیاد پر کرتی ہوں کبھی دوران ڈرائیونگ اردگردنظر دوڑائیں ہے ۔موٹرسائیکل سواروں پہ غور کریں کسی موٹربائیک پہ سامنے شیشے نہیں ہیں اور کبھی تو آٹھ دس سال کے نحیف سے بچے نے سو کلو کی والدہ اپنے ساتھ بٹھائی ہوتی ہے ۔ ماں کے سوروپے رکشے کے ضرور بچے مگر اللہ کی بندی کو اندازہ نہیں کہ چارفٹ کابچہ موٹربائیک سنبھال نہ پایا تو کیاہوگا۔ کبھی تو موٹر سائیکل سوار کان سے موبائل لگائے اس قدرمنہمک جارہاہوتا ہے ۔گھریا اہم ترین بزنس میٹنگ نکل جائے گی یا اہم ترین میٹنگ موبائل پہ جاری ہے۔ اوربزنس ڈیل نکل جائے گی۔میری بیٹی ڈاکٹر ہے اس کاکہنا ہے کہ ایک نائٹ ڈیوٹی میں آٹھ سے دس حادثے موٹرسائیکل سواروں کے ہوتے ہیں اور کئی تو اتنے بھیانک ہوتے ہیں کہ بھیجہ سر سے باہر نکلا ہوتا ہے ۔ایک کی تو آنکھیں نکل کرباہرلٹکی ہوئی تھیں ۔آخر ان سے پوچھا جائے کہ کون سی جلدی ہے ان کو۔
اوررکشہ ڈرائیور نے تو یہ سبق ازبر کررکھا ہے کہ اردگرد نہیں دیکھنا کسی کو بچنا ہے تو خودبچے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ایک ملنے والے ٹریفک وارڈن بچے سے سوال کیا کہ آپ لوگ یہ سب کنٹرول کیوں نہیں کرتے۔ اس نے بھی عجب جواب دیا ۔میں سمجھتی ہوں کہ وہ حق بجانب تھا اس نے کہاکہ اگر کسی کوروکو تو غلطی کرنے والا سب سے پہلے فون گھمانا شروع کردیتا ہے ،کسی سیاسی بندے سے بات کروا کر دھمکانے کی کوشش کرے گا۔ کئی ٹریفک وارڈنز نے بہت برے برے نتائج بھگتے ہیں یہاں ایک ایم این اے کابھانجا وارڈن کی ٹانگیں توڑ چکا ہے جوتاحال معذورہے۔
کہاں سے آئے ہیں یہ لوگ ۔کن ماﺅں نے ان کی تربیت کی ہے ،کس خدا کے ماننے والے ہیں یہ لوگ۔کبھی سڑک پر چنگھاڑتی ہوئی ایمبولینس دیکھی ہے کوئی مائی کا لال راستہ چھوڑنے کو تیارنہیں ہوتا۔ ایک بار کچہری کے سامنے ٹریفک جام تھی اور ایمبولینس پھنسی تھی کہ اچانک ایک لڑکا ایمبولینس سے نکلا اور اگلی گاڑی کے ڈرائیور کی منتیں کرنے گا کہ بھائی صاحب ایمبولینس میں میرے ابو ہیں ہارٹ اٹیک آیا ہے۔آپ ہمیں راستہ دے دیں ۔ مگر نہیں ہم زندگی کی دوڑ میں اتنے سبک رفتارہیں کہ انسانیت کوکہیں پیچھے چھوڑ آئے خیرقدرت بھی کہیں موجودہے۔ جورویہ روا رکھو تمہیں ایک روز اس کاسامنا ضرور کرنا ہے۔
ایک اوربات نوٹ کیجئے کسی کو تصور تک نہیں کہ فاسٹ لائن میں جو ٹریفک چلے گی ،موٹرسائیکل سوار کو فاسٹ لائن میں ہی پائے جائیں گے جواس بات کی عکاسی ہے کہ یہ لوگ لائسنس کہاں سے اورکیسے لائے ہیں یقیناً گھربیٹھے بن گئے ہوں گے۔ملتان کی بدقسمتی ہے کہ تنگ سڑکیں وراثت میں ملی ہیں مگرسڑکوں کوکشادہ کرنے کی ضرورت کبھی محسوس ہی نہیں کی گئی۔ مفاد عامہ کاتقاضایہی ہے کہ فلائی اوورزضرور بنتے مگر سڑکوں کوکشادہ بھی کیاجاتا کیونکہ ملتان میں لاہور کی طرح متبادل راستے نہیں ہیں ۔متبادل کے طورپر گلیاں اگر ہیں تو بہت تنگ ہیں بلکہ پورا شہر ہی تنگ گلیوں پر مشتمل ہے اوربیرونی لوگوں کی نقل مکانی جس قدراس شہر میں ہوئی اور کہیں نہیں ہوئی۔ تعلیم کی وجہ سے قریبی شہروں سے فیملیز یہاں شفٹ ہوئیں ۔آبادی کی یلغار تو بڑھی مگرسڑکوں پرتوجہ نہ دی گئی اس لیے اکثر ٹریفک جام ہی رہتی ہے ۔سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ کچہری کاسٹینڈ باہر ہے اورآدھی سڑک کچہری کی گاڑیوں کی وجہ سے بلاک رہتی ہے ۔کچہری کی پارکنگ اندر موجودمگربے ہنگم طریقے سے گاڑیاں پارک ہوتی ہیں اورسڑکیں جس طریقے سے ڈیزائن کی گئی ہیں اورچوراہے جس طرح ڈیزائن ہیں پتا نہیں وہ آرکیٹکچر کون تھا کہ چوک کمہاراں والا پہ کچھ پتا نہیں چلتا کہ کہاں سے مڑنا ہے ۔ دوسرا نونمبر چوک عجیب بے ہنگم ہے کہ اکثر لوگ کھڑے منہ ماری کررہے ہوتے ہیں ۔سڑکوں کی دگرگوں حالت اور ان پرسرکس کرتے موٹرسائیکل سوار۔ پتا نہیں میں نے تو سنا ہے کہ کسی ملک کی ٹریفک اس کے شہریوں کے مزاج کی عکاسی کرتی ہیں اور ہماری کیاعکاسی ہورہی ہے ۔ان سڑکوں پرمیں کہنا نہیں چاہتی کیونکہ جملے تہذیب سے عاری ہوجائیں گے۔بس یہی کہوں گی کہ بھئی کون ہو تم ؟
فیس بک کمینٹ