گزشتہ ایک دہائی میں سوشل میڈیا کے استعمال میں جس قدر تیزی دیکھنے میں آئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج کل کی دنیا میں اپنی بات کہنے اور آگے پہنچانے کا بہترین ، موثر ترین اور تیز ترین پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہی ہے۔سوشل میڈیا کو صرف ذاتی مقاصد کے لیے ہی استعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کی وسعت اور اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا کاروباری ، سماجی اور سیاسی استعمال بھی خاصا مقبول ہو چکا ہے۔یوں تو سوشل میڈیا کے سارے پہلو ی خاصے دلچسپ ہیں لیکن سوشل میڈیا کا سیاسی استعمال انتہائی دلچسپ اور موثر ہو چکا ہے۔ آج کل سیاستدان صرف اپنی بات پہنچانے کے لیے ہی سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتے بلکہ اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والی سیاسی شخصیات اپنی امیج بلڈنگ یا سیاسی ساکھ بنانے کے لیے بھی سوشل میڈیا کابھرپور استعمال اپنائے ہوئے ہیں ۔ شروع شروع میں سوشل میڈیا کا سیاسی استعمال صرف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک تک ہی محدود تھا۔جہاں سوشل میڈیا کے سیاسی استعمال پر کافی تحقیق بھی کی جاچکی ہے۔تاہم بعد ازاں اس کے سیاسی استعمال کا دائرہ کار بڑھتا چلا گیا اور عرب سپرنگ نے سوشل میڈیا کی طاقت کو ساری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا.سوشل میڈیا کے حیران کن اثرات کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کو سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔پاکستان میں سوشل میڈیا کے سیاسی استعمال کو تحریک انصاف نے نئی بلندیوں تک پہنچایا 2013 کے انتخابات میں سوشل میڈیا بالخصوص اگر فیس بک کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کس طرح 2013 کے انتخابات سے پہلے ہی سوشل میڈیا اور پاکستانی سیاست کا ایک گہرا رشتہ قائم ہوچکا تھا۔۔آج بھی سوشل میڈیا پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔بالخصوص ٹوئٹر کا سیاسی استعمال اپنے عروج پر ہے۔پاکستان کے مقبول سیاسی رہنما اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے عوام سوشل میڈیا کے سیاسی استعمال کے لیے ٹوئٹر کو ترجیح دیتے ہیں۔آج ٹوئٹر پر ٹرینڈز بنائے جاتے ہیں یہ ٹرینڈر اپنے سیاسی لیڈران کی حمایت اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔
ایسے ہی کچھ ٹرینڈر بنانے کا سہرا وینا ملک کو بھی جاتا ہے۔۔۔جی ہاں وینا ملک ۔۔۔وہی وینا ملک جو کبھی ایک نجی چینل پر انفوٹینمنٹ پروگرام میں بطور میزبان کام کرتی رہیں اس کے ساتھ ساتھ اداکاری کے شعبے میں بھی نام بنایا۔۔رئیلٹی شو بگ باس کے ذریعے بالی وڈ میں قدم رکھا مگر شہرت سے زیادہ بدنامی کمائی ۔۔۔ ان کے ایک مبینہ فوٹوشوٹ نے تو ایک ایسا تنازعہ انکے گلے ڈالا کہ جس سے آج بھی جان چھڑوانی مشکل ہے۔۔۔مختلف متنازعہ ویڈیوز، معاشقے اور دیگر اسکینڈلز نے وینا ملک کو گھیرے رکھا اور وینا ملک کا بالی وڈ کیرئیر بھی طویل نہ ہوسکا۔پاکستان لوٹیں تو سب چھوڑ چھاڑ کر رشتہ ازدواج میں بندھنے کا اعلان کیا ۔۔شادی بھی زیادہ دیر کامیاب نہ ہوئی تو ایک بار پھر ٹی وی سکرین کا رخ کیا۔آج کل وہ نہ صرف ایک نجی ٹی وی کے ٹیلنٹ شو میں مصروف نظر آتی ہیں بلکہ ان کے وقت کا ایک بڑا حصہ ٹوئٹر کی چھتر چھایا میں گزرتا ہے جس میں وہ کھل کر پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کرتی اور انکے مخالفین کو لتاڑتے ہوئے نظر آتی ہیں خواہ ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہو یا پیپلز پارٹی سے اور تو اور حکومت پر تنقید کرنے والے صحافی بھی وینا ملک کے لفظی واروں سے بچ نہیں پاتے۔
کچھ عرصہ پہلے چلنے والی اس سوشل میڈیائی کیمپین نے تحریک انصاف کے حامیوں میں خوب پذیرائی حاصل کی ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ادھر سے وینا ملک نے ٹویٹ کیا نہیں اور ادھر سے وینا کے ہم خیال وینا ملک کی ٹویٹ پر آپہنچتے ہیں ۔لائک ، کمینٹ اور ری ٹوئٹس شروع ہوجاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ٹویٹ سینکڑوں بار ری ٹویٹ ہوجاتا ہے۔ہزاروں لائک اور درجنوں کمینٹ سمیٹے وینا ملک کا ایک ایک ٹویٹ تحریک انصاف کے مخالفین کو تیر کی طرح نشانہ بناتا ہے۔وہ چھوٹی سی چھوٹی بات کا جواب دینے سے بھی نہیں چوکتیں۔ادھر وہ ٹرینڈ بناتی ہیں اور ادھر اس ٹرینڈ پر دھڑا دھڑ ٹویٹس ہونے لگتے ہیں۔
وہ اپنی سوشل میڈیائی کمپین میں فوج کی مدح سرائی کرتے ہوئے پاک فوج کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا اظہار بھی کرتی ہیں اور خود ایک فوجی کی بیٹی ہونے پر فخر کرنے کا اظہار بھی کرتی ہیں۔وینا ملک کی اس مہم میں فوج کے مخالفین کو بھی دھرا جاتا ہے مگر ان کی مہم کی جان انکی سیاسی ٹوئٹس ہیں جس میں وہ نہ صرف حکومت کے ساتھ کھل کر اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کرتی ہیں بلکہ حکومت کے مخالفین کو چن چن کر نشانے پر رکھتی ہیں خواہ وہ پیپلز پارٹی سے ہو مسلم لیگ ن سے یا کسی اور جماعت سے لیکن اگر ان کے سیاسی ٹویٹس کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی اس سوشل میڈیائی کمپین کا مرکز سابق دختر اول مریم نواز ہیں جنکو وہ طنزیہ انداز میں نانی کہہ کر یاد کرتی ہیں۔۔کبھی وہ اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس اور اس میں مریم نواز کے کردار پر تبصرہ کرتےہوئے کہتی ہیں کہ جب بھی میچ ہوتا ہے تو نانی اماں اپنا میچ رکھ لیتی ہیں۔کبھی وہ اس انداز سے تنقید کرتی ہیں کہ ڈئیر نانی اماں پاکستانی عوام کا پیسہ واپس کرو اور اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ لندن جا کر رہو تو کبھی ٹویٹ کرتی ہیں کہ بیماریوں سے نہ مرا تو باپ کو زہر دے کر مار دے گی۔۔۔ گو کہ انکے یہ ٹویٹس ہزاروں لائکس اور کمینٹس سمیٹتے ہیں لیکن اگرغیر جانب داری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ سوشل میڈیائی مہم پاکستانی سیاست میں ایک اچھا کلچر پیدا نہیں کر رہی گو کہ اس سے پہلے ایسی ہی مہمات انہوں نے شروع کیں جو آج اس مہم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔۔۔پاکستانی سیاست میں کسی کی ذات پر کیچڑ اچھال دینا تو گویا رواج ہوچکا ہے۔۔۔وینا ملک کی جانب سے کی گئی ٹویٹس میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔ٹویٹس میں متعدد بارمریم نواز کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا ہے اور ان کے ماضی سے جڑے افسانوں کو ہوا دی گئی ہے۔ کچھ ٹویٹس میں تو ایسے اشارے و کنایے استعمال کیے گئے ہیں کہ میں ان ٹویٹس کا تذکرہ بھی یہاں نہیں کر سکتی۔۔۔
مسلم لیگ نواز کی جانب سے اس سوشل میڈیائی مہم کا نوٹس لے لیا گیا ہے ۔مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ہم بخوبی اس بات سے آگاہ ہے کہ مریم نواز کے خلاف یہ مہم کس کی پشت پناہی میں شروع کی گئی ہے۔مریم اورنگزیب نے اس مہم جوئی کی پشت پناہی کرنے والوں کو خبردار بھی کیا۔
اس سارے مسئلے میں ایک عام پاکستانی حیران ہے کہ کیا سیاست صرف دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا نام رہ گیا ہے۔کیا دوسروں کی ذاتیات کو نشانہ بنانا سیاست کا لازمی جزو ہے۔اگر یہی سب سیاست ہے اور سیاست کا لازمی جزو ہے تو پھر اصولوں کی سیاست کہاں گئی وہ سیاست کہاں گئی جس کی بنیاد پر بابائے قوم محمد علی جناح نے اکثریت کو اخلاقی و سیاسی شکست دے کر پاکستان جیسی نعمت حاصل کی تھی۔خدارا کوئی تو بس کردے ، کسی کو تو بس کرنا ہوگا۔۔۔اس ملک کے لیے ،پاکستان کے لیے۔