گزشتہ روز ان سطور میں چئیرمین سینیٹ کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا تھا کہ اب وزیر اعظم عمران خان صادق سنجرانی کو دوبارہ چئیرمین منتخب کروانے کے لئے کون سا شفاف شعبدہ دکھانے والے ہیں۔ آج کے دوران انہوں نے اس حوالے سے کچھ دلچسپ اشارے دیے ہیں۔ 12 مارچ تک کوئی بڑا دھماکہ بھی ہوسکتا ہے۔
بظاہر سینیٹ کے نئے منتخب ارکان کے بعد بھی سینیٹ میں تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل نہیں ہوسکی ۔ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ کسی منتخب ادارے کے چئیرمین کا عہدہ بہر حال اکثریت کے ووٹ سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان البتہ سیاسی ’خرید و فروخت‘ کو سخت برا سمجھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’اسی قسم کے ہتھکنڈوں سے ملک تباہی کے کنارے تک پہنچا ہے‘۔
اس دعویٰ کے باوجود کل پاکستان تحریک انصاف کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے چئیرمین کے انتخاب کے لئے لگنے والی’ بولی ‘کے ریٹ بتائے اور حاضرین کو یقین دلایا کہ وہ ہر صورت صادق سنجرانی کو چئیرمین منتخب کروائیں گے۔ یہ گویا بولی میں شامل ہونے کا اعلان تھا۔ اگر ماضی کے ریکارڈ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عمران خان کی بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگست 2019 میں اپوزیشن اتحاد کو سینیٹ میں بھاری بھر کم اکثریت حاصل تھی لیکن وزیر اعظم نے صادق سنجرانی سے ایک روز پہلے ملاقات کی اور انہیں دلاسا دیا کہ وہ بے فکر ہوجائیں، انہیں کامیاب کروایا جائے گا۔ عمران خان نے یہ وعدہ حرف بہ حرف پورا کیا ۔ بلکہ اس کی اس حد تک لاج رکھی کہ اب تحریک انصاف گو کہ سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے ، اس کے باوجود وزیر اعظم اپنی پارٹی کی بجائے بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی کو چئیر مین بنوانے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔
2019 میں صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد پر اپوزیشن متحد تھی اور اسے سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ عدم اعتماد کی قرار داد پر اپوزیشن کے سینیٹرز نے ہال میں کھڑے ہوکر صادق سنجرانی پر عدام اعتماد کا اظہار کیا۔ تاہم جب ضابطہ کے تحت اس قرارداد پر ’خفیہ ووٹنگ‘ ہوئی تو حکومت سرخرو رہی۔ عمران خان کی بات درست ثابت ہوئی اور صادق سنجرانی بدستور چئیر مین کے عہدے پر فائز رہے۔ خفیہ ووٹ دیتے ہوئے اپوزیشن کے 14 سینیٹرز کا ضمیر بیدار ہوگیا اور انہوں نے وزیر اعظم کی پیش گوئی کو درست ثابت کردیا۔ جی ہاں یہ وہی خفیہ ووٹنگ ہے جسے عمران خان اسمبلیوں کے ارکان کی بھیڑ بکریوں کی طرح خرید و فروخت کا سبب قرار دیتے ہیں۔ اور اس پر اس قدر نالاں ہیں کہ اس شق کو ختم کروانے کے لئے انہوں نے سپریم کورٹ تک کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بعد ازاں اپنی ہی پارٹی کے ’باضمیروں‘ کے ہاتھوں وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی شکست پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آڑے ہاتھوں لیا تھا کہ اس نے خفیہ ووٹنگ کو اوپن ووٹنگ سے تبدیل کیوں نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کا جواب سادہ تھا: جناب جیت کے علاوہ شکست قبول کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔ اور اگر خفیہ ووٹنگ کا طریقہ بدلنا ہے تو آئین میں ترمیم کر لیجئے۔
اگست 2019 میں اپوزیشن پارٹیوں نے بلند بانگ دعوے کئے کہ ان کالی بھیڑوں کی نشاندہی کی جائے گی جنہوں نے ایوان میں صادق سنجرانی کے خلاف قرار داد پیش کی ۔ ان سینیٹرز کی تعداد 64 تھی لیکن تھوڑی ہی دیر بعد جب خفیہ ووٹنگ کا نتیجہ سامنے آیا تو صادق سنجرانی کے خلاف صرف 50 ووٹ آئے اور عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی۔ یاوش بخیر اس وقت صادق سنجرانی کو ہٹا کر مرحوم میر حاصل بزنجو کو چئیرمین سینیٹ بنوانے کی کوشش کرنے والی اپوزیشن جماعتیں اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کئے ہوئے ہیں اور کسی بھی قیمت پر عمران خان کو نیچا دکھانے کی تگ و دو کررہی ہیں۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی آج تک ان’ باضمیر‘ سینیٹرز کے نام سامنے نہیں لاسکا جنہوں نے اپوزیشن کے مشترکہ منصوبہ کو خاک میں ملایا تھا۔ حالانکہ ایسے ہونہاروں کی رونمائی تو قوم کے سامنے ہونی چاہئے تھی تاکہ نوجوان نسل ان سے سبق سیکھ کر اپنا ’قبلہ درست ‘ کرتی۔
کچھ ایسی ہی صورت حال اس وقت بھی موجود ہے۔ اب تو چودہ پندرہ سینیٹرز کا ضمیر جگانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ جماعت اسلامی نے اگر حسب روایت ’غیر جانبدار‘ رہنے کا قصد کیا تو عمران خان کی کوششوں کو بارآور کرنے کےلئے دو تین سینیٹرز کو ادھر سے ادھر کرنا کافی ہوگا۔ تاہم یہ خبریں بھی زوروں پر ہیں کہ جن خفیہ ٹیلی فون نمبروں سے آنے والی کالز مردہ ضمیر جگاتی ہیں، وہ آج کل غیر فعال ہیں اور ضرورت پڑنے پر کام نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ 3 مارچ کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی جیت گئے اور حفیظ شیخ ہار نے کے بعد اپنے سابق باس کے گلے مل کر انہیں ’مبارک باد‘ دینے کے سو اکچھ نہیں کرسکے۔ لیکن عمران خان نے واضح کیا ہے کہ ’ووٹ خریدنے‘ کے حوالے سے ان کا دل حفیظ شیخ جتنا بڑا نہیں ہے ۔ وہ کسی کو معاف نہیں کریں گے۔ دہائی خدا کی اگر بکنا ہی ہے تو سرکار دربار سے قیمت لگواؤ اور ساتھ ہی ایمانداری کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرو۔ یہ کیا کہ ایک صادق و امین وزیر اعظم کی پیٹھ پیچھے اس کے ہی امید وار کو شکست سے دوچار کردیا۔
عمران خان سے کل جس شعبدہ بازی کے بارے میں استفسار کیا گیا تھا، آج کے دوران انہوں نے اس کا جواب دینے کے لئے دو اشارے کروائے ہیں۔ صبح کے وقت جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے چئیرمین صادق سنجرانی سے یہ کہتے ہوئے ملاقات کی کہ 12 مارچ تک تو وہی سینیٹ کے چئیر مین ہیں۔ شاید اسی بات سے خوش ہوکر وزیر دفاع پرویز خٹک نے جو بس چلتے چلتے وہاں پہنچ گئے تھے، مولانا کو ڈپٹی چئیر مین کے عہدے کے لئے سرکاری امیدوار بننے کی پیش کش کردی۔ بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ ’ہم نے مولانا حیدری کو ڈپٹی چئیر مین بنانے کی پیش کش کی ہے۔ کیوں کی اسی میں سب کا فائدہ ہے‘۔ پرویز خٹک آج کل شاید نو بال پر چھکے لگا نے کی کوشش رہے ہیں، اس لئے ان کا یہ اسٹروک بھی کامیاب نہیں ہؤا۔ اس سے پہلے وہ کسی تردد کے بغیر نوشہرہ کی سیٹ جیتنے کا دعویٰ کرتے ہوئے، یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں گنوا بیٹھے تھے۔ بعد میں ان کے بھائی لیاقت خٹک کو اس پاداش میں صوبائی وزارت چھوڑنا پڑی تھی۔
مولانا عبدالغفور حیدری بھی شاید ’پانی کی گہرائی ‘ماپنے کے لئے چئیر مین سینیٹ صادق سنجرانی اور وزیر دفاع پرویز خٹک سے ملے تھے۔ بعد میں جب یہ تصدیق ہوگئی کہ پی ڈی ایم کی کمیٹی نے جمیعت علمائے اسلام (ف) کو ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کے عہدے پر اپنا امید وار کھڑا کرنے کا حق دیا ہے اور پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خوشی خوشی مولانا حیدری کو اس عہدے پر نامزد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ تو مولانا عبدالغفور نے سرکاری پیش کش کرنے پر پرویز خٹک کو کھری کھری سنا دیں۔ ایک بیان میں انہوں نے حکومت اور اس کے نمائیندوں پر واضح کردیا کہ پی ڈی ایم میں انتشار ڈالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔
اس ’ماسٹر اسٹروک‘ کی ناکامی کے بعد عمران خان نے بائیں ہاتھ کا ایک چھوٹا سا کرتب بلوچستان سے آزاد حیثیت میں سینیٹر منتخب ہونے والے محمد عبد القادر کو تحریک انصاف میں دوبارہ قبول کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ یہ قصہ بھی دلچسپ اور عمران خان کی سیاسی بلوغت کے علاوہ ان کی قلبی دیانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیراعظم کی سربراہی میں سینیٹ کے لئے امیدوار نامزد کرنے والی کمیٹی نے انہی عبدالقادر کو بلوچستان سے تحریک انصاف کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ لیکن صوبائی قیادت کے احتجاج پر ان سے ٹکٹ واپس لے کر سید ظہور آغا کو دے دیا گیا۔ عبد القادر نے آزاد حیثیت میں کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بے اے پی چونکہ صوبے میں تحریک انصاف کے ساتھ شریک اقتدار ہے لہذا اس نے وزیر اعظم سے کہہ کر ظہور آغا کو مقابلہ سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا۔ عبد القادر آزاد حیثیت میں بی اے پی اور پی ٹی آئی کے ووٹ لے کر سینیٹر بن گئے۔ اب وہ پھر سے وزیر اعظم کے ہاتھوں ہار پہن کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس طرح کی حرکتوں کو ہاتھ گھما کر کان پکڑنا بھی کہتے ہیں لیکن دیانت داری کا تقاضہ ہے کہ اسے عمران خان کا شعبدہ یا سحر انگیز شخصیت کا کرشمہ سمجھا جائے۔
اس دوران الیکشن کمیشن نے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے خلاف تحریک انصاف کی پٹیشن پر سماعت کی۔ تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے سینیٹ انتخاب میں ووٹ بکنے کی وہی دردناک کہانی سنائی جو عمران خان قوم کو ازبر کروانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کا کہنا تھا کہ جذباتی باتیں ایک طرف رکھیں، قانون کی بات کریں اور ثبوت لے کر آئیں۔ اگر علی حیدر گیلانی کی ویڈیو ثبوت ہے تو ان لوگوں کو بھی فریق بنائیں جو گیلانی جونئیر سے ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ سیکھ رہے ہیں۔ حکومت قومی اسمبلی کے جن 16 ارکان پر پیسے لے کر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے کا الزام لگاتی ہے، ان کے نام اور روپے لینے کا ثبوت الیکشن کمیشن کو دیا جائے تو فوری کارروائی ہوگی۔ کمیشن نے یاد دلایا کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں ہی گنہگار ہوتے ہیں۔ اعتماد کا ووٹ لیتے ہوئے ان 16 ارکان قومی اسمبلی کے تعاون کا تازہ تازہ شکریہ ادا کرنے والے عمران خان کے لئے شاید اس اصول کی بنیاد پر اپنے ساتھیوں کو قربانی کا بکرا بنانا آسان نہ ہو۔ پھر تو حکومت بھی قربان پڑے گی۔ سوال اقتدار کا ہو تو دیانت و امانت کے اصول بدلتے دیر نہیں لگتی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )