کچھ دن پرانی بات ہے کہ میرا ایک دوست اخبار پڑھ رہا تھا اخبار پڑھتے پڑھتے اچانک وہ با آوازِ بلند کہنے لگا کہ اقتصادی سروے کے مطابق ہمارے ملک میں مال مویشی اور ڈھور ڈنگروں کی تعداد 4 کروڑ 44 لاکھ ہو گئی ہے خبر سن کر میں چونکا اور پھر دوست سے مخاطب ہو کر بولا نئی مردم شماری کے بعد پاکستان میں ووٹروں کی تعداد اس سے کچھ زیادہ نہیں ہے؟ میری بات سن کر وہ کہنے لگا پتہ نہیں یار لیکن اقتصادی سروے تو یہی کہہ رہا ہے اتنا کہنے کے بعد اس نے بڑی ہی مشکوک نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا اگلی خبر تمہارے بارے میں اور وہ یہ کہ اسی سروے کے مطابق پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہو گیا ہے میں دوست کی مشکوک نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے جلدی سے بولا ایسے نہ مجھے تم دیکھو میرے بھائی کہ میری شادی ہوئے تو ایک عرصہ بیت چکا ہے جبکہ سروے کے مطابق گدھوں کی تعداد میں اس سال ایک لاکھ کا اضافہ ہوا ہے ۔ میری بات سن کر اس ناہنجار نے ایک دفعہ پھر انہی مکروہ اور نامبارک نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔ میرے عزیز اس خبر کا دوسرا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس سال پاکستان میں ایک لاکھ لڑکے شادی کر کے تمہارے کلب میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس پر میں اس ناہنجار سے جو کہ حسنِ اتفاق سے ابھی تک کنوارا بھی تھا احتجاج کرتے ہوئے بولا۔ اے عقل کے اندھے اور سر کے گنجے شخص آخر تم ہر شادی کرنے والے بندے کو گدھا کیوں سمجھتے ہو؟ تو اس پر اس انسان نما گنجے شخص نے بڑے تاسف سے میری طرف دیکھا اور پھر یوں گویا ہوا۔۔
جیسا کہ تم جانتے ہو کہ لغت کے مطابق گدھا ، حمار یا خر ایک ممالیہ جانور ہے اور اسی لغت کی رو سے انسان کا شمار بھی ممالیہ جانوروں میں ہوتا ہے اس کے بعد اس نے بڑی ملامتی نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ گدھا ایک سدھایا ہوا جانور ہوتا ہے جس کو مال برداری اور دوسرے امور چلانے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ٹھیک اسی طرح انسان کو بھی بعد از شادی وہ لڑکی کہ رُخصتی کے وقت جس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے ہوتے ہیں شادی کے کچھ عرصے کے بعد بندے کو کچھ اس طرح سے سدھا ر لیتی ہے کہ جس کی وجہ سے یہ انسان بھی مال برداری اور دوسرے امور چلانے کے کام آتا ہے چونکہ اس ناہنجار کی بات میں نو من کی دھوبن سے بھی زیادہ وزن تھا اس لیئے ہم چُپ رہے اور دیدہ دانستہ "دڑ ” وَٹ لی کہ اسی میں ہماری بچت تھی۔
لیکن وہ ناہجار چپ نہ ہوا اور کہنے لگا کہ اگلے وقتوں کی بات ہے کہ تمہاری طرح کا ایک میں نہ مانوں والا شخص ہوا کرتا تھا ایک دن وہ اپنی بیگم کے ساتھ شاپنگ کر رہا تھا اور حسبِ معمول شاپنگ ان کی بیگم ۔۔۔ جبکہ شاپنگ کے جملہ و من جملہ لوازمات از قسم شاپنگ بیگز وغیرہ اس مسکین نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے گرمی سخت اور ہوا بند تھی ( اس شخص کی نہیں ) کہ ایسے میں بیگم صاحبہ شاپنگ بیگز سے لدے خاوند کو ایک دکان کے باہر کھڑ ا کر کے بولی کہ ایک منٹ رکو میں ابھی آئی۔۔لیکن حسبِ معمول وہ ایک منٹ کا کہہ کر ایک گھنٹہ تک بھی نہیں آئی۔ ادھر وہ بے چارہ ایڑی سے چوٹی تک پسینے میں شرابور ہاتھوں میں سامان اُٹھائے کھڑا تھا ۔۔ کہ اتنے میں ادھر سے ایک اور گدھے کا گزر ہوا ۔ اس نے جو اس شخص کی یہ حالت دیکھی تو اسے بڑے ادب سے سلام کیا گدھے کی آواز سن کر وہ شخص بجائے جواب دینے کے بڑے غصے سے بولا ۔ چپ اوئے گدھے مجھے سلام کرنے کی تجھے ہمت کیسے ہوئی ؟۔ یہ بات سن کر پہلے تو وہ پڑھا لکھا گدھا مسکرایا پھر عادت سے مجبور ہو کر ہنہنایا اور اس شخص کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا میں نے تو تمہیں اپنا بھائی سمجھ کر سلام کیا تھا بھائی کا لفظ سن کر وہ شخص ہتھے سے ہی اکھڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا اوئے گدھے کی اولاد میں تیرا بھائی کیسے ہو سکتا ہوں ؟ وہ گدھا کہ جس نے گدھیت میں پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی کہنے لگا ۔ جناب ِ عالی جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ گدھا اپنے مالک کا وزن اُٹھاتا ہے جبکہ میری گناہگار آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اس وقت آپ نے بھی وزن اُٹھایا ہوا ہے دوسری بات یہ کہ اتنی زیادہ مشقت اُٹھانے کے باوجود بھی بدلے میں ہمیں ہمیشہ جھاڑ ہی ملتی ہے جبکہ میرا قیافہ بتا رہا ہے کہ کچھ اسی قسم کے سلوک کے آپ بھی حق دار ٹھہرتے ہیں ۔ تیسری بات یہ کہ چاہے کچھ بھی ہو ہم گدھے صبح سے شام تک سر جھکا کر کام کرتے ہیں اور مار کھانے کے باوجود مالک کے سامنے اُف بھی نہیں کرتے جبکہ ہماری طرح آپ لوگ بھی صبح سویرے ہی کام کے لیئے نکلتے ہیں اور رات گئے واپس آتے ہیں اور بیگم جو مرضی کہے آپ اس کے سامنے "چوں’ بھی نہیں کرتے اتنی زیادہ زیادتیوں کے باوجود بھی ہم گدھوں نے کبھی ٹریڈ یونین نہیں بنائی ۔ اور نہ ہی کبھی احتجاجی کال دی اسی طرح آپ لوگوں نے بھی نہ کوئی یونین بنائی اور نہ ہی آپ کی طرف سے کسی احتجاجی کال کے بارے میں سنا گیا ۔اتنا کہنے کے بعد اس پی ایچ ڈی گدھے نے مزید دلائل دینے کے لیئے اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ اس شخص کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ گلو گیر آواز میں بولا بس کردے پگلے اب رُلائے گا کیا؟ ۔ اتنی بات کرتے ہوئے وہ شخص آگے بڑھا اور اس گدھے سے گلے مل کر بولا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے تم اور میں سگے بھائی ہوں جو میلے میں بچھڑ گئے تھے اس ملنی کے بعد شنید ہے کہ دونوں گدھوں نے وہیں کھڑے کھڑے مندرجہ ذیل دکھی گانا بھی گایا۔۔۔
تیرا غم میرا غم اک جیسا صنم
ہم دونوں کی ایک کہانی
آ جا لگ جا گلے دل جانی
فیس بک کمینٹ