پیارے پڑھنے والو آپ کو تو معلوم ہے کہ نباتاتی یا شاید حیواناتی طور پر چوہا ایک ایسا جانور ہے جو انسانوں سے بہت قریب ہے یہی وجہ ہے کہ سائنسدان جب انسانی بیماریوں پر تحقیق کرتے ہیں تو بالعموم چوہوں کو ہی تختہ مشق بناتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ چوہوں نے کبھی بھی اس بات کا برا نہیں منایا اور نہ ہی کبھی اس بات پر واویلا کیا کہ مجھے کیوں تختہ مشق بنایا؟ اور نہ ہی کبھی انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ چوہے کو عزت دو۔ تو اس لحاظ سے پاکستانی قوم اور چوہوں کی یہ عادت ایک جیسی ہے کہ امن کے ساتھ ظلم سہتے ہیں۔
دوستو آپ تو جانتے ہیں کہ اگر چوہے الماری میں گھس جائیں تو کپڑے کتر دیتے ہیں کمرے میں داخل ہو جائیں تو قیمتی چیزوں کا بیڑا غرق دیتے ہیں اور اگر کچن میں گھس جائیں تو کھانا کتر نے کے ساتھ ساتھ اس کا وہ "اجاڑا ” کرتے ہیں کہ ان کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر آپ کہہ سکتے ہیں چوہے نہ ہوئے پاکستانی سیاستدان ہو گئے جو کھاتے بھی ہیں غراتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ رولا بھی ” پاتے” ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ؟ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آج کے کالم میں اتنے زیادہ چوہوں کا تذکرہ کہاں سے نکل آیا؟ تو اس کی وجہ ایک خبر ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں ایک چوہا کسی طرح اے ٹی ایم مشین میں گھسنے میں کامیاب ہو گیا اور اس میں موجود تقریباً 18 ہزار رہال کی رقم کتر ڈالی ۔ مشین سے کترے ہوئے نوٹ باہر نکلے تو انتظامیہ نے نوٹس لیتے ہوئے سرچ آپریشن شروع کر دیا اور مشین کھولی تو مجرم چوہا وہیں موجود تھا جسے فوراً گرفتار کر لیا گیا مجرم کو گرفتار کرتے ہی آہنی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا اور سزا کے طور پر اس کی تصویر کترے ہوئے ریالوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر شئیر کروا دی گی تا کہ پوری دنیا اس سفاک مجرم سے واقف ہو جائے۔
چوہے کو آہنی زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر ایک شقی القلب شخص کو جوش آ گیا چنانچہ اس نے ریال کترنے والے چوہے کو مارنے کے لیئے ایک پتھر اُٹھایا اور ابھی اسے مارنے ہی والا تھا کہ ناگہاں کہیں سے ایک نوجوان چوہیا برآمد ہوئی جس نے چولی گھاگھرا پہنا ہوا تھا اور اس سے قبل کہ وہ شقی القلب شخص زنجیروں میں جکڑے اس چوہے کو پتھر مارتا کہ وہ نوجوان چوہیا دونوں ہاتھ پھیلا اور سینہ تان کر اس چوہے کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی اس نے کمال مہارت سے فلم لیلیٰ مجنوں کے مشہور گانے کے رقص کا پہلا سٹیپ لیا اور مجمع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو۔
چوہیا کو یوں بے باکی سے رقص کرتے دیکھ کر پہلے تو اس شخص سمیت بینک انتظامیہ عش عش کر اٹھی۔ پھر چوہے چوہیا کی اس ” شٹوری ” کی تہہ تک پہنچنے کے لیئے بینک مینجر نے فوراً سے پہلے ایک جے آئی ٹی بنا دی جس کے ذمہ اس چکر کی حقیقت تک پہنچنا تھا کہ وجوہات معلوم کی جائیں کہ جس کی وجہ سے چوہے نے سارے نوٹ کتر ڈالے۔ جے آئی ٹی نے دن رات ایک کر کے ایک وَن والیم رپورٹ تیار کی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ عام طور پر نر چوہے مادہ کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے رومانی گیت گاتے ہیں۔ تاہم وہ اِن گیتوں کے لیے الٹرا سانک لہروں کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں پکڑا گیا چوہا بڑا رومینٹک واقعہ ہوا ہے۔چنانچہ ایک دن یہ چوہا اداسی کے عالم میں ایک رومانوی گیت گا رہا تھا کہ رومانیہ سے آئی ایک چوہیا نے چونک کر چوہے کا گانا سن لیا اور پھر چپ چاپ چوری چوری چپکے چپکے۔۔ چوہے کی چاہت میں گرفتار ہو گئی چوہے کی گرل فرینڈ بنتے ہی اس عفیفہ نے فرمائشوں کے انبار لگا دیئے۔ اور یہ وہی عفیفہ تھی کہ جس کی فرمائیشں پوری کرنے کے لیئے چوہے صاحب تنگ آ کر اے ٹی ایم مشین میں گھس گئے لیکن اندر پہنچ کر جب انہیں اس بات کا اندازہ ہوا وہ ان ریالوں کو اپنے ہمراہ باہر نہیں لے جا سکتا تو پھر اس نے یہ سوچ کر ان ریالز کو کترنا شروع کر دیا کہ نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے۔
اور آخر میں چلتے چلتے چوہے کے بارے میں ایک اور کہانی اور وہ یہ کہ ایک نازک مزاج چوہا رزق تلاش کرتا ہوا ایک گھر میں جا گھسا ابھی وہ کچن میں پہنچا ہی تھا کہ اتفاق سے اسی وقت خاتونِ خانہ بھی کسی کام کے سلسلہ میں وہیں آ گئی۔ چوہے پر نظر پڑتے ہی خاتون نے عورتوں کی پرم پرا پر عمل کرتے ہوئے چیخ مارنے کے لیئے ابھی منہ کھولا ہی تھا کہ وہ نازک مزاج چوہا خاتون کی طرف دیکھ کر کہنے لگا بی بی اگر چیخ مارنی اتنی ہی ضروری ہے تو پلیز زرا ” ہولی ” چیخنا کہ میں دل کا بڑا کمزور واقعہ ہوا ہوں۔ چوہے کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے اس خاتون نے "ہولی” چیخ ماری کہ نہیں اس بارے میں ہنوز راوی خاموش ہے۔ جوں ہی کوئی اپ ڈیٹ موصول ہوئی آپ کو بتا دیا جائے گا۔
فیس بک کمینٹ