ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے۔کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔کون سچ کہہ رہا ہے؟ کون جھوٹ؟کس کا یقین کریں؟ کس کی بات جھٹلائیں؟ عجیب صورت حال ہے جودو چار برس کی بات نہیں ، پون صدی کا قصہ ہے۔جس میں ہر کسی نے حصہ بقدر جثہ کے مطابق اپنااپنا کردار ادا کیا ہے۔برسوں اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے لوٹ کھسوٹ کرنے میں کوئی کسر چھوڑی نہ مستقل اختیار رکھنے والوں نے کوئی رعایت برتی۔ہاں۔ البتہ آج سیاست اور حکومت میں ہر طرف جو گند ہی گند نظر آتا ہے وہ اسی رعایت اور ملی بھگت کا نتیجہ ہے اسی لیئے تو دیگر مقتدر قوتوں کو اس بگاڑ کا ذمہ دار ہونے سے مبراءقرار نہیں دیا جا سکتا کہ ان کی مسلسل چشم پوشی ، سر پرستی اور کبھی ڈھیل تو کبھی ڈیل نے معاملات کو خرابی کی اس نہج تک پہنچایا ہے۔آج بھی ان مقتدر اداروں میں برا جمان فرشتے انسانی وصف سے خالی ہرگز نہیں ہیں ۔ان کی پاک دامنی کے باوجود ان کے اقدامات سے بھی کچھ نہ کچھ ایسا ضرور سر زد ہو رہا ہے جس پر کسی قسم کی رائے زنی سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔توازن بالکل کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔نا سماج کے رسم و رواج میں ۔ نا حکمرانوں کے تخت و تاج میں۔اور نا منصفوں کے مزاج میں۔اندھی نفرتیں اور منافقتیں سماج کا مزاج بن چکی ہیں۔ انسانی حقوق کی آڑ میں دینی اقدار و شعارتنقید کے نشانے پر ہیں تو دین کے علمبردار اپنے عقائد سے اختلاف رکھنے والوں کو قابل گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔نفرت کے بیج بو کر محبت کی فصل کاٹنا چاہتے ہیں۔ ببول کے درخت پر گلاب اور چنبیلی کے پھول کھلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اربوں کھربوں کی لوٹ کھسوٹ کرنے والے حساب دینے کی بجائے معصوم شکلیں بنائے مظلومیت کی دہائی دے رہے ہیں۔اور ڈھیل دینے والے اب کسی ڈیل کی بجائے حساب لینے پر تلے ہوئے ہیں۔سیاست دانوں نے بھی پون صدی ملک و قوم کی بھلائی کی بجائے ایک دوسرے کی دھلائی میں وقت ضائع کر دیا ۔ آج بھی وہی حال ہے۔ سارا زور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر صرف کیا جا رہا ہے۔ اس ساری صورت حال میں عوام کہاں کھڑے ہیں۔؟عام پاکستانی کی روز مرہ زندگی پر کیا اثر ات مرتب ہو رہے ہیں۔؟ہر ادارے کی ساکھ داﺅ پر لگی ہوئی ہے۔اداروں کی بالا دستی کا سوال پیدا ہو تو کارکردگی ضرور زیر بحث آتی ہے۔اور کارکردگی کا گراف ملک کی مجموعی صورت حال سے لگایا جا سکتا ہے۔جسے کوئی دیوانہ ہی تسلی بخش قرار دے سکتا ہے۔پاکستانی قوم نے کوئی سبق سیکھا ہے نہ سیاست دانوں اور حکمرانوں نے۔ بھٹو شہید کے لیئے خود سوزیاں تک ہوئیں تھیں مگر کسی کام نہ آیئں۔ آج کل میاں محمد نواز شریف کی حمایت کے لیئے ریلیاں نکل رہی ہیں۔مریم نواز کی زبان و بیان دونوں بہت سخت ہیں۔ مگر مریم نواز کسی طور بھی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے بڑی لیڈرہیں ، نا بے نظیر بھٹو شہید جیسا سیاسی وزن اور وژن رکھتی ہیں۔جنہیں ان کے بد ترین مخالفین بھی ۔ شہید۔ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔اور یہ کہ سیاسی میدان میں بے نظیر بھٹو شہیدجتنی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرنے جتنا حوصلہ رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مریم نوازاداروں پر سنگ زنی کے شوق میں حد سے تجاوز نہ کریں۔ ہواﺅں کا رخ بدل چکا ہے اور موسم بدل رہا ہے۔ آنے والے دن سخت گرمی اور کڑی دھوپ کے دن ہوں گے جن میں کرپشن کے الزامات میں جکڑے ہوئے شریف خاندان کو کسی سائبان کی ضرورت ہو گی ۔دائمی مقتدر اداروں سے سر ٹکرانے کی بجائے ہوش مندی سے کام لیں ۔جب یہ ہی کچھ بلکہ اس سے بھی برا دوسروں کے ساتھ ہوتا تھا تو شریفین اسے عین قانون کے مطابق قرار دیتے تھے ۔آج زرداری اور عمران خان وہی عمل دہرا رہے ہیں۔مکافات عمل یہی ہے کہ کل زرداری اورعمران خان بھی یہی دہائی دے رہے ہوں گے۔قانونی لڑائی عدالتوں اور سیاسی جنگ سیاسی میدان میں ہی لڑی جائے تو بہتر ہے۔
فیس بک کمینٹ