محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف حالت جنگ میں ہیں اور یہ حالت انہوں نے خود پیدا کی ہے۔ وہ اپنی بقاءکے لیئے چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ان پر ملکی وسائل لوٹنے اور ملکی دولت باہر منتقل کرنے کے الزامات ہیں۔جن کا کوئی تسلی بخش جواب تاحال نہیں دیا جا سکا۔اپنا دفا ع سابق وزیر اعظم کا حق ہے۔ میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ اس جنگ کی صف اول میں موجود ہیں اور کئی محاذوں پر ان کی ” سپاہ “ سینہ سپر ہے۔ دیگر افراد کی وفاداری کو سیاسی قرار دیا جا سکتا ہے مگر کیپٹن (ر)صفدر داماد ہونے کا پورا پوراحق ادا کر رہے ہیں۔جنگ میں کئی پینترے بدلنا پڑتے ہیں ۔کبھی کسی خاص مصلحت کے تحت پیچھے ہٹا جائے تو مد مقابل اسے اپنی فتح سمجھنے لگتا ہے۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد مسلسل و متواتر میاں نواز شریف سے عہد وفا نبھا رہے ہیں۔اس تناظر میں وزیر اعظم کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کے بارے میں میاں نواز شریف کا یہ کہنا کہ وہ اس ملاقات سے بے خبر تھے کچھ عجیب اور ناقابل یقین سا لگتا ہے۔جب کہ اس ملاقات کے بعد ن لیگ کے بعض بڑوں نے ا س پر اعتراض کرنے کی بجائے قدرے اطمینان کا تاثر دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی طرف سے اس ملاقات پر جاری کیا جانے والا اعلامیہ شاید تھوڑی سی لے دے کے بعد ہضم کر لیا جاتامگر گزشتہ روز مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران جناب عزت مآب چیف جسٹس کی طرف سے اس ملاقات پر دیئے جانے والے ریمارکس نے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا ہے۔یہ سوال بڑا بر محل ہے کہ ، وزیر اعظم پاکستان اگر کوئی فریاد لے کر آئے تھے تو وہ فریاد کیا تھی؟ جو جناب چیف جسٹس نے سنی تو سہی مگر رد کر دی۔یہ جاننا اس قوم کا حق ہے کہ آخر اس دو گھنٹے کی ملاقات میں ہوا کیا؟ اگر صرف سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ ہی کافی ہے تو پھر جناب چیف جسٹس صاحب کو دوران سماعت اس ملاقات کے بارے میں مزید وضاحتی ریمارکس دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟جیسا تیسا بھی ہے یہ ایک جمہوری دور ہے۔ کمزور سیاسی جمہوری نظام ہی سہی۔ شہنشاہ جہانگیر کا دور نہیں کہ فریادی زنجیر عدل ہلا ہلا کر اپنی فریاد پیش کرے اور بادشاہ سلامت اپنے موڈ اور مزاج کے مطابق داد رسی فرمایئں۔شاہد خاقان عباسی بھلے خود کو وزیر اعظم تسلیم نہ کریں ان کی درویشی کو سو سلام۔ مگرآئین اور قانون نے وزارت عظمی کے منصب کو توقیر بخشی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہمارے منتخب وزرائے اعظم ہی اس منصب کی بے توقیری کا سبب بنتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اول تو موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بحیثیت وزیر اعظم پاکستان کی بغیر کسی ایجنڈے اور طے شدہ پروگرام کے ، جناب چیف جسٹس سے ملاقات ہی کئی سوال جنم دیتی ہے اور اب اس پر ان کی مکمل خاموشی کس طوفان کا پیش خیمہ ہے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے یہ ملاقات میاں نواز شریف کی مرضی اور اجازت کے بغیر کی ہو۔میاں نواز شریف کے سیاسی اور حکومتی تجربے نے انہیں اتنی مہارت تو بخشی ہے کہ وہ اپنے پتے کیسے کھیلیں اور کس وقت شو کرایئں۔اگر تو میاں نواز شریف کی بات پر یقین کریں کہ یہ ملاقات ان کی مشورے اور اجازت کے بغیر ہوئی ہے تو پھران کے کھلونے میں کس نے چابی بھر کر اسےچیف جسٹس کے پاس بھیجا تھا؟ یا شاہد خاقان عباسی دوگھنٹے کی طول ملاقات اور گفتگو کے دوران، میاں نواز شریف کے مقدمات کے بارے میں جنا ب چیف جسٹس کاذہن پڑھنے کے لیئے گئے تھے۔ جناب چیف جسٹس نے تو فرما دیا کہ اس ملاقات میں ہم نے کچھ دیا نہیں۔ لیاہے۔وزیر اعظم کیا دے کر آئے ہیں؟ یہ اور ایسے بہت سے سوال اٹھتے رہیں گے۔ اگر یہ سب کچھ میاں نواز شریف کی ایماءپر ہوا تھا تو اب مطلوبہ نتائج کے عدم حصول نے صورت حال بدل دی ہے؟ میاں نواز شریف سے وفا داری کا دم بھرنے والے شاہد خاقان عباسی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس دور پریشاں میں میاں نواز شریف کے لیئے کسی نئی پریشانی کا سبب بنیں گے۔مگرسیاست بڑی بے رحم چیزہے۔اور مسند اقتدار اس بھی کہیں ظالم۔اس وقت میاں نواز شریف ” الٹی ہو گیئں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا“ کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔
فیس بک کمینٹ