تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان گزشتہ دنوں ملتان آئے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ اقتدار میں آنے سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ملتان کے بیرون اور اندرون کا اسی طرح دورہ کیا جس کی تقلید عمران خان نے ملتان میں ممبر سازی کی مہم کے تحت 22 جگہوں پر کبھی منہ دکھا کر تو کبھی تقریر فرما کر کی۔ پرانے سیاسی کارکن و رہنما کہتے ہیں کہ عمران خان اگرچہ نقل تو ذوالفقار علی بھٹو کی کر رہا ہے۔ لیکن اس کے دورہ ملتان اور بھٹو کے دورہ ملتان میں بہت فرق تھا۔ بھٹو سیماب طبیعت کا مالک تھا جبکہ عمران خان کس طرح کی طبیعت کا مالک ہے اس بارے میں ہمیں کچھ زیادہ معلومات نہ ہیں۔ بھٹو نے جب ملتان کا دورہ کیا تھا تو تب عوام ازخود ان کے جلسوں میں آ جاتے تھے جبکہ عمران خان کے حامیوں کو لانا پڑتا ہے۔ یہ بحث پھر کبھی سہی۔ فی الحال ہم آپ کو یہ بتانے جا رہے ہیں کہ عمران خان کے حالیہ دورہ ملتان میں اصل کامیابی تو شاہ محمود قریشی اور ان کے گروپ کو ملی۔ کہ مخدوم صاحب عمران خان کی گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ ملک عامر ڈوگر پچھلی نشست پر موجود تھے اور جہانگیر ترین گروپ تو عمران خان کی نظرِ کرم کا منتظر ہی رہا۔ اب عمران خان کی نظرِ کرم کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ موصوف دن میں سیاہ عینک لگاتے ہیں جبکہ رات کو اُن کی آنکھیں نووارد بچوں کی طرح چندھیا جاتی ہیں۔
ذکر ہو رہا ہے عمران خان کے دورہ ملتان کا۔ اس دورہ میں جہاں اور بھی بے شمار چیزیں نمایاں رہیں وہاں پر جوتا سیاست کا خوف بھی ہر ایک کے دل میں جاگزیں رہا۔ دور کیوں جائیں رش میں عامر ڈوگر کا جوتا گر گیا۔ وہ جوتا ان کے ایک حامی کے ہاتھ آ گیا۔ عامر ڈوگر نے اشارہ کر کے جوتا مانگا۔ اب رش میں معمول کے مطابق عامر ڈوگر کے حوالے انہی کا جوتا کرنا دنیا کا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ کارکن نے ہوا میں عامر ڈوگر کا جوتا لہرایا۔ دوسری جانب عامر ڈوگر اپنے ہی جوتے کے منتظر تھے کہ درمیان میں چاک و چوبند پولیس اہلکار عین اُسی وقت آیا اور کارکن کو قابو کر لیا۔ اب عامر ڈوگر نے شور مچایا کہ یہ کارکن ہمارا اپنا ہے یعنی یہ جوتا مارنے والا نہیں ہے بلکہ پہننے والا۔ پولیس نے اپنی پوری تسلی کی پھر جا کر عامر ڈوگر کو جوتا ملا۔ یہ منظر دیکھ کر ہمیں جوتا مارنے والے تمام مناظر یاد آ گئے۔ کاش اس وقت بھی پولیس اہلکار اسی فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے۔ بہرحال یہ سب کچھ اپنی جگہ پر۔ شاہ محمود قریشی نے اس مرتبہ عمران خان کے لیے اتنی محنت کی کہ تھک ہار کر گاڑی کی چھت سے بونٹ پر جا گرے۔ کارکنوں نے آگے بڑھ کر تھام لیا ورنہ وہ تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی گود میں ہوتے۔
تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدواران نے عمران خان کے سامنے خوب طاقت کا اظہار کیا۔ کارکنوں کی تواضح کے لیے مشروبات اور کھانے پینے کا اہتمام بھی اس دورے کا حصہ تھا۔ عمران خان نے دورہ تو پورے ملتان اور اس کے نواح کا کیا لیکن اصل میں عمران خان نے شاہ محمود قریشی کو رام کیا۔ اب جو اُمیدوار تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑنے کے خواہشمند ہیں ان کو شاہ محمود قریشی کو رام کرنا ہو گا۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں حسبِ روایت آصف علی زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف کو موضوعِ سخن بنایا حالانکہ دو دن پہلے ہی آصف علی زرداری کے سینیٹ کے اُمیدواران کو ووٹ دے کر انہیں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین بنوا چکے تھے۔ عوام کا جوش و خروش دیکھ کر وہ یہ کہہ اٹھے چوروں کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ اندھیری رات جلد ختم ہو گی۔ یاد رہے جب وہ یہ بات کر رہے تھے اس وقت تک شہر میں اندھیرا پھیل چکا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ کہہ رہے تھے اندھیری رات ختم ہونے والی۔ عمران خان نے اپنے دورہ ملتان میں اسحاق خاکوانی اور جہانگیر ترین گروپ کے رہنماؤں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔مثال کے طور پر انہوں نے ڈنر عامر ڈوگر کے ہاں کیا جبکہ شاہ محمود قریشی پورا دن ان کے ساتھ رہے۔ ابراہیم خان، بیرسٹر سلمان علی قریشی، ڈاکٹر خالد خاکوانی اور دیگر ”مہربان نظر“ کے منتظر رہے۔
اس وقت ملتان شہر کی تحریکِ انصاف کے حوالے سے بڑی عجیب و غریب صورتِ حال ہے۔ ہر حلقہ میں تین سے چار پہلوان اکھاڑے میں اترنے کے لیے بے چین ہیں۔ ٹکٹ تو ایک کھلاڑی کے حصے میں آئے گی جبکہ ٹکٹ سے محروم رہنے والے یقینی طور پر تحریکِ انصاف کے خلاف کام کریں گے۔ وہ پارٹی تبدیل کر سکتے ہیں یا پارٹی کے اندر رہ کر جڑیں کمزور کریں گے یا پھر کھل کر سامنے آئیں گے۔ ممبر سازی کے دورہ میں عمران خان نے واضح طور پر شاہ محمود قریشی (ابھی تک) کو لفٹ کرائی ہے لیکن کوئی پتہ نہیں کہ جب ٹکٹوں کی تقسیم کامعاملہ ہو تو عمران خان عینک لگا کر جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی کی فہرست پر غور کر رہے ہوں۔ بہرحال اس وقت سیاسی طور پر ملتان شہر کے ہر حلقے میں تحریکِ انصاف کے اُمیدواران کا گھڑمَس ہے۔ بھی ن لیگ کے بھگوڑے اراکین اسمبلی نے اپنی پارٹی سے بغاوت کرنی ہے۔ جبکہ پی پی اس انتظار میں ہے کہ جس اہم اُمیدوار کو ن لیگ اور تحریکِ انصاف میں جگہ نہیں ملے گی پی پی پی اسے بڑے اہتمام سے خوش آمدید کہے گی۔ ویسے اگر پی پی اس گھڑمس میں ہر حلقے سے مضبوط اُمیدوار لے آتی ہے تو کہیں کہیں حادثاتی اَپ سیٹ بھی ہو سکتا ہے۔
2013ءکے انتخابات میں جن حالات کا سامنا پی پی کو تھا اس مرتبہ وہی صورتِ حال ن لیگ کو درپیش ہے۔ ہر جگہ پر مولوی خادم رضوی ان کا تعاقب کر رہا ہے۔ پی پی والوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس جتنے بھی مضبوط اُمیدوار تھے وہ سب تحریکِ انصاف کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اس وقت شہروں میں تحریکِ انصاف کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ن لیگ کی مقبولیت کا علم انتخابات والے دن ہو گا جب گنتی کے بعد نتائج سامنے آئیں گے۔ پی پی ان دونوں کے ساتھ مقابلے میں ہر جگہ پر تیسری جبکہ کہیں پر چوتھی پوزیشن بھی لے سکی ہے۔
عمران خان نے حالیہ دورہ ملتان میں کیا کھویا کیا پایا؟ یہ سوال اگرچہ بہت اہم ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جو لوگ ممبر سازی مہم میں لاکھوں روپے خرچ کر کے عمران خان کی ایک نظرِ کرم کے محتاج ہوئے اگر ان کو آنے والے انتخابات میں عمران خان کی پارلیمانی پارٹی نے ٹکٹ نہ دیا تو یہی لاکھوں روپے خرچ کرنے والے انہی کے اُمیدواران کے خلاف انتخابی مہم کے دوران سامنے کھڑے ہو گئے تو عمران خان کو حکومت میں آنے کے لیے پھر پانچ برس انتظار کرنا ہے یعنی کون 2023ءتک انتظار کرے کہ اس ملک میں تو لمحہ لمحہ سیاسی رنگ تبدیل ہوتا ہے۔ اگر آنے والے چند برسوں میں اگر کوئی نئی پارٹی معرضِ وجود میں آ گئی تو تحریکِ انصاف والے کس سے انصاف مانگیں گے؟
فیس بک کمینٹ