” یہاں کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ منع ہے“ ۔ تاریخ کی کتابوں میں درج برسوں پہلے پڑھا ہوا یہ جملہ جو راج برطانیہ کے دور میں ہندوستان کی بعض مخصوص عمارتوں کے باہر لکھا ہوا ملتا تھا، بجلی کی سی کوند سے میرے ذہن میں وارد ہو کر شائیں شائیں کرنے لگا،جب ہوٹل کے کاﺅنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص نے ہمیں اندر جانے سے روکتے ہوئے کہا“ آپ اوپر چلے جایئے، نیچے فارنرز کے لیئے بک ہے“ ۔اس سے پہلے کہ بڑھتے ہوتے ہوئے فشار خون کی وجہ سے میری زبان سے کچھ الٹا سیدھا نکلتا ، ایک بیرے نے جو ابھی ابھی دروازہ کھول کر باہر آیا تھا، مداخلت کرتے ہوئے پوچھ لیا” سرآپ کتنے لوگ ہیں“ میرے بیٹے نے جواب دیا” چار“ اور اس کے ساتھ ہی بیرے نے دروازہ کھول کر اشارہ کرتے ہوئے کہا” آیئے۔سر۔صرف چار کا ایک ہی ٹیبل خالی ہے“ ۔کراچی کے اس ہوٹل میں میرا بیٹا اور بہو بڑا اصرار کر کے ہمیں لے گئے تھے کہ یہاں کا بوفے ڈنر بہت مشہور اور اچھا ہے۔اندر کا ماحول خاصا خوشگوار تھا مگر میرے ذہن میں تا حال کاﺅنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص کا یہ جملہ گردش کر رہا تھا۔” نیچے فارنرز کے لیئے بک ہے“ ۔میں نے ارد گرد نظر دوڑائی، ہمارے علاوہ صرف ایک اور پاکستانی فیملی دکھائی دی، ہوٹل کا باقی سار ا کھلالان ہمارے دوست چین کے باشندوں سے بھرا پڑا تھا۔یہ سب چینی باشندے سی پیک اور اس سے متعلق دیگر منصوبوں پر کام کرنے کے سلسلے میں پاکستان آئے ہوئے ہیں۔معروف صحافی اور کالم نگار جناب نصرت جاوید اپنے کالموں میں اکثر ایک جملہ لکھتے ہیں، میں بھی وہی دہرارہاہوں کہ ”چین اپنا یار، اس پر جان بھی نثارہے“مگر اس کے ساتھ ہی میرا ذہن بھی اپنے دانشوروں اور لکھاریوں کی طرف سے مسلسل اظہار کیئے جانے والے اسی خدشے پر اٹکا ہوا ہے کہ ”اپنا یارچین “سی پیک پر جو اتنی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اس میں چینیوں کے فائدے کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کو کیا ملے گا؟ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے سی پیک کے حوالے سے پاکستان کی ترقی کے جو خواب عوام کو دکھلائے ہیں وہ اسی طرح شرمندہ تعبیر ہوں گے یا اس بھاری سرمایہ کاری کے نتیجے میں میٹھا میٹھا سب ہمارے”چینی بھائیوں “کے حصے میں آئے گا،اورپاکستانی اپنی سر زمین پر ”چینی بھائیؤں“ کی عملداری دیکھیں گے۔ میں نے دو تین سال پہلے”گراں خواب چینی سنبھلنے لگے“کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا۔اوراب” گراں خواب چینیوں“ کی خواب سے بیداری اور سنبھلنے کے کئی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔چینی مصنوعات ہماری مارکیٹ پر چھائی ہوئی ہیں جو سستی بھی ہیں اور غیر معیاری بھی مگر صارفین کی قوت خرید میں ہونے کی وجہ سے خوب فروخت ہوتی ہیں۔ کراچی میں یہ ”چینی بھائی “ایم کیو ایم کے بھائیوں کی جگہ لیتے بھی پائے گئے ہیں۔ مختلف جرائم خاص طور پر اے۔ٹی۔ایم سے رقم نکلوانے والوں کو موقع پر لوٹ لینے جیسی وارداتیں ان کی وجہ شہرت بن رہی ہیں۔چینی کمپنیوں کی بد عنوانیوں کی کہانیاں بھی سننے کو ملنے لگی ہیں۔چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک ہے ۔وہ اپنی افرادی قوت کا ایک حصہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے پاکستان منتقل کر رہا ہے۔پیسہ بھی چین کا۔ منصوبے کے لیئے درکار مشینری اور دیگر اشیائے ضرورت بھی چین سے درآمد شدہ اور افرادی قوت بھی چین کی۔ ایسے میں ہماری افرادی قوت۔ہنر مند اور مزدوروں کے ساتھ ساتھ ہماری انڈسٹریل پروڈکٹس کی کیا اور کتنی گنجائش ہو گی؟یہ سوال ہے جوہمارے دانشور اور خاص طور پر وہ لوگ اٹھا رہے ہیں جو سی پیک کے بارے میں کچھ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ سی پیک منصوبے کی تفصیلات عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہیں عام آدمی کو تو بس یہ خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل اس کی تقدیر بدل دے گی۔ان خوشخبریوں کے ساتھ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ”چینی بھائیؤ ں“ کو پاکستان میں جائیداد خریدنے کی اجازت دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔گوادر کی زمینیں پہلے ہی کراچی کے بلڈرز نے خرید لی ہیں۔بلوچستان کے لوگوں کا مقدر وہی غربت و افلاس اور جہالت ہے ۔اسرائیل کے قیام کے وقت یہودیوں نے بھی فلسطینیوں سے منہ مانگی قیمت پر جائیدادیں خریدی تھیں۔اور ایسٹ انڈیا کمپنی بھی کاروبار کی غرض سے بنگال کے ساحل پرلنگر انداز ہوئی تھی۔روس کو گرم پانیوں تک رسائی دینے کی راہ میں پاکستان چٹان بن کر کھڑا ہو گیا تھا۔اس کا خمیازہ اب تک بھگت رہاہے اس سے قطع نظر چین کو خود ان ساحلوں تک پہنچ کا راستہ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔کن شرائط پر؟ عام پاکستانی یہ نہیں جانتا۔
فیس بک کمینٹ