الیکشن وقت پر ہوں گے۔ تمام سٹیک ہولڈرز نے یقین دہانی کرا دی ہے۔ امیدواروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی داخل کرائے جا چکے ہیں۔جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔ کہیں مکمل ہو چکا ہے تو کہیں تکمیل کے مراحل میں ہے۔ لوگوں کو جمہوریت سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں لیکن میرے خیال میں اس بار منعقد ہونے والا الیکشن پاکستان میں خاندانی اور وراثتی سیاسی نظام کی جڑیں مضبوط کرنے میں اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔یقین نہ آئے تو ٹکٹ ہولڈر امیدواروں کی فہرستیں دیکھ لیجیئے۔ بھلے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ پہلی ترجیح پیسہ ہے جس کی بنیاد پر ہر پارٹی نے اپنے پارٹی ٹکٹ جاری کیے ہیں تاکہ امیدوار اپنے ساتھ ساتھ پارٹی اخراجات اور پارٹی سربراہان کا بوجھ بھی اٹھا سکے۔دوسری ترجیح اپنا خاندان عزیز و اقارب۔ تاکہ اقتدار ملے نہ ملے سیاست اپنے گھر کی لونڈی ہی رہے۔عام انتخابات کی ٹکٹ ہو یا مخصوص نشستوں کی دونوں جگہ یہی اصول اپنایا گیا ہے۔گھر کی خواتین تک کو جیسے تیسے پارٹی ٹکٹوں سے نواز دیا گیا ہے اور سیاست کو سرمائے اور رشتوں کی باندی بنا دیا گیا ہے۔ نظریاتی سیاست کو تو رکھیں ایک طرف۔ پرانے اور وفا دار کارکن پارٹی کی ٹکٹ دینے کی پالیسی پر احتجاج کناں ہی نہیں بلکہ نوحہ کناں ہیں۔ پارٹی سربراہان ایک سیٹ کی بجائے کئی کئی سیٹوں سے انتخاب میں حصہ لینے کے لیئے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے تین جگہ سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ مریم نواز بھی دو تین حلقوں سے امیدوار ہیں۔عمران خان نے تو پانچ چھ حلقوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ جن میں سے دو حلقوں میں تو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی مہربانی سے سیتا وائٹ کا نام اعتراض بن کر عمران خان کے کاغذات کے سامنے آ ن کھڑا ہوا ہے۔ان دو حلقوں میں گیند ریٹرننگ افسر کی کورٹ میں ہے۔دیکھتے ہیں افتخار چودھری کی چودھراہٹ کیا رنگ لاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک سے زائد حلقوں میں کامیابی کی صورت میں ضمنی انتخابات ہو ں گے۔اور قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے ضمنی الیکشن پر ایک اندازے کے مطابق دس کروڑ روپے اور صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر سات کروڑ روپے کے اخراجات بتائے جارہے ہیں۔ہمارے ملک میں ایک بالکل مختلف انداز کا جمہوری نظام رائج ہے۔ جو صرف ایک مخصوص طبقے ہی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔عام آدمی کا اس نظام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ عجیب نظام ہے کہ ایک ووٹر اپنا ووٹ تو اپنے حلقے کے مخصوص پولنگ اسٹیشن کی بجائے کہیں اور کاسٹ نہیں کر سکتا مگر ایک سیاسی امیدوار خاص طور پر کسی پارٹی کا سربراہ پورے پاکستان میں جہاں سے مرضی چاہے الیکشن لڑ سکتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی جرم میں ملوث سزا یافتہ شخص معمولی سے معمولی نوکری کے لیئے بھی نا اہل ہوتا ہے مگر الیکشن میں حصہ لینے کے لیئے ایسا کوئی پیمانہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔بلکہ پاکستان کی سیاست ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں جرائم کا کھرا کسی نہ کسی سیاست دان کے ڈیرے سے جا ملتا ہے۔پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کی بہت بات کی جاتی ہے مگر پارلیمنٹ نے کبھی ایسے قوانین کو بدلنے کی کوشش ہی نہیں کی۔اور اب تو تمام سیاسی پارٹیوں نے مل کر الیکشن کو کثیرسرمائے کا کھیل بنا دیا ہے۔الیکشن کمیشن کم از کم اس بات کا تو نوٹس لے اور اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کئی کئی سیٹوں سے الیکشن لڑنے والوں کو پابند کرے کہ ضمنی الیکشن کی صورت میں اس سیٹ پر دوبارہ الیکشن کے تمام اخراجات جیت کر سیٹ چھوڑنے والاامیدوار برداشت کرے گا۔ صرف ہر پانچ سال بعد الیکشن کا انعقاد ہی تو جمہوریت نہیں جس میں وہی چہرے وہی خاندان پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ برسراقتدار آکر عوام کے استحصال کی نئی نئی راہیں تلاش کریں۔نظام بدلنے کا نعرہ لگانے والی پارٹی اپنے ہی نعرے کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ چکی ہے۔سرمائے اور طاقت کا نظام نافذ ہے اور الیکشن کے بعد اس سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ نافذرہے گا۔ سرمائے کی قوت کا ایک منظر قوم گزشتہ روز دیکھ چکی ہے کہ ریاست مدینہ اور حضرت عمر فاروقؓ کی مثالیں دینے والے عمران خان اپنے سرمایہ دار دوست زلفی بخاری کو کیسے سپیشل جہاز میں بٹھا کر عمرے کی سعادت کے لیئے اپنے ساتھ لے گئے۔عوام نہیں جانتے تھے کہ زلفی بخاری کون ہے انہیں تو صرف زلفوں کی کہانیاں سننے کو مل رہیں تھیں۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اقتدار کی زلفیں عمران خان کو اپنا اسیربنانا چاہتی ہیں ، زلفی بخاری کا معاملہ اسی طرز کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ میر کا ایک شعر یاد آ رہا ہے ۔ ہم ہوئے۔ تم ہوئے کہ میر ہوئے۔۔۔ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے۔
فیس بک کمینٹ