کبھی تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق ہوا کرتے تھے ۔پھر جنرل مشرف کی مد ح سرائی اور تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان پر تنقید کے تیر برساتے برساتے ، اچانک فواد چودہدری تحریک انصاف میں وارد ہوئے۔ پہلے پہل کے مناظر میں جب کہیں نعیم الحق تحریک انصاف کی ترجمانی کے فرائض ادا کرتے دکھائی دیتے تو پچھلی صف میں گردن نکال کر کھڑے ہوئے ( جیسا کہ آج کل آپ اسی پوزیشن میں اپنے شہر بلکہ ہمارے تو حلقے سے منتخب ایم این اے عامر ڈوگر کو دیکھتے ہیں،جن کا چہرہ تحریک انصاف کے ہر بڑے کے ساتھ کیمرے کی آنکھ کی زینت بنا ہوا ہوتا ہے) فواد چوہدری موقع ملتے ہی جھپٹ کر مائیک اچک لیتے تھے اور نعیم الحق پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے دکھائی دیا کرتے تھے۔ایسے میں نعیم الحق کے چہرے پر ابھرنے والے ناگواری کے تاثرات کیمرے کی آنکھ کے ذریعے ہم ناظرین تک پہنچ جایا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ نہیں، بڑی تیزی کے ساتھ فواد چوہدری نے ایسا راگ درباری الاپا، جو انہیں تحریک انصاف کی ترجمانی سے سرکاری وزارت اطلاعات کے قلم دان تک لے گیا۔ اور نعیم الحق کے ساتھ ساتھ شیخ رشید بھی منہ دیکھتے رہ گئے۔ شیخ رشید کو تو اپنے خان صاحب کے وژن نے ریلوے کی وزارت دے کر خواجہ سعد رفیق کی باقیات کے کیڑے نکالنے کے کام پر لگا دیا ہے۔حضرت شیخ کو جہاں کہیں خواجہ سعد رفیق کے دور کا کوئی اچھا کام نظر آتا ہے ،شیخ صاحب کا سانس اندر اورآنکھیں باہر آنے لگتی ہیں۔رہے ،نعیم الحق تو سنا ہے کہ وہ بنی گالہ کے معاملات کے انچارج ہیں۔یہ بات ہم نہیں کہہ رہے خود نعیم الحق کہہ چکے ہیں، یاد کیجیئے ، عمران خان کے وزیر اعظم کا حلف لینے سے بھی پہلے، جب نعیم الحق کو بنی گالہ جانے سے روکتے ہوئے بتایاگیا کہ ” اوپر سے آڈر ہے“ ۔۔اوپر سے آرڈر ہے؟؟کس کا آرڈر ہے؟؟تو جواب ملا” کرنل صاحب کا “ ۔” کون کرنل ؟۔میں یہاں کا انچارج ہوں“ ۔اس لمحے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے نعیم الحق کی بے بسی دیکھنے کے قابل تھی ۔گویا کہہ رہے ہوں ” جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں۔۔۔وہ بولنے لگے تو ہمیں پر برس پڑے“ ۔۔۔
خیر۔ہم بات کر رہے ہیں فواد چوہدری کی تو آج کل ان کی چوہدراہٹ کا ڈنکا خوب بج رہا ہے۔ فواد چوہدری اپنی جماعت کے ترجمان بھی ہیں اور سرکار کی طرف سے وزیر اطلاعات بھی۔لہٰذا ۔ تازہ بہ تازہ اطلاعات عوام تک پہنچانا ان کی جماعتی ذمہ داری بھی ہے اور حکومتی ذمہ داری بھی۔ کابینہ کے اجلاس دھڑا دھڑ منعقد ہو رہے ہیں اور فواد چوہدری کابینہ کے اجلاس سے نکل کر سیدھے پریس کانفرنس میں پہنچ کر میڈیا ٹاک کے ذریعے ، کابینہ کے تازہ ترین فیصلوں سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں۔جس میں کام کی بات کم اور خان صاحب کے وژن کی مسلسل تکرار سے خان صاحب سے محبت اور وفاداری کا اظہار زیادہ ہوتا ہے۔ہم تو میاں نواز شریف کے دور حکومت کو مغلیہ دور حکومت کہا کرتے تھے مگر فواد چوہدری کی میڈیا ٹاک سن سن کرتو برادر ملک ترکی کے ” میرا سلطان “کے اوصاف یاد آنے لگتےہیں۔ فواد چوہدری کی باڈی لینگویج اور انداز گفتگو ، الفاظ کا چناﺅ ، کسی ٹی وی ٹاک شو میں اپنے مخاطب اینکر یا ٹاک شو میں شامل کسی اور مہمان سے بات کرتے ہوئے ،فواد چوہدری کی چوہدراہٹ اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ گزشتہ شب ایک پروگرام میں فواد چوہدری کے اندازگفتگو پر پی پی پی کے لیڈر قمرزمان کائرہ کو کہنا پڑا کہ جناب فواد چوہدری صاحب۔ ہم بھی انہی سیٹوں سے ہو کر آئے ہیں۔قمرزمان کائرہ کا شمار بلاشبہ ان معدودے چند سیاست دانوں میں ہوتا ہے جواپنے مخالفین کے بارے میں بھی گفتگو کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں اور سیاسی مخالفت میں شائستگی اور ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔عمران خان کے دور حکومت کی ” ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے “ حکومتی ترجمان اپنی حکومت کا چہرہ ہوتا ہے اور فواد چوہدری کے چہرے پر اگر اسی طرح چوہدراہٹ کے آثار بڑھتے رہے تو کہا یہ جا رہا ہے کہ عوام ان کے چہرے سے جلد اکتا جائیں گے۔
فیس بک کمینٹ