ایک لفظ کی ترمیم کے ساتھ عنوان کا مصرعہ تو پروین شاکر کا ہے مگر مجھے معروف استاد،شاعر اور دانشور جناب اسلم انصاری کی ایک خوبصورت غزل کا شعر یاد آرہا ہے۔۔کچھ شام ہی سے تھا میرا دل بھی بجھا بجھا۔۔کچھ شہر کے چراغ بھی مدہم ہیں دوستو۔۔یہ شعر اس زمانے کا عکاس ہے جب شام بھی شام ہوا کرتی تھی اور شہر میں چراغ تلے اندھیرانہیں بلکہ چراغوں کی مدہم لو آنکھوں کو چندھیا دینے والی چمک کی بجائے ٹھنڈی میٹھی روشنی سے راہ سجاتی تھی۔ ان چراغوں کا طواف کرتے پروانے اپنی جان وارتے نظر آتے تو عشق کی کئی داستانوں کے عنوان جنم لیتے۔
شام کا اپنا مزاج ہوتا تھا۔ شام سے پہلے آجانا ۔ سونا سونا گھر لگتا ہے ۔دیواروں سے ڈر لگتا ہے۔ پیار اور انتظار کی کیفیت میں ڈوبے گیت ان کہے جذبوں کے ترجمان ہوا کرتے تھے۔بچے سردیوں کے موسم میں سر شام بستر میں دبک کر ابو کا انتظار کرتے ہوئے نانی دادی سے کہانی سنتے ہوئے بھی نظریں بیرونی دروازے پر لگائے رکھتے تھے۔ ابو سے زیادہ انتظار ابو کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے مونگ پھلی ۔چلغوزے۔ اخروٹ ۔سوہن حلوے یا گجریلے کے لفافوں کا ہوتا تھا۔ ابھی شاپر متعارف نہیں ہوئے تھے۔ کاغذ کے چھوٹے چھوٹے لفافے ایک بڑے لفافے میں رکھے ہوتے ۔بچوں کی ندیدی نظریں ایک ایک لفافہ کھلنے کی منتظرہوتیں۔ برانڈڈ چاکلیٹ۔ کینڈی ۔چپس ۔سلانٹی کے نام اور ذائقوں سے آشنائی نہیں ہوئی تھی۔گلی محلے کی دوکانوں پر کھٹی میٹھی ٹکیاں اور گڑ شکر سے بنی گجک ۔ چینی سے بنے لچھے اور مرونڈے ملا کرتے تھے۔پھیری والا لمبے سے بانس پر سانپ کی طرح لپٹا گٹا لے کر گلی گلی آواز لگاتا پھرتا۔برگر اور پیزے کا تو نام بھی سنا ہوا نہیں تھا۔قلفی فالودہ اور برف کے گولے گرمیوں میں کھانے کی مرغوب اشیاءتھیں۔
اب شام نہیں ہوتی ۔ رات بھی نہیں ہوتی۔کبھی کراچی کے بارے میں سنتے تھے کہ وہاں راتیں جاگتی ہیں۔اب ہر کہیں راتیں جاگتی ہیں اور آنکھیں بھی۔ جاگتی آنکھوں میں رت جگوں کی لالی تو اتر آتی ہے خواب نہیں ۔ دن رات کا فرق ختم ہو گیا تو کام اور آرام کی تفریق بھی مٹ گئی ۔
کوہ قاف سے آنے والے جنوں، پریوں کی کہانیاں بھی ہیںاور دادی ،نانیاں بھی۔مگر اپنی زندگی اپنے طرز پر گزارنے کی آرزو میں ماں باپ نے ،نانی دادی سے کہانیاں سننے کی بچوں کی خواہش قربان کر دی ہے۔ ابو جان ،بابا اور امی جان، ماما ہونے کے بعد اب بچے بھی بابا کی بجائے آن لائن دیئے گئے پیزے اور برگر کے آرڈر کی ہوم ڈلیوری والے انکل کا انتظار کرتے ہیں اور کہانیاں موبائل فون پر اپنی پسند کے پروگرام اپ لوڈ کر کے سنتے ہیں۔ماما خوش ہیں کہ بچے تنگ نہیں کرتے۔ بابا کو اپنی صحت سے زیادہ بچوں کے سکول کی بھاری فیسوں کی فکرکھائے جاتی ہے۔
تعلیم عام ہے اور تربیت خام۔بچے کی تربیت ،،بابا بلیک شیپ ،،سے شروع ہو کر،،ہمپٹی ڈمپٹی سیٹ آن اے وال،،سے ہوتی ہوئی ،،ٹوینکل ٹوینکل لٹل سٹار،،تک پہنچتی ہے۔پھر چھوٹا بھیم، بڑا بھیم(کارٹون) اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔بابا کے پاس وقت نہیںجو بچوں میں گزار سکے۔بچوں کی تربیت موبائل فون میں موجود گیمز کر رہی ہیں یا میڈیا ۔پہلے بچے ٹی وی سکرین پر دہشت گردی اور دھماکوں کے مناظر دیکھ کر ڈر جاتے تھے اب دھرنے ۔ دھماکے معمول کی بات ہے۔ ایک بچے نے دوسرے سے پوچھا۔کرپٹ کا کیا مطلب ہے۔جھٹ جواب آیا نواز شریف۔یہ میڈیا کا کمال ہے۔
شام اب بھی آتی ہے۔ برقی رو برقرار ہو تو قمقمے جگمگا اٹھتے ہیں۔چوپال نہیں سجتی۔ ٹی وی سکرینوں پر میلہ لگ جاتا ہے۔بڑوں کی نظریں ٹی وی سکرین پر اور بچوں کی موبائل سکرین پر جمی ہوتی ہیں۔ بچے اب تنگ نہیں کرتے ۔بچے ہمارے عہد کے ،، بے باک ،،ہو گئے۔
فیس بک کمینٹ