مرزاغالب نے اہل شمشیرکے ہاتھوں، اہل حق کے ہاتھ قلم ہونے کاتذکرہ کرتے ہوئے کہاتھا:لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں/ہرچنداس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔’’شکوہ ‘‘کے خالق بھی یوں شکوہ کناں ہوئے:یہ دستورزباں بندی ہے کیساتیری محفل میں/یہاں توبات کرنے کوترستی ہے زباں میری۔آنے والے دورمیں فیضؔ نے اسی دستورزبان بندی کانوحہ نئے ڈھنگ سے کچھ یوں پڑھا:متاع لوح وقلم چھن گئی توکیاغم ہے/ کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے،اورپھرمہربہ لب کیے جانے کے بعدنئے حوصلے کااظہارکرتے ہوئے لکھا:زباں پہ مہرلگی ہے توکیاکہ رکھ دی ہے/ہرایک حلقہ زنجیرپرزباں میں نے۔گویاکہ اہل دل واہل قلم ہمیشہ زمانے کے شاکی رہے کہ آزادی اظہارکی پاداش میں کہیں ہاتھ قلم کیے جاتے ہیں اورکہیں سر۔سوجب تاریخ کے دریچے سے کبھی منصورکانعرہ مستانہ اورکہیں سرمدکی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے تواس کے انجام پہ دھرتی ماتم کرتی ہے اور فلک خون کے آنسوروتاہے۔کچھ بہت پرانی بات نہیں کہ ماضی قریب میں تخت وتاج پرجبری تسلط جمانے والوں نے آوازوالفاظ کو جس طرح پابندسلاسل کیااس کے ان مٹ نقوش اہل حق کے دلوں پرثبت ہیں۔مگرپھریوں ہواکہ زمانے نے اپناصفحہ پلٹا۔زباں پرلگی مہراورحلقہ زنجیردونوں ٹوٹ گئے۔پھرتو ذہن ودل اورعقل وشعوریہ کہنے پرمجبورہوئے:کس کے گھرجائے گاسیلاب بلامیرے بعد ۔سماجی رابطوں کی فراوانی وارزانی نے اس صدیوں سے قید،اظہارکے سیلاب بلاخیزکوکچھ ایسے رہائی دی ہے کہ کہیں جائے اماں نہیں ملتی سوبہ قول ذوقؔ صورت حالات کچھ یوں ہے:اب توگھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے/مرکے بھی چین نہ پایاتوکدھرجائیں گے۔ہرتحریروتقریر وتصویرپردی گئی تبصرے کی آزادی نے زبانوں کے زنگ دورکردیئے ہیں اوراب یہ اتنی رواں ہوگئیں ہیں کہ روکے نہیں رکتیں۔یہ محاورہ ایسے کسی موقعے کے لیے تواختراع نہیں کیاگیاتھامگریہاں نہایت مناسب معلوم ہورہاہے کہ’’جتنے منہ اتنی باتیں‘‘۔سیدھے سادھے تبصرے ،آزادی اظہارکی حق دہی کے ہاتھوں مغلظات تک جاپہنچے ہیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹس اب ایک ایسے تختہ سیاہ یاسفید دیوارکی مانندہوچکی ہیں جس پرکوئی بھی ،کچھ بھی لکھ سکتاہے یاپھرشایدیہ کہنابجاہوگاکہ یہ مثل ایسے آئینے کے ہوچکی ہیں جس میں ہم دوسروں کوان کاعکس دکھانا چاہتے ہیں۔مگرحقیقت تو یہ ہے کہ اس میں ہماراعکس ہی دکھائی دے رہاہے۔کوئی تصویریاکوئی تحریرکھول لیں۔اس کے نیچے موجودتبصروں پرنظرڈالیں تویاتوایک دنگل کاسماں دکھائی دے گا جس میں مبصرین بہ صورت الفاظ باہم دست وگریباں دکھائی دیں گے یامغلظات کاایک طوفان بدتمیزی ہوگاجوکانوں کی لویں سرخ اورذہن ودل کوپراگندہ کرڈالے گا توگویا:جس کو ہودین ودل عزیزاس کی گلی میں جائے کیوں۔یہاں موضوع بحث کچھ بھی ہوسکتاہے۔دین ومذہب،سیاست ومعاشرت سے لے کرکسی کے انتہائی ذاتی معاملات زندگی تک،کچھ بھی ۔یہ انتہاپسندی صرف تبصروں میں ہی نہیں تحریروں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔صدیوں کاغبارکچھ یوں راہ پائے گایہ توشایدکسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا۔اگرچہ یہ صورت حال سب جگہ یکساں نہیں لیکن یہ کیاکم ہے کہ ،ہے توسہی۔اس سارے منظرنامے میں اہل دل واہل قلم کو ’’گردوپیش‘‘ جیساپلیٹ فارم میسرآنابہت غنیمت ہے۔جہاں آزادی اظہارکاتسلسل ایک توازن وتناسب کے ساتھ جاری وساری ہے۔اس کاسہرایقیناََ’’گردوپیش ‘‘کے منتظم اعلیٰ کے سرہے۔رضی الدین رضی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک اصولی جنگ لڑرہے ہیں حالانکہ جنگ میں تو سب جائزہوتاہے ۔ان کی ذاتی شخصیت حق گوئی،سچائی،بے باکی ،عالی حوصلگی اورعزم سے مرکب ہے ۔چنانچہ اس کاعکس ان کی ان تھک مساعی میں دکھائی دیتاہے۔ان کی مثال احمدندیم قاسمی کے الفاظ میں اس شخص کی مانندہے جس کے لیے :
ایک نعمت بھی یہی ایک قیامت بھی یہی
روح کاجاگنااورآنکھ کابیناہونا
دعایہی ہے کہ ان کی رُوح یوں ہی تاعمربیدار اورآنکھ سدا بینارہے اوروہ اس بیداری وبینائی کویوں ہی بانٹتے رہیں۔گردوپیش کی پہلی سال گرہ کے موقع پران کے لیے ڈھیروں دعائیں ہیں کہ خداان کوحق وسچ کاعلم یونہی بلندرکھنے کاحوصلہ وہمت عطاکرے اورتنہاسفرآغاز کرنے والے رضی الدین رضی کوخدابہت سے مزیدرفیق عطاکرے کہ تنہاانسان کتناہی باہمت وجری کیوں نہ کبھی تھک بھی توجاتاہے۔
میں اکیلاہی چلاتھاجانب منزل مگر
ہم سفرملتے گئے اورکاروں بنتاگیا
گزشتہ ایک سال میں جہاں بہت سے اایسے ہل قلم اس پلیٹ فارم سے وابستہ ہوئے جوادبی وصحافتی دنیامیں ایک مقام ومرتبہ رکھتے ہیں وہیں ایسے لکھاریوں کوبھی اپنے جوہردکھانے اورمنظرعام پرآنے کاموقع ملاہے جواس سے پہلے گم نام تھے۔سب سے خوش آئندامریہ ہے کہ کڑی تنقیدکے باوجودرضی الدین رضی نے نہ صرف اس کٹھن سفرکوجاری رکھابلکہ ’’گردوپیش ‘‘پرشائع تحریروں کوکتابی شکل میں بھی سامنے لاکرایک اہم سنگ میل بھی عبورکیاہے۔ان کے لیے بہت سی نیک خواہشات کیونکہ:
سینچی ہیں دل کے خون سے میں نے کیاریاں
کس کی مجال مجھ سے چمن میراچھین لے
فیس بک کمینٹ