ایک دن مولانا ابراہیم لاہور گئے۔ علامہ سے ملاقات ہوئی۔ واپس آئے تو سرِ شام معمول کی محفل جمی۔علامہ اقبال سے ملاقات کا ذکر چلا تو عطائی کا جنوں سلگنے لگا۔ مولانا نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا اور کہنے لگے۔ لو عطائی! علامہ صاحب کی تازہ رُباعی سنو۔ پھر ایک عجب پُر کیف انداز میں پڑھنے لگے:ایک دن مولانا ابراہیم لاہور گئے۔ علامہ سے ملاقات ہوئی۔ واپس آئے تو سرِ شام معمول کی محفل جمی۔علامہ اقبال سے ملاقات کا ذکر چلا تو عطائی کا جنوں سلگنے لگا۔ مولانا نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا اور کہنے لگے۔ لو عطائی! علامہ صاحب کی تازہ رُباعی سنو۔ پھر ایک عجب پُر کیف انداز میں پڑھنے لگے:تو غنی از ہر دو عالم من فقیرروزِ محشر عُذر ہائے من پذیروَر حسابم را تو بینی ناگزیراز نگاہِ مصطفےٰ پنہاں بگیرمولانا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے لیکن محمد رمضان عطائی کی کیفیت روتے روتے دگرگوں ہو گئی۔ اسی عالمِ وجد میں فرش پر گرے۔ چوٹ آئی اور بے ہوش ہو گئے۔ رُباعی اُن کے دل پر نقش ہو کے رہ گئی۔ اُٹھتے بیٹھتے گنگناتے اور روتے رہتے۔ اُنہی دنوں حج پر گئے۔ خود اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جب حجاج اوراد و وظائف میں مصروف ہوتے تو وہ زار و قطار روتے اور علامہ کی رُباعی پڑھتے رہتے۔ حج سے واپسی پر عطائی کے دل میں ایک عجیب آرزو کی کونپل پھوٹی۔ ”کاش یہ رُباعی میری ہوتی یا مجھے مل جاتی۔“ یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھا…. ”آپ سر ہیں۔ فقیر بے سر۔ آپ اقبال ہیں۔ فقیر مجسم ادبار۔ لیکن طبع کسی صورت کم نہیں پائی۔“ انہوں نے علامہ کے اشعار کی تضمین اور اپنے چیدہ چیدہ فارسی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ”….فقیر کی تمنا ہے کہ فقیر کا تمام دیوان لے لیں اور یہ رُباعی مجھے عطا فرما دیں۔“ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اُنہیں علامہ کی طرف سے ایک مختصر سا خط موصول ہوا۔ لکھا تھا:”جناب محمد رمضان صاحب عطائیسینئر انگلش ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازی خانلاہور: 9 فروری 1937ء جنابِ من! مَیں ایک مدت سے صاحبِ فراش ہوں۔ خط و کتابت سے معذور ہوں۔ باقی، شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلا تکلف وہ رُباعی جو آپ کو پسند آ گئی ہے، اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔فقطمحمد اقبال، لاہور۔“ علامہ کی یہ عطا، عطائی کے لیے توشہ ء دو جہاں بن گئی۔ علامہ نے یہ رُباعی اپنی نئی کتاب ”ارمغانِ حجاز“ کے لیے منتخب کر رکھی تھی۔ عطائی کی نذر کر دینے کے بعد انہوں نے اسے کتاب سے خارج کر کے تقریباً اسی مفہوم کی حامل ایک نئی رُباعی کہی جو ”ارمغانِ حجاز“ میں شامل ہے۔بہ پایا چوں رسد ایں عالم پیرشَود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیرمکُن رُسوا حضورِ خواجہ ما راحسابِ مَن زچشمِ او نہاں گیر(اے میرے رب! جب (روزِ قیامت) یہ جہاں پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جائے تو اُس دن مجھے میرے آقا و مولا کے حضور رُسوا نہ کرنا اور میرا نامہ اعمال آپ کی نگاہوں سے چھپا رکھنا۔) ایم اے فارسی کا امتحان دینے لاہور گئے تو عطائی شکریہ ادا کرنے علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ہمراہ جانے والے چوہدری فضل داد نے تعارف کراتے ہوئے کہا ”بوڑھا طوطا ایم اے فارسی کا امتحان دینے آیا ہے۔“ علامہ ایک کھری جھلنگا چارپائی پر احرام نما سفید چادر اوڑھے لیٹے تھے۔ بولے ”عاشق کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔“ رُباعی کا ذکر چل نکاا ۔ عطائی نے جذب و کیف سے پڑھنا شروع کیا ”تو غنی از ہر دو عالم….“ علامہ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ اتنا روئے کہ سفید چادر کے پلو بھیگ گئے۔ اس کے بعد بھی عطائی کی علامہ سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ آخری ملاقات علامہ کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل دسمبر 1937ءمیں ہوئی۔ انہوں نے علامہ سے کہا ”سنا ہے جناب کو دربارِ نبوی سے بلاوا آیا ہے۔“ علامہ آبدیدہ ہو گئے …. آواز بھرا گئی۔ بولے …. ”ہاں! بے شک لیکن جانا نہ جانا یکساں ہے۔ آنکھوں میں موتیا اُتر آیا ہے۔ یار کے دیدار کا لطف دیدہ طلب گار کے بغیر کہاں؟“ عطائی نے کہا …. ”جانا ہو تو دربارِ نبوی میں وہ رُباعی ضرور پیش فرمائیے گا جو اَب میری ہے۔“ علامہ زار و قطار رونے لگے۔ سنبھلے تو کہا…. ”عطائی! اس رُباعی کو بہت پڑھا کرو ممکن ہے خداوند کریم مجھے اس کے طفیل بخش دے۔“ 21 اپریل 1938ءکو علامہ اقبال انتقال فرما گئے۔ عرصہ بعد شاہی مسجد کے احاطے میں اُن کے مزار کی تعمیر شروع ہوئی تو ہر ہفتے اور اتوار کو ایک مجذوب سا شخص لاٹھی تھامے مسجد کی سیڑھیوں پہ آ بیٹھتا اور شام تک موجود رہتا۔ وہ زیرِ تعمیر مزار پہ نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتا رہتا۔ کبھی یکایک زاری شروع کر دیتا، کبھی طواف کے انداز میں مزار کے چکر کاٹنے لگا۔ اس کا نام محمد رمضان عطائی تھا۔ مولانا محمد ابراہیم ناگی کبھی کبھی کہا کرتے: ”ظالم عطائی! کان کنی تومَیں نے کی اور گوہر تو اُڑا لے گیا۔ بخدا اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ حضرت غریب نواز (علام اقبال) اتنی فیاضی کریں گے تو مَیں اپنی تمام جائیداد دے کر یہ رُباعی حاصل کر لیتا اور مرتے وقت اپنی پیشانی پر لکھوا جاتا۔“ محمد رمضان عطائی سینئر انگلش ٹیچر 1968ءمیں اس جہانِ فانی سے رُخصت ہو گئے۔ انہوں نے اپنی وصیت میں لکھا ”میرے مرنے پر اگر کوئی وارث موجود ہو تو رُباعی مذکور میرے ماتھے پہ لکھ دینا اور میرے چہرے کو سیاہ کر دینا۔“ مجھے معلوم نہیں پس مرگ اُن کے کسی وارث نے اس عاشق رسول کی پیشانی پہ وہ رُباعی لکھی یا نہیں لیکن ڈیرہ غازی خان کے قدیم قبرستان ”ملا قائد شاہ“ میں کوئی بیالیس برس پرانی ایک قبر کے سرہانے نصب لوحِ مزار پر کندہ ہے:تو غنی از ہر دو عالم من فقیرروزِ محشر عُذر ہائے من پذیروَر حسابم را تو بینی ناگزیراز نگاہِ مصطفےٰ پنہاں بگیر ربیع الاوّل کے مبارک ایّام ایک مرتبہ پھر ہمیں میسر ہیں۔ ہم جو گناہگار ہیں اور ہر وقت نبی رحمت کی طرف سے رحمت کے متلاشی رہتے ہیں ایسے میں اگر مَیں بھی علامہ اقبال کی زبان میں یہ خواہش کروں کہ:از نگاہِ مصطفےٰ پنہاں بگیرتو میری عاقبت سنور جائے گی۔ ایک خوبصورت خطاطی کی وجہ سے میرے حصے میں یہ دُعا آئی کہ مَیں خاتمہ بالخیر کی دُعا مانگوں اور ہاں آخر میں چلتے چلتے محترم عرفان صدیقی اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے گزارش ہے کہ آپ دونوں ہاشم شیر خان کی اس کتاب کو نیشنل بک فاؤ نڈیشن کے زیرِ اہتمام شائع کروا دیں اور اس کتاب کو خوب سے خوب تر ہونا چاہیے کہ جناب عرفان صدیقی نے یہ وعدہ آج سے سات سال پہلے کیا اور پرانے والے وعدے پرانے دوستوں کی طرح عزیز ہوتے ہیں۔ سو عرفان صاحب کتاب کا انعام درکار ہے کتاب جو عطا ہے اور روشنی بھی۔( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ