7دسمبر کی صبح کی بات ہے میرے واٹس ایپ پر سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے پیغام اور آڈیو موصول ہوا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں سوالیہ انداز میں دریافت کیا کہ ان کو کسی نے ایک آڈیو بھجوائی ہے اورکہاہے کہ یہ علامہ اقبال کی آواز ہے جو شکوہ سنارہے ہیں۔ میں نے فوراً وہ آڈیو سنی تو آواز اگرچہ مختلف تھی لیکن وہ آواز بھی نہیں تھی کہ ہم یہ کہہ اٹھتے کہ واقعی وہ آواز علامہ اقبال کی ہے۔ ابھی ہم سید یوسف رضا گیلانی کے سوال کاجواب تلاش کررہے تھے کہ ہمیں فیس بک سے لے کر موبائل کے دیگر ایپس پر علامہ اقبال کی آواز کے نام پر شکوہ کی آڈیو اتنے دوستوں نے ارسال کی کہ یوں محسوس ہورہاتھا جیسے تمام اہل علم اس آواز کے سننے کے منتظر تھے۔ مجھے تو ان دوستوں نے بھی یہ آڈیو بھجوائی جن کے بارے میں میرا یقین کامل ہے کہ انہوں نے کبھی علامہ اقبال کا کلام بھی نہیں پڑھا ہوگا۔ سوائے وہ کلام جو گلوکاروں نے گایا یا پھر ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ ۔۔۔انہوں نے سکول کے دور میں پڑھا ہوگا۔ بہر حال علامہ اقبال کے نام کی جو آڈیو مجھے دھڑا دھڑ مل رہی تھی کہ اب اس کے بارے میں پریشانی لاحق ہونی شروع ہوگئی کیوں کہ فیس بک پر بحث کا آغاز ہوچکا تھا کہ یہ آواز کیا واقعی علامہ اقبال کی ہے؟
ایسے میں ہماری خوش بختی یہ ہوئی کہ انہی دنوں دنیائے براڈکاسٹنگ کے بے تاج بادشاہ جناب رضا علی عابدی ملتان میں موجود تھے۔ ان سے قمررضا شہزاد، رضی الدین رضی، اسرار احمد چودھری اورقیصر عباس صابر نے پوچھا آپ نے تمام زندگی آوازوں کی دنیا میں بسر کی، کیا کبھی آپ نے علامہ اقبال کی آواز سنی؟ رضا علی عابدی کے چہرے پر جلال آیا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ علامہ اقبال کی آواز کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت آل انڈیا ریڈیو کی ہے جن کے پاس علامہ اقبال کی زندگی میں شمارمواقع آئے ہوں گے لیکن انہوں نے اس طرف توجہ نہ دی جس وجہ سے ہم سب لوگ ان کی آواز سننے سے محروم ہوئے۔ ان کے اس جواب کے بعد جب میں نے کہا تو پھر اس وقت سوشل میڈیا پر علامہ اقبال کی آوازکے نام پہ یہ جوآواز موجودہے، وہ کس کی ہے؟ کہنے لگے کوئی بھی شخص جب چاہے جو چاہے اقبال کے نام پہ یہ گمراہی پھیلا سکتاہے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ جب رضا علی عابدی کے اس جواب کے بعد ہماری تسلی تو ہوگئی لیکن شتر بے مہار سوشل میڈیا پہ کیسے کنٹرول ہوسکتا تھا آج علامہ اقبال کی جعلی آڈیو ریلیز ہوگئے لیکن ہر دس پندرہ منٹ بعد کسی نہ کسی کی طرف سے ہمیں یہ ’’تحفہ‘‘ موصول ہورہاہے۔
اس صورت حال پر دوسرے تیسر ے دن اچھی بات یہ ہوئی کہ برادرم عقیل عباس جعفری نے علامہ اقبال کی جعلی آواز کاکھوج لگایا اور اس کو اپنے فیس بک کے صفحے پر واضح طورپر لگادیا تاکہ لوگوں کواصل صورت حال سے آگاہی ہو۔ جعفری صاحب نے اپنی وال پر لکھا کہ ’’اصل میں یہ آواز امریکہ میں مقیم جناب ناصر جمال کی ہے جو گزشتہ دس برسوں سے اپنے یوٹیوب چینل پر کلام اقبال کو عام لوگوں تک پہنچانے کیلئے مختلف وڈیو اور آڈیو بناکر لوگوں سے شیئر کرتے رہتے ہیں۔‘‘ علامہ اقبال کے جعلی اشعار تو ہر وقت مارکیٹ میں گردش کرتے رہتے ہیں، اس مرتبہ کمال یہ ہوا ہے کہ ان کی یار لوگوں نے آڈیو بھی جاری کردی۔عقیل عباس جعفری نے اس بات کی تصدیق یوں بھی کی کہ انہوں نے خودایک مرتبہ اقبال اکیڈمی لاہورکے ناظم سہیل عمر سے علامہ اقبال کی آڈیو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے نفی میں جواب دیا اور سہیل عمرنے بتایا کہ وہ خود آل انڈیا ریڈیو اور بی بی سی کے ریکارڈ چیک کرواچکے ہیں ، وہاں پر بھی اقبال کی آواز موجود نہیں تھی۔ اسی وال پر سید کاشف رضا نے لکھا ہے کہ ’’یہ افسوس ناک بات ہے کہ کسی کے پاس علامہ اقبال کی آڈیو ریکارڈ نگ موجود نہ ہے جبکہ مشہور برطانوی شاعر رابرٹ براؤننگ 1889ء میں فوت ہوا، انگریزوں نے اس کی آواز میں اس کی نظم بھی ریکارڈ کراکے رکھی ہوئی ہے۔ بی بی سی کے پاس اصولی طورپر گول میز کانفرنس لندن کاریکارڈ تو ہوناچاہیے تھا جس میں علامہ اقبال بھی شریک تھے۔‘‘
سید کاشف رضا کو معلوم نہیں ہے کہ بی بی سی کا کارول پہلے دن سے مسلمانوں کیلئے اتنا بہتر نہیں ہے اور پھر اس وقت گول میز کانفرنس بھی مسلمانوں کیلئے الگ وطن کیلئے منعقدکی گئی تھی ۔ ایسے میں بی بی سی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ کانفرنس کے تمام شرکاء کی آوازوں کو محفوظ کرے۔
بظاہر اس سے صورت حال تو واضح ہوگئی لیکن ابھی تک بے شمار لوگ ایصال ثواب کی خاطر جمال ناصر کی آواز کو علامہ اقبال کی آواز جان کر بھجوارہے ہیں۔ یہ خبر شکاگو میں موجودجمال ناصر کوملی تو اس نے بھی یوٹیوب چینل کے ذریعے اپنی ایک وڈیو جاری کی جس میں انہوں نے تمام صورت حال کو واضح کیا کہ وہ آوازان کی اپنی ہے۔ ثبوت کے طورپر انہوں نے اپنی وڈیو میں شکوہ جواب شکوہ کے چند اشعار بھی پڑھ کر سنائے۔
معاملہ اگر یہاں تک ختم ہوجاتا تو ٹھیک تھا ۔ جب علامہ اقبال کے گھر والوں تک یہ صورتحال پہنچی تو ان کی بہو بیگم ناصرہ جاویداقبال صاحبہ اور علامہ اقبال کے پوتے منیب اقبال کا ایک وڈیوکلپ بھی دیکھنے کو ملا۔ اس وڈیوکانفس مضمون بھی یہی تھا کہ علامہ اقبال کی آواز کہیں پرموجودنہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس کوئی آڈیو ہے تو وہ جعلی ہے۔ اس وڈیو میں بیگم ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ بڑے مہذب اندازمیں گفتگو کرتے دکھائی دی ہیں جبکہ ان کا بیٹا منیب اقبال تو بہت ہی غصے میں نظرآیا ۔ اس غصے کی وجہ سے منیب کے جملے بے ربط ہوئے اور اس کا دیکھنے والوں پر کوئی اچھااثر نہیں پڑا۔ بہرحال جب خانوادہ اقبال کی طرف سے تردید آگئی تو پھر اصولی طورپر اس آڈیو کو اقبال کی آڈیو کہنے کا سلسلہ تمام ہوناچاہیے تھا۔
یہ سلسلہ معلوم نہیں کب تک چلتاہے البتہ اس آڈیو کے بعد ناصر جمال کی آڈیو کی شامت آگئی ہے جو کسی حد تک درست ہے کہ سننے والوں نے ناصر جمال کے تلفظ کی غلطیاں نکالنی شروع کردی ہیں۔ اب توپوں کارخ ناصر جمال کی جانب ہے جو ایک عرصے سے اردو شاعری کواپنی آواز کے ذریعے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ ناصر جمال کے اس شوق کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ ان پر تنقیدکی جائے۔ ایک ایسامعاشرہ جہاں سے کتاب اورحرف سے لوگوں کا اعتبار اور تعلق ختم ہونے کو ہے اگر کوئی شخص شکاگو میں بیٹھ کر جیسی بھی خدمت سرانجام دے رہاہے اس کی تعریف بنتی ہے۔ ایسے میں ہمیں احمد ندیم قاسمی کا ایک شعر یاد آرہاتھا جنہوں نے ناصر جمال کی آواز کو علامہ اقبال کی آواز سمجھ لیا ان تمام دوستوں کیلئے یہ شعر حاضر ہے ۔ جو علامہ اقبال کی جعلی آڈیو پہ خوش ہوئے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ معاملہ ہی کچھ اور ہے:
انداز ہوبہو تیری آواز پا کا تھا
باہر نکل کے دیکھا تو جھونکا ہوا کا تھا
فیس بک کمینٹ