پارلیمانی سیاست سے آؤٹ ہونے کے باوجود تحریکِ انصاف میں جہانگیر ترین کی عزت میں کمی نہیں آئی جس کا ثبوت ملتان میں جہانگیر ترین کے اعزاز میں ورکز کنونشن کی حاضری تھی۔ یقینی طور پر اس کنونشن کو عمران خان کی ا شیرباد ہو گی اور شاہ محمود قریشی کے لیے یہ کنونشن خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ اب اگر حلقہ این اے 154 کا ضمنی انتخاب ہوتا ہے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ علی جہانگیر یقینی طور پر کامیاب ہو گا کہ جہانگیر ترین کی حلقہ سے مستقل غیر حاضری کو اسی نوجوان نے اپنی موجودگی سے پورا کیا۔ حکومتی فنڈز نہ ہونے کے باوجود حلقہ میں اپنی جیب سے ترقیاتی کام کروانے والے علی ترین اس وقت بہترین اُمیدوار ہیں۔ اور اس بات کو حلقہ میں پذیرائی نہیں مل سکی کہ تحریکِ انصاف بھی ن لیگ اور پی پی کی طرح موروثی سیاست کر رہی ہے تو تحریکِ انصاف کے اندر اور باہر آٹے میں نمک کے برابر لوگ تھے جنہوں نے علی ترین کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کی۔ حالانکہ موجودہ حالات میں لودھراں میں کونسا ایسا رہنما یا ورکر ہے جو چند ہفتوں کی اسمبلی کی رکنیت کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرے۔ یقینا اتنا حوصلہ اور پیسہ جہانگیر ترین ہی رکھتے ہیں جو اپنے بیٹے کو کامیاب کرانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
قارئین کرام ابھی ہم نے اپنا کالم یہاں تک لکھا تھا کہ حلقہ این اے 154 کے ضمنی انتخاب کا جوڑ توڑ اپنے عروج پر چلا گیا۔ سابق ایم این اے اختر کانجو (جو اب تحریکِ انصاف کا حصہ بن چکے ہیں) کے گروپ کے بھاری بھرکم دھڑوں نے انہیں چھوڑ کر ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ جس سے یقینا تحریکِ انصاف کو نقصان پہنچا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے صدیق بلوچ کے رویے کو دیکھتے اور حلقہ میں ان کی دگرگوں سیاسی حالت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما سیّد اقبال شاہ (ایم پی اے عامر اقبال شاہ کے والد) کو این اے 154 کے ضمنی انتخاب کا ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔ ابھی یہ معاملہ یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ ن لیگ کے لیے ایک بری خبر یہ آ گئی کہ 2015ءمیں سابق وزیر مملکت مرزا ناصر بیگ نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی موجودگی میں پی پی چھوڑ کر ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس کے باوجود ناصر بیگ نے ضمنی انتخاب میں صدیق بلوچ کی حمایت کا اعلان کیا لیکن جیت جہانگیر ترین کے حصے میں آئی۔ اب سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد جب ٹکٹوں کی صف بندی ہونے لگی تو ناصر بیگ بھی ن لیگ کی طرف سے انتخاب میں حصہ لینے کے لیے خواہش مند تھے۔ ویسے بھی 2015ءسے لے کر 2018ءتک ن لیگ نے مرزا ناصر بیگ کو کچھ بھی نہ دیا۔ این اے 154میں جب ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا تو ناصر بیگ کا شمار کسی بھی قطار میں نہ کیا گیا۔ ایسے میں انہوں نے آؤدیکھا نہ تاؤ، ڈوبتی ہوئی ن لیگ کی کشتی کو خیرباد کہا، پی پی میں شامل ہو گئے۔
مرزا ناصر بیگ پی پی کے سینئر رہنما تھے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر دل پذیر رہے۔ 2008ءکا انتخاب ہار گئے۔ پھر 2013ءمیں بھی شکست کا منہ دیکھا۔ 2015ءمیں ن لیگ کا حصہ بن گئے۔ جب ن لیگ میں ان کا کچھ نہ بن پڑا تو 2018ء جنوری کی 16 کو یوسف رضا گیلانی نے ایک پریس کانفرنس میں انہیں اپنے ساتھ بٹھایا۔ پی پی شمولیت کااعلان کرایا۔ اس موقع پر مرزا ناصر بیگ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا مَیں اگرچہ پی پی چھوڑ کر ن لیگ میں چلا گیا تھا لیکن مَیں نے اپنے گھر سے پی پی کا پرچم نہیں اتارا تھا۔ ویسے بھی مَیں پی پی میں سکول کے دور سے تھا۔ پارٹی کے اچھے اور برے دور میں بھی پی پی کے ساتھ ہی رہا۔ میرا ایمان ہے کہ پی پی نہ تو ختم ہوئی ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ مرزا ناصر بیگ نے کہا آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں میرے ساتھ زیادتیاں ہوئیں تھیں اس لیے دلبرداشتہ ہو کر ن لیگ کی طرف چلا گیا تھا۔ اب سیّد یوسف رضا گیلانی نے اُمید دلائی ہے کہ مستقبل میں میرے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔ مَیں انہی کی یقین دہانی کے بعد اور پی پی کے برے حالات دیکھ کر بھی واپس آ گیا ہوں کہ یہ پارٹی میری پہلی محبت ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ بھٹو شہید اور محترمہ بےنظیر بھٹو شہید ہمیشہ میرے دل میں رہے ہیں۔ اگر پارٹی ہمیں کہے گی تو ہم حلقہ این اے 154میں الیکشن لڑیں گے ورنہ گھر بیٹھ جاؤ ں گا۔
ناصر بیگ کی پی پی میں واپسی کے بعد سیّد یوسف رضا گیلانی نے کہا ہم ان کو ایک بار پھر پارٹی میں خوش آمدید کہتے ہیں اور واپسی کے تحفہ کے طور پر حلقہ این اے 154 میں پی پی کے اُمیدوار کے طور پر مرزا علی ناصر بیگ کو ٹکٹ دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ یوں اب اس حلقہ میں تحریکِ انصاف اور پی پی نے نوجوانوں کو ٹکٹ دیئے جبکہ مسلم لیگ ن نے بزرگ کا انتخاب کیا۔ جیسا کہ ہم کالم کے درمیان میں تحریر کر چکے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں کامیابی کا زیادہ امکان تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کا ہے اگر کوئی معجزہ نہ ہو گیا تو پھر ن لیگ بھی جیت سکتی ہے۔ جس کا امکان اس لیے بھی کم ہے کہ حلقہ این اے 154کے اہم گروپ یہ بھی کہہ رہے ہیں سیّد اقبال شاہ کے بیٹے عامر اقبال شاہ ایم پی اے اگر آنے والے الیکشن میں اپنی جیتی ہوئی سیٹ بھی بچا لیں تو یہ بھی ان کی بڑی کامیابی ہو گی۔
حلقہ این اے 154 میں فروری میں انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والے کو کیا ملے گا۔ سوائے اس کے کہ حلقے کے عوام کو کچھ دنوں کے لیے کارنر میٹنگز کی صورت میں عزت و احترام ملے گا۔ کچھ کارکنوں کو نوکریوں کے وعدے ملیں گے اور ایک ضمنی انتخاب میں اس سے زیادہ کیا مل سکتا ہے کہ چند ہفتوں کے ایم این اے کی حالت تو ”دلہن ایک رات کی“ والی ہو گی۔ ایسے میں منتخب ہونے والا رکن قومی اسمبلی اپنے نام کے ساتھ مستقبل میں سابق رکن قومی اسمبلی لکھنے کا اعزاز حاصل کرے گا۔ دیکھیں اتنا بڑا ”اعزاز“ کس کے حصے میں آتا ہے؟
( بشکریہ روزنامہ ایکسپریس )
قارئین کرام ابھی ہم نے اپنا کالم یہاں تک لکھا تھا کہ حلقہ این اے 154 کے ضمنی انتخاب کا جوڑ توڑ اپنے عروج پر چلا گیا۔ سابق ایم این اے اختر کانجو (جو اب تحریکِ انصاف کا حصہ بن چکے ہیں) کے گروپ کے بھاری بھرکم دھڑوں نے انہیں چھوڑ کر ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ جس سے یقینا تحریکِ انصاف کو نقصان پہنچا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے صدیق بلوچ کے رویے کو دیکھتے اور حلقہ میں ان کی دگرگوں سیاسی حالت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما سیّد اقبال شاہ (ایم پی اے عامر اقبال شاہ کے والد) کو این اے 154 کے ضمنی انتخاب کا ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔ ابھی یہ معاملہ یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ ن لیگ کے لیے ایک بری خبر یہ آ گئی کہ 2015ءمیں سابق وزیر مملکت مرزا ناصر بیگ نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی موجودگی میں پی پی چھوڑ کر ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس کے باوجود ناصر بیگ نے ضمنی انتخاب میں صدیق بلوچ کی حمایت کا اعلان کیا لیکن جیت جہانگیر ترین کے حصے میں آئی۔ اب سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد جب ٹکٹوں کی صف بندی ہونے لگی تو ناصر بیگ بھی ن لیگ کی طرف سے انتخاب میں حصہ لینے کے لیے خواہش مند تھے۔ ویسے بھی 2015ءسے لے کر 2018ءتک ن لیگ نے مرزا ناصر بیگ کو کچھ بھی نہ دیا۔ این اے 154میں جب ضمنی الیکشن کا اعلان ہوا تو ناصر بیگ کا شمار کسی بھی قطار میں نہ کیا گیا۔ ایسے میں انہوں نے آؤدیکھا نہ تاؤ، ڈوبتی ہوئی ن لیگ کی کشتی کو خیرباد کہا، پی پی میں شامل ہو گئے۔
مرزا ناصر بیگ پی پی کے سینئر رہنما تھے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر دل پذیر رہے۔ 2008ءکا انتخاب ہار گئے۔ پھر 2013ءمیں بھی شکست کا منہ دیکھا۔ 2015ءمیں ن لیگ کا حصہ بن گئے۔ جب ن لیگ میں ان کا کچھ نہ بن پڑا تو 2018ء جنوری کی 16 کو یوسف رضا گیلانی نے ایک پریس کانفرنس میں انہیں اپنے ساتھ بٹھایا۔ پی پی شمولیت کااعلان کرایا۔ اس موقع پر مرزا ناصر بیگ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا مَیں اگرچہ پی پی چھوڑ کر ن لیگ میں چلا گیا تھا لیکن مَیں نے اپنے گھر سے پی پی کا پرچم نہیں اتارا تھا۔ ویسے بھی مَیں پی پی میں سکول کے دور سے تھا۔ پارٹی کے اچھے اور برے دور میں بھی پی پی کے ساتھ ہی رہا۔ میرا ایمان ہے کہ پی پی نہ تو ختم ہوئی ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ مرزا ناصر بیگ نے کہا آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں میرے ساتھ زیادتیاں ہوئیں تھیں اس لیے دلبرداشتہ ہو کر ن لیگ کی طرف چلا گیا تھا۔ اب سیّد یوسف رضا گیلانی نے اُمید دلائی ہے کہ مستقبل میں میرے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔ مَیں انہی کی یقین دہانی کے بعد اور پی پی کے برے حالات دیکھ کر بھی واپس آ گیا ہوں کہ یہ پارٹی میری پہلی محبت ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ بھٹو شہید اور محترمہ بےنظیر بھٹو شہید ہمیشہ میرے دل میں رہے ہیں۔ اگر پارٹی ہمیں کہے گی تو ہم حلقہ این اے 154میں الیکشن لڑیں گے ورنہ گھر بیٹھ جاؤ ں گا۔
ناصر بیگ کی پی پی میں واپسی کے بعد سیّد یوسف رضا گیلانی نے کہا ہم ان کو ایک بار پھر پارٹی میں خوش آمدید کہتے ہیں اور واپسی کے تحفہ کے طور پر حلقہ این اے 154 میں پی پی کے اُمیدوار کے طور پر مرزا علی ناصر بیگ کو ٹکٹ دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ یوں اب اس حلقہ میں تحریکِ انصاف اور پی پی نے نوجوانوں کو ٹکٹ دیئے جبکہ مسلم لیگ ن نے بزرگ کا انتخاب کیا۔ جیسا کہ ہم کالم کے درمیان میں تحریر کر چکے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں کامیابی کا زیادہ امکان تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کا ہے اگر کوئی معجزہ نہ ہو گیا تو پھر ن لیگ بھی جیت سکتی ہے۔ جس کا امکان اس لیے بھی کم ہے کہ حلقہ این اے 154کے اہم گروپ یہ بھی کہہ رہے ہیں سیّد اقبال شاہ کے بیٹے عامر اقبال شاہ ایم پی اے اگر آنے والے الیکشن میں اپنی جیتی ہوئی سیٹ بھی بچا لیں تو یہ بھی ان کی بڑی کامیابی ہو گی۔
حلقہ این اے 154 میں فروری میں انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والے کو کیا ملے گا۔ سوائے اس کے کہ حلقے کے عوام کو کچھ دنوں کے لیے کارنر میٹنگز کی صورت میں عزت و احترام ملے گا۔ کچھ کارکنوں کو نوکریوں کے وعدے ملیں گے اور ایک ضمنی انتخاب میں اس سے زیادہ کیا مل سکتا ہے کہ چند ہفتوں کے ایم این اے کی حالت تو ”دلہن ایک رات کی“ والی ہو گی۔ ایسے میں منتخب ہونے والا رکن قومی اسمبلی اپنے نام کے ساتھ مستقبل میں سابق رکن قومی اسمبلی لکھنے کا اعزاز حاصل کرے گا۔ دیکھیں اتنا بڑا ”اعزاز“ کس کے حصے میں آتا ہے؟
( بشکریہ روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ