زبیر شفیع غوری سے ہمارا تعلق اس زمانے سے ہے جب ملتان میں پاک ریلوے کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ہم نے ان سے دوستی کا ہاتھ اس لیے بھی بڑھایا کہ ان کے اعلیٰ عہدے کی وجہ سے ہم ریل کا سفر مفت میں کیا کریں۔ جب زبیر شفیع غوری کے ہم قریب گئے تو معلوم ہوا غوری صاحب تو اصول، قانون اور ضابطے کے آدمی ہیں۔ ریلوے کی بہتری کے منصوبے ہر وقت ان کے ذہن میں رہتے ہیں ایسے میں ہم ان سے ریل کے مفت سفر کی کیسے توقع کر سکتے ہیں۔ زبیر شفیع غوری سے ہماری قرابت داری اس لئے بھی بڑھتی چلی گئی ملتان میں پوسٹنگ کے دوران جب بھی ان سے نشست ہوتی تو ہم ان کی صحت دیکھ کر انہیں کھانا کھلانے کی پیشکش کرتے۔ تو یہ بڑی سنجیدگی سے کہتے کہ مجھے کھانا نہ کھلایا جائے بلکہ اس رقم کی کتب تحفہ میں دی جائیں۔ ان کا یہ مؤ قف سن کر بڑی حیرت ہوتی کہ یہ شخص نجانے کس مٹی کا بنا ہوا ہے کہ ہوٹل کے لذیذ کھانے چھوڑ کر کتابوں کا شوقین ہے۔ اب ہم نے جب ان سے ڈرتے ڈرتے علم و ادب کی باتیں کیں تو معلوم ہوا کہ ان کی شخصیت میں علم وادب سے محبت کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ”اوچ شریف“ کے آثاریات، تمدن، تاریخ اور تہذیب پر ان کی ایک کتاب منظرعام پر آ چکی ہے۔ ایک دن انہوں نے اپنے دستخط کے ساتھ ”اوچ شریف“ والی کتاب بھجوائی تو اس کے مندرجات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ ریلوے سروس کے کم اور آثار قدیمہ کے آدمی ہیں۔ وہ ان دنوں معروف ماہر آثارِ قدیمہ مرزا ابنِ حنیف کا ذکر بڑی محبت سے کرتے تھے۔ گاہے گاہے ان کی قدم بوسی کے لیے مرزا صاحب کی خدمت میں جاتے رہتے۔ زبیر شفیع غوری نے انہی دنوں مرزا ابن حنیف کی فرمائش پر ”محاصرہ ء ملتان“ کے موضوع پر ایک انگریزی کتاب کو اُردو کے قالب میں ڈھالا تو معلوم ہوا کہ وہ ترجمہ بھی بڑے خوبصورت انداز میں کر سکتے ہیں۔ زبیر شفیع غوری کی ملتان میں تعیناتی جنرل مشرف کے دور میں ہوئی۔ اس زمانے میں ایک حاضر سروس افسر کی ایک ناجائز فرمائش کو جب غوری صاحب نے پورا نہ کیا تو ان کے گھر کی بجلی کٹوا دی گئی۔ ملتان کی سخت گرمی میں میاں بیوی اور ایک معصوم بیٹی کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی تھی۔ غوری صاحب صبح دفتر آتے تو اپنے افسر کے سامنے کلمہ حق کہنے سے باز نہ آتے۔ گھر آتے تو شدید گرمی کے عالم میں معصوم بیٹی اور اہلیہ کو دیکھتے تو سوچتے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں کس امتحان میں ڈالا ہے۔ اس مشکل امتحان میں زبیر شفیع غوری نے اپنا اصولی موقف تبدیل نہ کیا لیکن ان کی وجہ سے اس افسر کو روانگی کا پروانہ دے دیا گیا۔ یوں زبیر شفیع غوری کو اپنے محکمہ سے بھی شاباش ملی اور دوست بھی ان کے حوصلے کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
پھر ایک دن زبیر شفیع غوری صاحب کا فون آیا کہ میرا لاہور تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ ہم ان سے ملنے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ اُداس بیٹھے ہیں اور ہر دوست سے کہہ رہے تھے کہ مجھے ملتان والوں نے بہت محبت دی۔ لاہور تبادلہ کے بعد ان سے رابطہ فون پر رہنے لگا تو ایک دن کہنے لگے مَیں نے راوی کنارے ہڑپے کی تاریخ پر کتاب مکمل کر لی ہے۔ ایک دن ڈاک سے ان کی نئی کتاب ملی تو ایک مشکل موضوع پر ان کی کتاب کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ زبیر شفیع غوری اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ پڑھنے لکھنے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ان کی ایران کے بارے میں کتاب بھی ہمارے ہاتھوں میں تھی۔ اب ہم نے ایک دن ان سے پوچھ ہی لیا کہ برادرِ من کوئی دفتر کا کام کر رہے ہیں کہ صرف کتابوں سے یاری لگا رکھی ہے؟ سوال سنتے ہی کہنے لگے شاکر بھائی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق مجھ سے اتنے مطمئن ہیں کہ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ کوئی نہ کوئی نئی ذمہ داری میرے حوالے کر دیتے ہیں۔ آج زبیر شفیع غوری کا ایک پیر اسلام آباد میں ہوتا ہے تو دوسرا قدم لاہور میں۔ کبھی وہ پشاور میں پائے جاتے ہیں کبھی ان کے قدم کہیں اور ہوتے ہیں۔
چند ماہ قبل زبیر شفیع غوری کا فون آتا ہے کہ شاکر جی مَیں آپ کو اپنی شاعری کا مسودہ بھجوا رہا ہوں اس پر ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر محمد امین اور آپ کی رائے درکار ہے؟ مَیں نے سنتے ہی کہا مرشد پاکستان کے ہر بڑے شہر میں پڑھے لکھے لوگ کم اور شاعر زیادہ ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں آپ کو کیا سوجھی کہ شاعری کے میدان میں آگئے۔ کہنے لگے شاعری تو مَیں طالب علمی کے زمانے سے کر رہا ہوں۔ آپ کے سامنے اب لانے کی جرات کر رہا ہوں۔ مَیں نے کہا آپ کی اُردو نثر میں مشکل پسندی کے علاوہ عربی و فارسی کا جو امتزاج ملتا ہے کیا شاعری میں بھی ہماری ملاقات اُسی زبیر شفیع غوری سے ہو گی؟ کہنے لگے مَیں اپنا زیرِ طبع دیوان آپ کو ارسال کر دیا ہے اب آپ جانیں، آپ کا ذوق جانے مَیں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ کتاب کا پیش لفظ پڑھا تو معلوم ہوا انہیں اُردو ادب اور شاعری کا ذوق اپنی والدہ محترمہ جبکہ تاریخ اور آثارِ قدیمہ سے محبت والدِ محترم سے ورثے میں ملی۔ زبیر شفیع غوری کی والدہ کو فارسی پر عبور تھا وہ لڑکپن کی حدود سے نکلے تو شاعری سے لطف اندوز ہونے کا معاملہ بعض اوقات انتہا درجے کی بے تابی اور بے قراری کی صورت میں نکلنے لگا۔ 1979-80ءکے زمانے میں لیہ میں جب ان کے والد محترم تعینات تھے اس زمانے میں جوانِ رعنا زبیر شفیع غوری کو ڈاکٹر خیال امروہوی، نسیم لیہ، غافل کرنالی، شعیب جاذب اور ارمان عثمانی جیسے نامور شعراءکرام کو سننے کا موقع ملا۔ ایسے میں زبیر شفیع غوری اپنے ہم جماعت اختر وہاب سمرا کے ساتھ ارمان عثمانی کے پاس اپنی شاعری کے ارمان لے کر پہنچے تو انہوں نے شاعری دیکھ کر کہا نوجوان تم ابھی مصرع طرح پر طبع آزمائی کرنا سیکھو۔ جب تک خود شعر نہ کہو گے عروض، بحور اور تقطیع کو سمجھنا مشکل ہو گا۔ آہستہ آہستہ زبیر شفیع غوری لیہ میں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ اسی اثناءمیں 1981ءمیں ارمان عثمانی کا رحیم یار خان میں اچانک انتقال ہوا جاتا ہے اور بظاہر زبیر شفیع غوری کی شاعری کا بھی انتقال ہو جاتا ہے۔
غوری صاحب کی شاعری کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ اپنے استادِ محترم سجاد باقر رضوی کے سامنے اپنی شاعری رکھتے ہیں۔ تو وہ اپنے شاگرد کی خوب حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کے بعد طویل عرصہ تک زبیر شفیع غوری اپنی بیاض کو پال میں لگا کر رکھتے ہیں اور پھر 2017ءکے آخر میں اپنی شاعری بھجوا کر حکم کرتے ہیں کہ اس پر چند لائنیں لکھ کر ارسال کریں اب مَیں برادرِ عزیز کو کس طرح بتاؤں کہ شاعری کو پڑھنے کے لیے بڑا دل گردہ درکار ہوتا ہے۔ پھر اگر شاعر عربی، فارسی کا ماہر ہو، تاریخ اور آثارِ قدیمہ اس کے شوق ہوں تو ایسے میں کس طرح ممکن ہے وہ اچھی شاعری نہ کریں۔ ویسے تو مَیں شاعری پر لکھتے ہوئے کم سے کم حوالہ جات دیتا ہوں لیکن غوری صاحب کے معاملہ میں یہ بات اُلٹ ہو گئی۔ سو دیگ میں سے چاول کے چند دانے چکھیں اور باقی دیگ سے سامان آپ خود ہی نکال کر چکھ لیں گے۔
دل تھا جو اُس کے نام پہ دھڑکا تھا اور مَیں
چشمِ ستم شناس تھی گریہ تھا اور مَیں
شامِ غمِ فراق کے تھے ہم دو ہی رازداں
یادوں کا اِک الاؤ جو دہکا تھا اور مَیں
قلب و نظر پہ ان کا مسلسل ظہور تھا
آیاتِ آگہی تھیں وہ قریہ تھا اور مَیں
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ