9 اپریل 2018ءکو جب لاہور کے ایک معروف ہوٹل میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے ن لیگ کو چھوڑنے کا اعلان کیا تو ہمیں حیرت اس لیے نہ ہوئی کہ وفاداری بدلنے کے اس کھیل میں جنوبی پنجاب کے سیاستدان اتنے ماہر ہیں کہ ہر انتخابات سے قبل انہوں نے پارٹی لازمی تبدیل کرنی ہوتی ہے۔ بلی اور چوہے کے اس کھیل کو دیکھتے ہوئے ہمیں بھی اب چالیس برس ہوا چاہتے ہیں۔ یقین کیجئے ہمیں تو اب ایسی خبریں پڑھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے لیکن پارٹیاں بدلنے والے اتنے شرم پروف ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ ان کے لیے کہا جائے:
”شرم ان کو مگر نہیں آتی“
اس مرتبہ تبدیلی کا نعرہ ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ کے نام سے منظرِ عام پر آیا ہے جس کے چیئرمین میر بلخ شیر خان مزاری ہیں۔ وہ بزرگ سیاست دان ہیں اور ایک عرصے سے گوشہ نشین ہیں۔ گوشہ نشینی کی وجہ بتانے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ موصوف کی تاریخ پیدائش 8 جولائی 1928ءہے۔ 1955ءمیں پہلی مرتبہ پاکستان کی مجلسِ دستور ساز کے رکن منتخب ہوئے۔ تب سے لے کر اب تک وہ کئی مرتبہ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ گزشتہ کئی برسوں سے گوشہ نشین تھے کہ اب اچانک وہ ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ کے نام سے پرانی شراب والی مثال کا برانڈ لے کر آئے ہیں جس اتحاد کے نام میں ”محاذ“ آتا ہو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی محاذ آرائی کی ”ہمت“ بھی کر سکتے ہیں۔ ویسے ابھی تک اس محاذ میں کوئی نام ایسا نہیں ہے کہ جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ کے لیے مطلوبہ ارکان اکٹھے کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مخدوم خسرو بختیار اس محاذ کے صدر ہیں۔ ان کا چھوٹا بھائی ابھی تک ن لیگ میں شامل ہے۔ آخری خبریں آنے تک یہ معلوم ہوا ہے کہ اس نے اپنے بھائی کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سردار نصراللہ خان دریشک شریک چیئرمین ہیں جو ہر انتخابات سے قبل پارٹی بدلنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ باسط سلطان بخاری کو جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں سینئر نائب صدر کے عہدے پر فٹ کیا گیا ہے لیکن ان کے بھائی ہارون بخاری نے ابھی تک ن لیگ کو خیرباد نہیں کہا۔ طاہر بشیر چیمہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے جنرل سیکرٹری ہیں لیکن ان کا اثر بھی صرف اپنے حلقہ انتخاب میں ہے۔ رانا قاسم نون جو معروف بے وفا سیاستدان ہیں انہوں نے 2013ءکا الیکشن پی پی کے ٹکٹ پر لڑا پھر تحریکِ انصاف میں چلے گئے۔ دیوان عاشق حسین بخاری کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا تو ضمنی انتخاب سے پہلے ن لیگ میں شامل ہو گئے۔ جب تک نواز شریف پر زوال نہیں آیا تھا وہ دامے درمے سخنے ن لیگ پر قربان تھے۔ اسی دوران ان کے بھائی رانا سہیل نون تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے۔ اب رانا قاسم نون (جو پرویز الٰہی کے دورِ وزارت اعلیٰ پنجاب کے دوران ان کی صوبائی کابینہ کا حصہ بھی تھے) جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں نائب صدر کے عہدے پر فائز کیے گئے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال چوہدری آزاد حیثیت میں انتخابات جیت کر ن لیگ میں شامل ہو گئے اب وہ بھی جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نائب صدر ہیں۔ چوہدری سمیع اللہ کو نائب صدر بنایا گیا ہے۔ یوں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی کابینہ ابھی نامکمل ہے۔ اس میں جوائنٹ سیکرٹری، خزانچی، سیکرٹری نشرو اشاعت، چیئرمین مجلس عاملہ کے علاوہ بے شمار عہدے خالی ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس محاذ میں مزید سیاست دان شامل ہوں گے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند سابق اراکین اسمبلی اور تھکے ہوئے سیاست دانوں پر مشتمل یہ اتحاد کتنا ثمرآور ہو سکتا ہے۔ اس اتحاد کو پذیرائی دلانے کے لیے کون کون سے سیاسی خانوادے متحرک ہوں گے تو بات بنے گی۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ابھی تو اس کے نام پر سرائیکی علاقے میں رہنے والے تنقید کر رہے ہیں لیکن یہ تنقید اس لیے پذیرائی حاصل نہیں کر پائے گی کہ جب اتحاد میں موجود تمام خانوادے ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ کے نام خوش ہوں گے تو پھر مٹھی بھر لوگوں کا احتجاج بے معنی رہ جائے گا۔
اب بات کرتے ہیں کہ اگلے انتخابات سے قبل اس اتحاد کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی۔ کیا ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“ کسی مقتدر طاقت کے کہنے پر تشکیل دیا ہے؟ ویسے بھی ابھی تک اس محاذ میں جس طرح کے سیاستدان موجود ہیں وہ سب کے سب ایک اشارے کے منتظر ہوتے ہیں۔ جس کے بعد یہ لوگ اُدھر ہی کا رُخ کرتے ہیں جہاں جا کر ان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ پھر جنوبی پنجاب کا کارڈ اتنا شاندار ہے کہ اس کو جب اور جس جگہ چاہیں ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ دور کیوں جائیں پی پی پی دور میں وزیر اعظم سیّد یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری نے سرائیکی صوبے کے نام پر گیم کھیلنا چاہی۔ حتیٰ کہ صدر آصف علی زرداری نے گیلانی ہاؤس ملتان میں بیٹھ کر جب خطے کے سرمایہ داروں اور کاروباری لوگوں سے ملاقات کی تو انہوں نے سرائیکی صوبے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جس طرح سندھ بینک، پنجاب بینک اور کے پی کے بینک کام کر رہا ہے ہم سرائیکی بینک قائم کریں گے۔ یہ تجویز تب بہت اچھی لگی لیکن 2013ءکے انتخابات میں جب پی پی پی کو پنجاب میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تو وہ جنوبی پنجاب کے لوگوں سے کیے ہوئے تمام وعدے بھول گئی۔
دوسری جانب فاتح سیاسی جماعت ن لیگ تھی جب اس نے دیکھا کہ سرائیکی صوبے کا نعرہ لگانے والی پی پی پی کو لوگوں نے مسترد کر دیا ہے تو اس نے اپنے پورے دورِ حکومت میں سرائیکی صوبہ یا صوبہ جنوبی پنجاب کے نعرے کو مسترد کر دیا۔ رہی سہی کسر سرائیکی بیلٹ کے منتخب نمائندوں نے پوری کر دی۔ جنہوں نے کبھی بھی اسمبلی کے فلور پر علیحدہ صوبے کے لیے آواز بلند نہ کی۔ پنجاب اسمبلی میں اگرچہ ڈپٹی سپیکر جنوبی پنجاب سے لیا گیا۔ کچھ صوبائی اور وفاقی وزراءبھی جنوبی پنجاب سے شامل کیے گئے۔ ان تمام نمائندوں نے بھنگ پی رکھی تھی، کبھی کسی نے نواز شریف اور شہباز شریف کے سامنے اپنے علاقے کے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کی۔ یوں ن لیگ کا موجود دور بھی ختم ہونے کو ہے۔ لوگوں کی محرومیاں اپنے عروج پر ہیں۔ راجن پور کے کسی شخص کو اگر اپنا تبادلہ کروانا ہوتا ہے تو اسے تخت لاہور میں حاضری دینا پڑتی ہے۔ دور کیوں جائیں اگر ملتان کے کسی باسی نے ڈرائیونگ لائسنس بنوانا ہوتا ہے تو ٹیسٹ ملتان میں ہوتا ہے جبکہ لائسنس لاہور سے تیار ہو کر بذریعہ کوریئر آتا ہے اور کوریئر چارجز لائسنس بنوانے والے کو ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یہ ملتان کے اس دفتر کی چھوٹی سی مثال ہے جو چند سال پہلے تک تمام ڈرائیونگ لائسنس ملتان میں تیار کرتا تھا۔ اب یہ ”سہولت“ بھی اہلِ ملتان کو لاہور سے دستیاب ہوتی ہے۔ اکثر لائسنس تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں اور گم ہونا تو گویا معمول کی نشریات کا حصہ ہے۔
بات ہو رہی تھی سرائیکی صوبے کی اور بات دوسری جانب چلی گئی۔ چند سال پہلے جنوبی پنجاب کے بے شمار مسائل کو دیکھتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے جنوبی پنجاب کے ایک انتظامی سیکرٹریٹ کے قیام کے لیے ملک محمد رفیق رجوانہ کی سربراہی میں ایک لمبی چوڑی کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے سیکرٹریٹ کے قیام کے لیے بے شمار سفارشات تیار کیں پھر اچانک سرور چوہدری کے میاں صاحبان سے اختلافات ہو گئے جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر تحریکِ انصاف میں پہنچ گئے۔ ان کی جگہ پر ملک محمد رفیق رجوانہ کو گورنر پنجاب بنایا گیا۔ گورنر بننے کے بعد وہ انتظامی سیکرٹریٹ کی کہانی کہیں گم ہو گئی۔ جبکہ رجوانہ صاحب بھی گورنر ہاؤس کی راہداریوں میں اپنے مجوزہ سیکرٹریٹ کو تلاش کرتے رہے اور پھر جس صوبے کا سربراہ شہباز شریف ہو وہاں پر اختیارات کی تقسیم کا سوال ہی بے معنی ہے۔ شہباز شریف میں ایک ”خوبی“ یہ بھی ہے کہ وہ اپنا کوئی بھی اختیار کسی کو نہیں دینا چاہتے۔ بس اسی رویے کو دیکھتے ہوئے جنوبی پنجاب کے ان سیاست دانوں نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنانے کا اعلان کیا جنہوں نے ماضی میں اپنے علاقوں کے لیے کوئی کام نہیں کیے۔ کیا ان کو پذیرائی مل سکے گیا یا نہیں؟ اس کا جواب ہم اگلے کالم میں دیں گے۔(جاری ہے)
فیس بک کمینٹ