غرض یہ کہ برسی سیّد قسور گردیزی مرحوم کی تھی لیکن وہاں لوگوں کا جوش و خروش ہمیں لاہور میں ہونے والے فیض اَمن میلے کی یاد کروا رہا تھا۔ دورِ ضیاءکی گھٹن کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ لوگ اپنے کتھارسس کے اظہار کے لیے میلے، مشاعرے، اور کانفرنس وغیرہ کروا لیا کرتے تھے۔ جب سے اس ملک میں جمہوریت کے نام سے جو کام شروع ہوا ہے اس نے ہمارے ہاں میلے اور مشاعرے کو تمام کر دیا ہے۔ نئی نسل کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ہمارے ہاں موسموں اور فصلوں کے اعتبار سے میلے ٹھیلے ہوا کرتے تھے۔ اب شاعری پڑھنے کے لیے یار لوگوں کو نئی غزل یا نئی کتاب کا انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ ان کی یہ ضرورت ایک ایسا ایس ایم ایس پوری کر دیتا ہے جس میں نہ تو شعری ذوق کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی وزن کا۔ بس ملکی سیاست میں اب جس طرح کے لوگ آ رہے ہیں ان کی حالت بھی شاعری کے ایس ایم ایس جیسی ہے ان میں کوئی بھی بزنجو، بھٹو، قسور گردیزی، ولی خان جیسا نہیں۔ اب جو لوگ ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں ان پر تو پھر کبھی لکھوں گا فی الحال سیّد قسور گردیزی کے بارے میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے اپنی اکہتر سالہ حیات میں کبھی کوئی ایسا کام نہ کیا جس پر انہیں شرمندگی ہوئی ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیّد قسور گردیزی جس گھرانے میں پیدا ہوئے وہاں پر چاروں جانب آسودگی ہی آسودگی تھی۔ لیکن سیّد قسور گردیزی کی حیات نو کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ پیدا ہوتے ہی بغاوت کے نظریئے سے واقف ہو گئے تھے۔ عملی زندگی کے آغاز میں بڑے منصوبے ترتیب دیئے گئے لیکن سیّد قسور گردیزی کی تربیت میں بچپن سے مجلس و ماتم کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی تربیت دی گئی۔ ایک طرف یزیدی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر بات کرنا ان کی سرشت ہو گیا تو دوسری طرف ان کو سیاسی جدوجہد میں ایوبی اور ضیاءکی آمریت ملی۔ اس دوران جن ان کو بھٹو کا اندازِ حکمرانی پسند نہ آیا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ یعنی ساری زندگی سیاست کی وادی میں گزار دی۔ جہاں پر طویل اور تھکا دینے والے مقدمات اور انسانیت سوز سزائیں جھیلیں۔ اہلِ خانہ اور بچوں سے دوری صرف اس لیے برداشت کی کہ جھوٹ نہیں بول سکتے تھے۔ پوری زندگی سیاست دانوں کے ساتھ بسر کی لیکن نہ لوٹے بنے اور نہ ہی کسی نے بکاؤ مال کہا۔ کہیں پر ہارس ٹریڈنگ کا حصّہ نہ بنے۔ البتہ ملتان میں ٹریڈرز کے لیے چیمبرز آف کامرس قائم ضرور کیا۔ اپنا کاروبار پوری ایمان داری سے کیا اور خسارہ بھی اُسی انداز میں برداشت کیا۔ جس طرح انہوں نے اپنی سیاست کی یعنی ان کی پوری زندگی اس بات کی غماز رہی کہ طاقت کو کریں سجدہ یا سچ کا بھریں دم یہ راز اب بھی تشریح طلب ہے۔
ان کی تاریخ پیدائش 6 ستمبر اور تاریخ وفات 11 ستمبر ہے جو آج پاکستان کے تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل تاریخیں ہیں۔ سیّد قسور گردیزی نے اپنی زندگی ترقی پسند جدوجہد کے لیے گزاری اور کامیاب رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں جب بھی حضرت شاہ یوسف گردیز کے مرقد پر جاتا ہوں تو پہلے سیّد قسور گردیزی کے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں اپنے آپ کو نظریاتی طور پر ان کے خاندان کے قریب جانتا ہوں کہ مجھے علم ہے سیّد قسور گردیزی نے اپنی زندگی جس انداز میں بسر کی اس طرح کی زندگی گزارنے والے اب اس دنیا میں نہیں آتے۔ اس لیے شاہ جی جیسے سیاست دانوں کی کمی پاکستان جیسے ملک کے لیے ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔
سیّد قسور گردیزی کے پیغام کو لے کر ان کے بیٹے سیّد زاہد حسین گردیزی آج بھی قریہ قریہ، کوچہ کوچہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے ہمیشہ اپنے والد کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ملکی حالات دیکھ کر ہی مر جاتے۔ انہوں نے ذاتی قربانیوں سے پسماندہ طبقات کے دلوں میں احترام پایا۔ کچلے ہوئے طبقات کی بھلائی کے لیے جدوجہد کی تاکہ پاکستان کے عوام خوشحال ہوں۔ عوام کی خوشحالی کے لیے اقتدار میں جانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ نیک نیتی، ایمانداری سے محروم طبقات سے محبت بھی اس سمت کا پہلا زینہ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ ستمبر کے پہلے ہفتے مَیں زاہد حسین گردیزی اور رضی الدین رضی کے ہمراہ شاہ جی کے بڑے بیٹے مظفر عباس گردیزی کے ہاں گیا تو وہ اپنے گھر کی اُس لائبریری میں بیٹھے تھے جہاں پر انہوں نے اپنے والد کی تمام کتابوں کو خوبصورتی سے بک شیلف کا حصہ بنا رکھا تھا۔ چائے پینے کے بعد مَےں نے شاہ صاحب کی خریدی ہوئی کتاب ’شہاب نامہ‘ کی ورق گردانی کی تو جگہ جگہ پر انہوں نے تاریخی اغلاط کی نشاندہی کر کے ثابت کر رکھا تھا کہ وہ پاکستان کی اصل تاریخ سے واقف ہیں۔ آج ملک کو ضرورت ایسے ہی سیاستدانوں کی ہے جو پاکستان کی اصل تاریخ کے وارث بنیں تاکہ آنے والے دنوں میں ہم اس وطن کو انہی افکار کی روشنی میں خوبصورت بنا سکیں جس کے خواب سیّد قسور گردیزی اور اُن جیسے سیاست دانوں نے دیکھے تھے۔