بیگم کلثوم نواز کی موت سے ان کے اپنے غمزدہ ہیں اور جو اپنے نہیں ہیں وہ شرمسار ، کچھ معافیاں مانگتے ہیں کچھ اندر ہی اندر اپنے منفی مزاج کو کوستے ہیں۔ چوہدری اعتزاز احسن جیسے سینئر قانون دان سے اس قدر مسخرے پن کی توقع نہ تھی اور اب میت پر معافی ،
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
چوہدری اعتزاز احسن کی یہ معافی اب ان کے اپنے ضمیر کو تو مطمئن کرسکتی ہے متاثرہ خاندان کے زخم نہیں بھر سکتی۔ ہمارا یہ تعزیتی کالم بھی غیر سیاسی ہے کہ سیاسی بات تو ہمیں ان گالیوں کا تاحیات ہدف بناسکتی ہے جو گالم گلوچ کلچر کی روایت بن چکی ہیں۔ ہمار ا تعلق کیونکہ قلم قبیلہ سے ہے اور کلثوم نواز اردو ادب میں ایم اے تھیں ان کا ایم اے کا تحقیقاتی مقالہ بہت سارے اتائی تجزیہ کاروں اور خدائی فوجداروں کی فطری سطح سے اوپر کی چیز ہے اگر موقع ملے تو ضرور مطالعہ کیجیے گا کہ ایک صاحب حیثیت گھرانے کی خاتون کا مقالہ اس قدر فکر انگیز ہے ۔
ملتان کی نسیم بیگم کے بطن سے پیدا ہونے والا حمزہ علی عباسی نہ جانے کس کی خوشنودی کے لئے کلثوم نواز کی میت پر مسخریاں کرتا رہا کہ اس کی یہ عادت بات اس کی سرشت تک لے گئی اور پرانے لوگ حمزہ علی عباسی کی والدہ کو پھر سے یاد کرنے لگے کہ خون تو خون ہوتا ہے۔ کلثوم نواز کے ساتھ ہی وہ بیانات بھی دم توڑ گئے جو اپنی اپنی سوچ کے مطابق اپنی ”روایات “ کے عکاس تھے۔
” بیماری تو ایک ڈرامہ ہے حقیقت میں پورا خاندان ملک سے فرار ہونا چاہتا ہے“۔
” کلثوم نواز مر چکی ہے موت کااعلان الیکشن کے قریب کیا جائے گا تاکہ سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے“۔
”کلثوم نواز اگر بیمار ہوتی تو نواز شریف پاکستان کی عدالتوں میں پیش نہ ہورہے ہوتے“۔
سیاسی ادا کاروں اور اتائی تجزیہ کاروں نے جو طوفان بدتمیزی برپا کررکھا تھا اس کا جواب اس وضعدار خاتون نے چپ چاپ موت کو گلے لگا کر دے دیا۔ تین بار خاتون اول رہنے والی کلثوم نواز کی موت کس قدر غریب الوطنی میں ہوئی کہ آخری وقت میں وہ بھی پاس نہ تھا جس کا آخری وقت تک ساتھ دیا۔ بیٹی اور داماد جیل میں تھے جب میت قبر میں اتاری جائے گی تو دونوں بیٹے پاس نہیں ہوں گے۔ پاکستانی عدالتوں کے یہ انوکھے ملزم ہیں جنہیں بیماری کے نام پر اور پھر تیمار داری کے نام پر بھی حاضری سے استثنیٰ نہ ملا ورنہ پرویز مشرف کمر درد کے بہانے عدالتوں سے ”چھٹی“ لیکر دبئی اور لندن کی سڑکوں پر دوڑیں لگاتا پھرتا ہے۔
پاکستان کی خاتون اول ہونے سے بستر مرگ تک انہوں نے کبھی دشمن کا بھی دل نہیں دکھایا مگر گزشتہ چند سالوں سے پروان چڑھنے والی گالم گلوچ نسل نے تو انہیں بھی معاف نہ کیا ۔ دولت کی فراوانی ، اقتدار کا زعم بھی کلثوم نواز کی انکساری پر اثر انداز نہ ہوسکا۔ جدید ترین ماحول میں ان کی عادات اور لباس سے پنجابیت نہ جاسکی ۔ روایتی رکھ رکھاﺅ آخری دم تک قائم رہا کہ وہ بیٹے سے پوچھتیں ”باﺅ جی آپ بات کیوں نہیں کرتے؟“جواب ملتاکہ” بہت مصروف ہوگئے ہیں“تو نزعی آواز میں کہتیں ”اب اتنی بھی کیا مصروفیت ہوگئی ہے چلو کوئی بات نہیں وہ واقعی مصروف ہوں گے“ ۔ میت پر اور وہ بھی عورت کی میت اس قدر بھونڈا مسخرہ پن اخلاقیات کا کون سا درجہ ہے اور اگر یہ رواج بنتا گیا تو پھر کوئی محفوظ نہیں رہے گا سیاسی خانوادوں سے ہوتا ہوا یہی مسخر ہ پن معزز اداروں تک جاپہنچا تو پھر ” آرڈر آرڈر“ کی صدائیں اور توپوں کی سلامی کی ”گھن گرج“ اسی میں دب جائے گی کہ سیاست اور حکومت تو زندہ لوگوں پر کی جاتی ہے۔ کلثوم نواز کے جنازے اور تدفین میں شرکت کرنے کے لئے اسیران کی پیرول پر رہائی حکومت کا اچھا اقدام ہے اور یہ قدم اب رواج بننا ضروری ہے ورنہ میتوں پر آنے والے بیٹوں کے جہازوں کی واپسی پر تدفین نہیں رکتی مگر اخلاقیات ضرور مرتی ہیں۔ انتقال کی خبر پر فوری تعزیت اور میت پاکستان لانے کےلئے تعاون کا اعلان اس بات کا غماز ہے کہ حکومت جمہوری ہے۔
کلثوم نواز کی بیماری اور موت پر مزاحیہ جملے کسنے والے ، اندر کی خباثت ظاہر کرنے والے سیاسی اداکار دراصل اپنی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں جس کا نقصان صرف جمہوری اور معاشرتی روایات کو ہورہا ہے کیونکہ سیاست دان تو جانتے ہیں کہ بادشاہ بادشاہوں سے ہمیشہ بادشاہوں جیسا سلوک کرتے ہیں ۔
فیس بک کمینٹ