تقریباً ایک ماہ گزرا ہے کہ ڈاک کے ذریعے ایک بھاری بھرکم کتاب کا ایک پیکٹ ملا تو اس کو اٹھانے کے لیے دونوں ہاتھوں کا سہارا لینا پڑا۔ پیکٹ کھولا تو ”عرضِ ہنر“ کے نام سے نامور شاعر خالد احمد کا دیدہ زیب کلیات ہمارے سامنے تھا۔ اس کلیات کے ہم ایک عرصے سے منتظر تھے کہ کب شائع ہو اور کب ہم اس کا مطالعہ کریں۔ جب برادرِ عزیز عمران منظور نے اپنے فیس بک کے ذریعے یہ اطلاع دی تو ہم نے اسی وقت ان سے مطالبہ کر دیا کہ ہمیں یہ کلیات درکار ہے۔ عمران صاحب نے ہماری یہ عاجزانہ درخواست ”منظور“ کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ جلد ہی کتاب آپ کے پاس موجود ہوگی۔ یوں کچھ دنوں بعد اُردو کے مقبول و عہد ساز شاعر کا کلام ہمارے پاس پہنچ گیا۔ بڑے سائز اور دبیز کاغذ پر شائع کیا گیا یہ کلیات منفرد شاعری پڑھنے والوں کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں کہ اس کلیات میں خالد احمد کی تشبیب (نعتیہ قصائد)، ہتھیلیوں پہ چراغ (شاعری)، پہلی صدا پرندے کی (شاعری)، ایک مٹھی ہوا (شاعری)، دراز پلکوں کے سائے سائے (شاعری)، نم گرفتہ (شاعری) اور پہلی پَو پہلی پروائی (شاعری) شامل ہیں۔ ان تمام کتب کی خوبی یہ ہے کہ خالد احمد ہر صفحہ میں ایک نئے رنگ اور مختلف انگ سے دکھائی دیتے ہیں۔ تشبیب ان کا پہلا نعتیہ مجموعہ تھا جس میں تین نعتیہ قصائد اور ایک منظوم پیش لفظ ہے۔
خالد احمد تری نسبت سے ہے خالد احمد
تو نے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت لکھی
اس کلیات میں دوسرا شعری تحفہ ”ہتھیلیوں پہ چراغ“ ہے جس کے آغاز میں خالد احمد لکھتے ہیں ”میرا قاری دَم ساز ہے۔میرا قاری میرا کاغذ ہے۔ میرا قاری میرا پانی ہے۔ میرا قاری میری ریت ہے۔ میرا قاری میرا دل ہے۔ مَیں دلوں پر لکھتا ہوں۔“ ان کا یہ شعری انتخاب 1964-75ءتک کے زمانے کا ہے اور دور کا کہا گیا سدا بہار شعر ملاحظہ کریں:
ترکِ تعلقات پہ رویا تو نہ مَیں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ مَیں
”پہلی صدا پرندے کی“ میں 1976-85ءتک کی شاعری ہے جس میں ضیاءدور میں ہونے والے واقعات کو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔ اس کتاب کے منظوم پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
بات کہنے نہیں آتی۔ مجھے لکھنا نہیں آتا
سطر کہنے کا ہنر۔ نظم بنانے کا سلیقہ
بات کرنے کا قرینہ۔ مجھے کچھ نہیں آتا
میرے واثر۔ مرا سینہ تِرا گھر ہے
میرے محسن۔ ترا گھر باب کشا ہے
لفظ بُھوبَھل کی تہیں ہیں
سچ تو یہ ہے مری بھوبھل
مری بے جان محبت کی طرح غم سے تہی ہے
”ایک مٹھی ہوا“ کی شاعری پڑھنے کے لائق ہے۔ لیکن کتاب میں خالد احمد نے اپنی والدہ مرحومہ کے لیے جو نظم کہی ہے وہ ماں پر کہی جانے والی نظموں میں ایک ایسا فن پارہ ہے جو صدیوں میں کوئی شاعر ایسا نوحہ کہتا ہے۔ یہ نوحہ بار بار پڑھنے والوں کو اپنے متوجہ کرتا ہے۔
لحد تیار ہے
مری بہنو!
اس انداز سے روؤ۔ مگر کچھ زور سے روؤ
کہ اس ماتم کی آوازیں۔ مرے پتھرائے کانوں کو
نہ جانے کیوں بھلی معلوم دیتی ہیں
کوئی بتلائے اس سینہ زنی، اس سینہ کوبی سے
مجھے کس نوع کی تسکین ملتی ہے
مرے سینے میں تو دل کی جگہ پتھر دھڑکتا ہے
تمہارے آنسوؤ ں کے ساتھ یہ دل بھی نہ بہہ جائے
لحد تیار ہے لیکن، ابھی کچھ دیر میرے گھر میں
بوڑھی برکتوں کا ابر رہنے دو
اسی نوحے کے کچھ مصرعے یوں ہیں:
مرے آقا
اجازت دیں، مَیں اپنی ماں کو مٹی میں ملا دوں
آپ کو اپنے بہت پیارے چچا کا واسطہ ہے
حضرت حمزہؓ کی بے پایاں وفا کا واسط ہے
میرے آقا! مجھ کو مت دیکھی کہ مَیں نے
اپنی بوڑھی ماں کی بوڑھی چھاتیوں سے خوں نچوڑا ہے
مگر مجھ کو اذانوں کے جلو میں اس نے چھوڑا ہے
مرے آقا! اجازت دیں، لحد تیار ہے، لوگوں کو جلدی ہے
کہ مرے غم گسار اپنے بہت سے کام ادھورے چھوڑ آئے ہیں
اگر خالد احمد شاعری میں کچھ اور نہ بھی کہتے تو یہ نوحہ ان کو اُردو ادب میں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔ مَیں نے اپنی زندگی میں ماں کے موضوع پر بہت کچھ پڑھا ہے لیکن اس سے خوبصورت نوحہ کبھی نہیں پڑھا۔
ؑؑ”دراز پلکوں کے سائے“ میں اےک نئے خالد احمد سے ملاقات ہوتی ہے۔کتاب کے آغاز میں حمید نسیم کا دیباچہ ہی ان کی شعری عظمت کا تعین کرنے کے لیے کافی ہے۔
جل اُٹھی میری پور پور مگر
ابھی مَیں نے اسے چھوا بھی نہ تھا
”نم گرفتہ“ میں ضیاءجالندھری نے جس انداز سے خالد احمد کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اس سے خالد احمد کی شعری عظمت کا تعین ہوتا ہے۔ اس کتاب میں نعت کا ایک شعر ملاحظہ کریں:
چہرہ تمام رنگ تھا، پیکر کرن تمام
تو نے ہر شخص کی تقدیر میں عزت لکھی
کلیات خالد احمد کی آخری کتاب ”پہلی پَو پہلی پروائی“ ہے کو بنیادی طور پر ایک طویل نعتیہ نظم ہے جس کا انداز بالکل مختلف ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے اس میں ولادت باسعادت سے حضور پاک کی وصیت اور وصال تک کے واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے منظرِ عام پر آنے کی داستان جمشید چشتی نے خوبصورت پیرائے میں لکھ کر ثابت کیا وہ محبِ خالد احمد ہیں۔ جب ہم خالد احمد سے پیار کرنے والوں کا تذکرہ کرنا چاہیں گے تو ان میں سرِ فہرست عمران منظور دکھائی دیتے ہیں جو ہر ماہ یکم کو بیاض شائع کر کے احباب کوبھجوا کر اگلے شمارے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ عمران منظور نے کلیات کے آغاز میں بھی خالد احمد کو یاد کیا اور پھر کلیات شائع کرنے کا جوازبھی بتایا۔
قارئین کرام! کلیاتِ خالد احمد 2018ءکے شعری منظرنامہ کا ایک ایسا تحفہ ہے جسے ہر گھر میں ہونا چاہیے کہ خالد احمد کی شاعری ایسی نہ ہے کہ اسے سرسری طور پر پڑھا جائے۔ یہ شاعری تو سکون کے ساتھ اس طرح پڑھی جانی چاہیے کہ جیسے سخت سردی کے موسم میں گرماگرم چائے کی چسکیاں۔ یوں تو ان کی ہر کتاب میں بے شمار شعر ایسے ہیں جس کا انتخاب آپ کے سامنے پیش کیا جائے۔ فی الحال دو شعر ملاحظہ کریں اور عمران منظور سے یہ کتاب ایک خط لکھ کر منگوا لیں کہ یہ کتاب آپ کی لائبریری کو اور منفرد اور خوبصورت کر دے گی۔
دَم سادھ کے دیکھوں تجھے، جھپکوں نہ پلک بھی
آنکھوں میں سمو لوں، ترے لہجے کی دمک بھی
….٭….
اے عشق! اگر مجھ کو ترا اذن ہو ممکن
آغوش میں لے لوں ترے پیکر کی مہک بھی
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ