مَیں تیس ہزار فلسطینیوں کے حالات کا خود جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ میرا پختہ یقین ہے کہ فلسطینی عربوں میں موجود یہ مسلمان برما کے روہنگیا مسلمان، چین کے یوغور مسلمان، سنٹرل افریقن ریپبلک اور شام کے مسلمان دنیا کے مظلوم ترین مسلمان ہیں۔ مَیں نے اُن فلسطینیوں سے ملنا اور گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ عین اس وقت فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے سرگرم رکن مجھے بتانے لگا کہ وہاں کے حالات اتنے کشیدہ ہیں اگر تمہیں کچھ ہو جائے تو اس کی اسرائیل اور دنیا بھر میں کوئی شنوائی نہیں ہو گی۔ فائرنگ، خنجر زنی اور گرفتاریاں روزمرہ کا معمول ہیں۔ بڑے ٹور آپریٹر اپنے مہمانوں کو باقاعدہ اطلاع دے کر اسرائیلی فوج کی نگرانی میں لے جاتے ہیں۔ میری درخواست ہے آپ اس غیر ضروری مہم جوئی سے باز رہیں۔ مَیں اپنے فلسطینی بھائیوں کے حالاتِ زندگی اور اُن کے کرب کا اندازہ خود وہاں جا کر لگانا چاہتا تھا۔ لیکن میرے میزبان مجھے منع کر رہے تھے۔ اس روک ٹوک کے باوجود مَیں نے نمازِ جمعہ کے لیے حرمِ ابراہیمی کا انتخاب کیا۔ راستے میں تین ملٹری چیک پوسٹ کراس کر کے ہم فلسطین میں داخل ہوئے۔ میرے میزبان نے کہا وضو کر کے واپس آتا ہوں آپ انتظار کریں۔ مَیں نے سوچا فضول دیواروں کو دیکھا جائے تو کیوں نہ اپنے موبائل کا استعمال کر کے کچھ تصویریں ہی بنا لوں۔ مَیں نے چیک پوسٹ پر کھڑے فوجیوں اور مجبور عربوں کی دو تصاویر ہی بنائی تھیں کہ مجھے چار سو ایک یلغار سنائی دی۔ پانچ اسرائیلی فوجی مجھے گھیرے میں لے چکے تھے۔ اُن کی بندوقوں کا رُخ میرے سر اور سینے کی طرف تھا۔ وہ عبرانی زبان میں چیخ رہے تھے۔ اُن کی گرفت سے لگ رہا تھا کہ مَیں گرفتار ہو گیا ہوں۔ مَیں نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کر لیے اور ساتھ ہی بتایا کہ مَیں سیاح ہوں۔ فوجی نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور کہا کیسے آئے ہو؟ بذریعہ ٹیکسی مَیں نے جواب دیا۔ اتنی دیر میں میرا گائیڈ آیا تو اس نے چیخ کر مجھے ایک جانب ہٹ جانے کو کہا۔ فوجی میرے گائیڈ کے ساتھ بدتمیزی کر رہے تھے۔ اچانک میری نظر اقوامِ متحدہ کے دو مبصرین پر جا پڑی۔ مَیں بھاگ کر اُن کے پاس گیا اپنی بپتا سنائی۔ مبصرین میرے ساتھ اسرائیلی فوج کے پاس آئے اور انہوں نے آ کر صورتحال کو سنبھالا۔ میری لی ہوئی تصاویر کو ڈیلیٹ کیا تب انہوں نے مجھے مسجد میں جانے کی اجازت دی۔
قارئین کرام! یہ اقتباس مَیں نے کاشف مصطفی کی کتاب ”دیوارِ گریہ کے آس پاس“ سے لیا جو اُس دن میری لائبریری کا حصہ بنی جب 30 مارچ 2018ءکی سہ پہر کو پوری دنیا کے ٹیلیویژن چینلز پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ مقبوضہ بیت المقدس غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے پندرہ فلسطینی شہید اور 500 سے زیادہ افراد زخمی۔ اس خبر کے ساتھ جو ویڈیو مَیں نے دیکھی اس میں غزہ کی سڑکوں پر ہزاروں خواتین و حضرات جنازے اٹھا کر احتجاج کر رہے تھے۔ آنسو گیس کی شیلنگ، گولیوں کی تڑتڑاہٹ، مظاہرین کی توڑ پھوڑ یہ سب مناظر دیکھتے دیکھتے ہمیں کئی عشرے بیت گئے۔ صورتحال میں کبھی بہتری نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم نے فلسطین کے بارے میں خبریں اور تجزیے پڑھنے چھوڑ دیئے۔ بیت المقدس سے تو کوئی خیر کی خبر نہیں آتی۔ ایسے میں ایک دن مَیں معروف ادبی جریدہ سویرا کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اس میں دیوارِ گریہ کے آس پاس کے عنوان سے ایک سفرنامے کا اقتباس دیکھا۔ مصنف کاشف مصطفی جب مترجم محمد اقبال دیوان تھے جو ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں اور آج کل کراچی میں ایک ادارے میں نوکری اور قلم کی مزدوری کر رہے ہیں۔ محمد اقبال کا تعارف ان کی تین کتابوں کے حوالے سے میرے ساتھ ہو چکا تھا۔ بلکہ ایک مرتبہ برادرم ڈاکٹر نعیم طارق نے ان سے فون پر بات بھی کرائی۔ ان کی پہلی کتاب ”جسے رات لے اُڑی ہوا“ کی دل موہ لینے والی نثر نے ہمیں ان کا گرویدہ کر دیا۔ جبکہ دوسری کتاب ”وہ ورق تھا دل کی کتاب کا“ بھی پہلی کتاب کا حصہ لگی۔ تیسری کتاب ”پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ“ (افسانے) ہے جس کے بارے میں امجد اسلام امجد کا کہنا ہے ”مجھے اس کتاب کی جس خوبی نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کی اپنے آپ کو پڑھوانے کی غیر معمولی قوت اور صلاحیت ہے۔“
سو اسی محمد اقبال دیوان نے کاشف مصطفی کے اسرائیل کے سفرنامہ کو نہ صرف اُردو میں منتقل کیا بلکہ اس کی تدوین بھی کی۔ اس سے قبل کہ ہم اسرائیل کے بارے میں اس خوبصورت سفرنامہ کے بارے میں آپ کو بتائیں پہلے آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کاشف مصطفی کا حدود اربعہ کیا ہے۔ کتاب کے شروع میں کاشف مصطفی اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
”پنڈی شہر کے کاروباری علاقے میں اوائل عمر کے ایام میں مجھے ایسے سہانے اور لدے پھندے خواب دیکھنے کی عادت نہیں رہی کہ گزرتے وقت کے ساتھ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی اہمیت میرے نزدیک کم ہو کر رہ گئی۔ یقین جانیے شہر کے چھوٹے چھوٹے ڈھابوں سے کھانا کھاتے وقت مجھے بعض دفعہ پانچ ستاروں ہوٹلوں کے سات کورس ڈنر سے زیادہ سواد آتا۔ کچھ ایسا ہی مزہ شہر کی تیرہ و تاریک گزرگاہوں، تنگ گلیوں، پرانی بستیوں میں آوارہ گردتی کے وقت آتا ہے۔ کسی شہرِ قدیم کی چوٹی یا چٹان پر بیٹھ کر طلوع یا غروبِ آفتاب کا منظر بھی میرے دل کو بہت برماتا ہے۔ ان قدموں کی آوارگی مجھے اُس پہاڑ تک بھی لے گئی ہے جسے کرہ¿ ارض کا نقطہ¿ اختتام سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اگر وقت برف کے منظر میں جما لگتا ہے تو سرِ شام پیرس کی شانزا لیزے وہ مقامِ حیرت و مستی ہے جہاں لمحات جذبات کی بھٹی میں سلگتے دکھائی دیتے ہیں۔ کرغزستان اور کوہ قاف سے لے کر الاسکا تک کیا کچھ نہ دیکھا مگر عجب بات تھی لکھنے کا اس وقت تک دھیان نہ آیا جب تک فلسطین اور اسرائیل کی سرزمین پر قدم نہ رکھا۔“
اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے ”عرضِ مصنف“ کے نام سے باب کو پڑھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہاں سے کتاب آپ کی انگلی پکڑتی ہے اور پھر آپ کو کہیں گم نہیں ہونے دیتی۔ کاشف مصطفی اسی باب میں مزید لکھتے ہیں ”یہ ارض مقدس اپنے اندر ایک باشعور مجذوب کی سی کیفیت چھپائے بیٹھی ہے اس کے اندر جو کچھ ہے وہ باہر والے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ محسوس کر سکتے ہیں۔بیرونی دنیا کے افراد اس سے وابستہ واحد جنونِ مسلسل کے پہلو سے تو سطحی طور پر آشنا ہیں لیکن سربستہ رازوں کے اس خزانے کا خود عالمِ اسلام کی ایک بڑی اکثریت کو بھی صحیح ادراک نہیں۔“
جب ہم اس کتاب کو جاننا چاہتے ہیں تو ایسے میں کاشف مصطفی یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ میرے لیے یہ سب نظارے بہت دیدنی مگر اپنی روحانی کیفیت میں اعصاب شکن تھے۔ ان کے جلووں کو تنہا سمیٹ کر جذب کرتے کرتے میری ہڈیاں سرمہ بن گئیں۔ یہ مسافت جتنی جسمانی تھی اس سے کہیں زیادہ روحانی۔ سو مَیں نے سوچا خود کو اس بارِ مسلسل سے رہائی دلانے کے لیے آپ کو بھی شریکِ سفر کر لوں۔ (جاری ہے)
فیس بک کمینٹ