یہ بات 1990ءکی دہائی کی ہے کہ ہمارے ہاں ایک دُبلا پتلا نوجوان گریٹنگ کارڈز اور کتابیں لینے باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ گفتگو کرنے کا شوقین یہ نوجوان پھر اچانک غائب ہو گیا۔ کبھی دکھائی نہ دیا۔ نہ اُس نے کبھی رابطہ کیا۔ ہم نے سوچا کہ اُس باذوق نوجوان کو وہ محبوبہ مل گئی ہو گی جس کے لیے وہ گریٹنگ کارڈز اور شاعری کی کتابیں خریدا کرتا تھا۔ میرے حلقہ احباب میں اس طرح کے دوستوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور پھر اچانک کئی برسوں بعد وہ آتے ہیں تو اُن کا حلیہ تبدیل ہو چکا ہو تا ہے۔ محبت کی شاعری، ویلنٹائن کے گفٹ اور گریٹنگ کارڈز لینے والا کبھی سر پر ٹوپی رکھ کر دین کی باتیں کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کبھی داڑھی رکھ کر وہ یہ انکشاف کرتا ہے کہ وہ آج کل زیادہ وقت تبلیغ میں گزار رہا ہے۔ چند برس پہلے کراچی کے معروف پبلشر نے غزل کیلنڈر شائع کرنا شروع کیا تو اُس کے مرتب کے نام پر ایک غیر معروف نام دکھائی دیا۔ باذوق احباب کے لیے غزل کیلنڈر کسی نعمت سے کم نہیں کہ روزانہ نئی تاریخ کے ساتھ نئی شاعری اُن کی میز پر رکھی ہوتی ہے اور وہ دوستوں کو کیلنڈر سے دیکھ کر شاعری سناتے ہیں۔ مَیں نے غزل کیلنڈر کے پبلشر جناب طارق رحمن فضلی سے پوچھا کہ یہ مرتب کون ہیں؟ کہنے لگے ”محمد فیصل“۔ حیران ہو کر مَیں نے کہا لیکن کیلنڈر پر تو کسی اور کا نام چھپا ہوا ہے۔ طارق رحمن فضلی کہنے لگے شاکر بھائی یہ غزل کیلنڈر آپ کے ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک باذوق نوجوان محمد فیصل مرتب کرتے ہیں لیکن وہ اپنے نام کی بجائے اپنے والدِ محترم کا نام دیتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے والدِ گرامی سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ طارق رحمن فضلی کی یہ بات سن کر کچھ کچھ یاد آنے لگا کہ یہ محمد فیصل کہیں وہی تو نہیں جو شاعری کی کتابیں، ویلنٹائن کے تحفے اور کارڈز خریدا کرتا تھا۔ پھر یہ سوچ کر محمد فیصل کو دریافت کرنے کی کوشش ترک کر دی کہ معلوم نہیں وہ محبت کی شاعری سے محبت کرنے والا نوجوان محمد فیصل بھی کسی تبلیغ میں مشغول ہوگا، کسی مسجد کا امام بن گیا ہو گا اور شاعری کو کفر قرار دے کر لوگوں کو دینی کتب تحفے میں دے رہا ہو گا۔ یہ سب باتیں ہمیں ہر سال جنوری میں یاد آتیں جب وہ غزل کیلنڈر ہماری ٹیبل پر موجود ہوتا۔
چند برس پہلے ہمارے فون پر اسلام آباد سے ایک نوجوان نے فون کیا، اپنا تعارف محمد فیصل کے نام سے کروایا اور بتانے لگا کہ مَیں آپ کے پاس فلاں سن میں آیا کرتا تھا جب میرے والد محترم ملتان میں نوکری کیا کرتے تھے۔ اس کی آواز جانی پہچانی لگی، لہجہ اپنا اپنا سا تھا اور گفتگو میں وہی چاشنی تھی جو کبھی ہم اس سے سنا کرتے تھے۔ تو مجھے وہ سب یاد آ گیا کہ یہ تو وہی محمد فیصل ہے جو مجھ سے بات کر رہا ہے۔ کہنے لگا شاکر بھائی میرا مرتب کردہ غزل کیلنڈر کیسا لگتا ہے؟ مَیں نے اُس کے انتخاب کی تعریف کی تو کہنے لگا مجھے اس میں ملتان کے شعراءکی شاعری شامل کرتی ہے اگلے سال کے کیلنڈر میں وہ بھجوا دیں۔ مَیں نے اُس سے کہا تعمیل ہو گی۔ وہ خوش ہو گیا اور کہنے لگا آج کل نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے اسلام آباد میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور اُن سے کئی کتابوں کی اشاعت پر مشاورت جاری ہے۔ مَیں نے ابنِ صفی پر کام کیا ہے۔ ابنِ صفی کی تحریروں کا انتخاب کیا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کو مَیں نے ابنِ صفی شخصیت اور فن کی سیریز کے سلسلے میں کتاب لکھ کر دے دی ہے جو جلد ہی آپ کے ہاتھوں میں ہو گی۔ اُردو کے نامور شاعر نظام رامپوری اور دیگر شاعروں کی شاعری کا انتخاب بھی کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ نامور ادیبوں کے نایاب دلچسپ اور غیر مطبوعہ خاکے بھی مرتب کر کے نیشنل بک فاؤنڈیشن کو بھجوا رہا ہوں۔ محمد فیصل ایک ہی سانس میں یہ سارا کچھ بتانا چاہتے تھے لیکن درمیان میں اُنہوں نے سانس لیا اور پھر کہا کہ میرے بچپن کا ملتان کیسا ہے؟ مَیں نے کہا نہ ملتان تبدیل ہوا نہ ملتان میں رہنے والے تبدیل ہوئے۔ چونکہ آپ کا جنم بھومی ملتان ہے مجھے یقین ہے کہ آپ بھی تبدیل نہیں ہوئے ہوں گے۔ ہنس کر کہنے لگا کہ ایمرسن کالج سے لے کر دیگر تعلیمی اداروں کی یادیں آج بھی میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ یہ ملتان ہی تو ہے جس نے مجھے ادب کی طرف راغب کیا۔ اُردو اور انگریزی فکشن ہمیشہ مطالعے میں رہے اور ملتان کے دوستوں نے ہمیشہ میری پذیرائی کی اور مجھے اپنے ملتانی ہونے پر فخر ہے۔ محمد فیصل نے فون پر یہ کہہ کر مجھے خوش کیا کہ وہ اگلے ہفتے ملتان آ رہے ہیں اور مَیں پھر اُن کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
ایک دن میرے پاس ایک سمارٹ سا باریش نوجوان آیا دونوں ہاتھ کھول کر کہنے لگا مجھے محمد فیصل کہتے ہیں۔ نہ رنگت تبدیل ہوئی، نہ آواز نہ جسامت میں کوئی فرق۔ وہی شاعری کتابوں سے محبت کرنے والا، ویلنٹائن کے تحفے لینے والا محمد فیصل پندرہ سال بعد بھی ویسے کا ویسے تھا سوائے اس کے کہ وہ اب بہت زیادہ ادب پر بات کرتا ہے۔ خاموش نہیں بیٹھتا۔ پورے پاکستان کے اچھے شاعروں سے اُس کا رابطہ ہے۔ اُن کی شاعری کی کتابیں خرید کر دوستوں کو تحفے میں بھجواتا ہے اور کہتا ہے کہ زندگی میں یہی کچھ کمایا ہے کہ مَیں کتابوں کے ساتھ جیتا ہوں اور کتابوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ اس نے اپنی پٹاری سے نظام رام پوری کا انتخاب اور ابنِ صفی پر لکھی ہوئی اپنی کتاب نکالی، اس پر اپنے دستخط کیے، مجھے دیں اور کہا فیس بک کے لیے ایک تصویر بھی بنوا لیں۔ حامد سراج، سجاد جہانیہ بھی موجود تھے اور پھر ہم نے ماضی کی یادوں کو تازہ کیا اور اتنی باتیں کیں کہ یہ یاد ہی نہ رہا کہ دو گھنٹے گزر گئے۔ محمد فیصل سے اب فون پر رابطہ ہے۔ ملازمت کے سلسلے میں اب وہ اسلام آباد سے کراچی منتقل ہو چکا ہے۔ جب اس کا فون آتا ہے تو خوبصورت شاعری سناتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ شاعری فلاں کتاب سے دیکھ کر سنا رہا ہوں۔ اور مَیں نے آپ کو بھجوا دی ہے۔ مَیں اُس کی بھجوائی ہوئی کتابوں کا انتظار کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کتاب نگر کی بدولت مجھے جہاں دنیا جہان کی نعمتیں ملیں وہاں پر محمدفیصل جیسے ایسے باذوق ملے جس نے میری زندگی کو اور زیادہ خوبصورت بنا دیا۔ آج جب مَیں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو اس کی ”ثروت حسین کے منتخب کلام“ پر کتاب آئی تو جی چاہا کہ محمد فیصل کی تحسین کر دوں کہ آج کے دور میں جب لوگ کتابوں کی دکانیں ختم کر کے ہوٹل کھول رہے ہیں تو وہ اب بھی بچے کھچے کتاب دوستوں کے لیے کتابیں مرتب کر رہا ہے۔ اس کو دیکھ کر مجھے ثروت حسین کا یہ شعر یاد آتا ہے:
یہ آئینے میں جو چہرہ دکھائی دیتا ہے
نہ جانے کون ہے مجھ سا دکھائی دیتا ہے