یہ بات میرے بچپن کی ہے جب میرے چچا حسین سحر نواں شہر میں ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور ہم چھٹی کے دن ان کے گھر اس لیے جایا کرتے تھے کہ اُن کے گھر میں بیری لگی ہوتی تھی۔ گرمیوں کے آغاز میں جب اُس بیری پر پھل آتا تو ہمیں درخت کے نیچے گرے ہوئے بیر اٹھا کر کھانے میں خوب لطف آتا۔ ان کے پڑوس میں حسین سحر کے قریبی دوست حنیف چوہدری بھی رہا کرتے تھے۔ یہ دونوں اہلِ قلم پنجابی میں بھی لکھتے تھے اور اُردو میں بھی۔ حنیف چوہدری روزنامہ امروز میں سب ایڈیٹر جبکہ حسین سحر کالج میں لیکچرار کے طور پر کام کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نہ مجھے حسین سحر کی شاعری سے دلچسپی تھی اور نہ ہی حنیف چوہدری کی صحافت سے۔ بس اتنا علم تھا کہ میری مرحومہ چچی کی حنیف چوہدری کی اہلیہ کے ساتھ دوستی تھی اور وہ اُن کا ذکر اپنی گفتگو میں گاہے گاہے کرتی تھیں۔
1987ءمیں جب مَیں نے کتاب نگر کا آغاز کیا تو جناب حنیف چوہدری نے انہی دنوں اپنا بھارت کا سفرنامہ ”بھارت یاترا“ کے نام سے شائع کروا کر مجھے بھجوا دیا۔ جب مَیں نے ضابطے والا صفحہ پڑھا تو اس میں ناشر کے طور پر ’کتاب نگر‘ کا نام شائع کیا ہوا تھا۔ کتاب نگر کا نام بطور ناشر کے دیکھنا میرے لیے خوشگوار حیرت تھی۔ اور اس سے بڑھ کر یہ بات کہ ”بھارت یاترا“ کو مَیں نے کتاب نگر کے کاؤنٹر سے 200 کی تعداد میں فروخت کیا۔ فرصت کے اوقات میں جب مَیں حنیف چوہدری کے اس سفرنامے کا مطالعہ کرنے بیٹھتا تھا تو ہر مرتبہ مجھے یہ سفرنامہ نیا لگتا۔
اس سفرنامے کا آغاز اتنا خوبصورت ہے کہ بھارت کے حوالے سے ایک محب وطن پاکستانی کا سفرنامہ آج تک نہیں لکھا گیا۔ حنیف چوہدری نے اپنے سفرنامے کا آغاز کچھ یوں کیا: ”جب مَیں نے اپنی بوڑھی ماں کو یہ بتایا کہ مَیں ایک ماہ کے لیے بھارت جا رہا ہوں تو اس کی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں سے دو قطرے ابھرے اور چہرے کی جھریوں میں اٹک کر بکھر گئے۔ مَیں چپ چاپ ماں کے سامنے بیٹھا اس کے برف کی مانند سفید بالوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ ماؤں کے آنسو بھی پلکوں کے کتنے نزدیک رکے ہوتے ہیں۔ یونہی کسی بچے نے انہونی سی بات کہی تو آنکھوں کی دہلیز سے باہر نکل آئے۔
میری ماں نے مجھ سے کہنا شروع کیا پُتر وہاں نہ جاؤ سنہ47ءمیں تو ہم پر گولیاں چلائی گئی تھیں، ہمیں لوٹا گیا تھا۔ اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ننگی تلواریں چمک رہی ہیں۔ بچوں کو ماؤ ں سے چھینا جا رہا ہے۔ اُن کی چیخیں اب بھی میرے کانوں میں سنائی دے رہی ہیں۔ حنیف بیٹے نہ جاؤ!۔
اور مَیں افسردہ سا ہو کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ میری ماں بھی ململ کے سفید دوپٹے سے آنسو پونچھتے میرے پیچھے آ گئی اور پوچھنے لگی پتر اب کیا کرنے جانا ہے۔ وہاں نہ اپنا گھر ہے نہ مکان، نہ کنواں نہ کھیت، وہاں کون ہے اپنا۔ وہاں سب اجنبی ہیں کون پہچانے گا تجھے اور یہ کہتے کہتے اُن کی آواز رندھ گئی۔“
حنیف چوہدری نے حسین سحر کی وجہ سے اپنی کتاب پر میرے ادارے کا نام دیا اور اِک ایسی کتاب کا نام دیا جو مجھے آج بھی بہت پسند ہے۔ یہ کتاب بھارت کا سفرنامہ تو اپنی جگہ پر ہے لیکن ایک افسانہ نگار کا وہ فن پارہ ہے جہاں پر ہم نے جگہ جگہ نت نئی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ حنیف چوہدری نے اس کتاب کے ذریعے ہمیں وہ بھارت دکھایا جو ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔ وہ صرف صحافی ہی نہیں بلکہ ایک ایسے افسانہ نگار، محقق، مرتب اور مترجم ہیں کہ جنہوں نے اسی سال سے زیادہ عمر میں پی ایچ ڈی کی۔ ان کی تخلیق کا سفر آج بھی جاری و ساری ہے۔
ملتان کے ثقافتی دفینے کی بات ہو یا خوبصورت کہانیوں کا ذکر۔ تاریخِ ملتان کی اصل حقیقت کو جاننا ہو یا خواجہ فرید کے حوالے سے آپ کو نئے زاویے تلاش کرنے ہوں حنیف چوہدری ہر میدان میں الگ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ مَیں اُن کی ہر تخلیق کا شدت سے انتظار کرتا ہوں۔ مجھے اُن کے قلم سے لکھا ہوا ایک ایک لفظ متاثر کرتا ہے۔ وہ جب بولتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ بابا جی بولتے رہیں۔ اور اُن کے قلم کا کیا کہنا وہ تو حقیقی معنوں میں موتی بکھیرتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو اس مختصر سے کالم میں 10 اکتوبر 2008ءکو ایک بے بس باپ کا جوانی میں بچھڑ جانے والے بیٹے کے نام خط پڑھ لیں اور مجھے بتائیں کیا مَیں غلط ہوں جو حنیف چوہدری کی ہر تحریر کا انتظار کرتا ہوں۔
اس خط کا عنوان انہوں نے ”پوسٹ نہ ہونے والا خط“ رکھا ہے۔
”شاہد بیٹے، تم دنیا سے کیا گئے مجھے آنسوؤں کے سمندر میں پھینک گئے۔ تیرے بعد زندگی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی موج مجھے ایک نامعلوم کنارے پر پھینک گئی جہاں صرف یادوں کا جنگل ہے۔ اس جنگل میں مَیں اکیلا ہوں۔ ببول کے اس درخت کی طرح جس پر ایک چڑیا کا نشیمن ہے۔ جب آندھی آتی ہے تو اس کا نشیمن اُڑ جاتا ہے صبح وہی چڑیا تسبیح و مناجات میں لگ جاتی ہے۔ اُسے اس واقعہ یا سانحہ کی پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ سراپا تشکر ہوتی ہے۔ میری بھی دُعا ہے۔ اے ﷲ! مجھے یادوں کی خانقاہ سے آزاد کر دے۔ اے ﷲ! مجھے اذنِ گویائی دے تاکہ مَیں چڑیا کی طرح اس سانحہ کو بھول کر سراپا تشکر بن جاؤں۔ اے ﷲ! مجھے تنہائی کے برفانی غاروں میں منجمد نہ کر بلکہ اپنی آگاہی کی چوکھٹ پر سر دھرنے کی استقامت دے۔ اے ﷲ! میری یہ آرزو پوری کر دے کہ مَیں ابدالآباد میں رہنے والے بیٹے کو ایک مرتبہ خواب میں دیکھ لوں۔ بچھڑنے والے مَیں نے تمہاری ننھی سی بیٹی ایلینا سے کہہ دیا ہے کہ گھر سے باہر گلی میں جب کسی گاڑی کا ہارن بجے تو اپنی مما سے یہ نہ کہنا ”مما پاپا آ گئے دروازہ کھولو“۔ مجھے اب پتہ چلا کہ انسان زندہ ہونے کے باوجود زندگی کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ مرے بغیر موت کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔ یہ مقالے مَیں نے آنسوؤں کی روشنائی سے لکھے ہیں جو میرے دُکھ کا مداوا تو نہیں کریں گے صرف تمہاری نہ مٹنے والی یاد سے دور لے جائیں گے۔“
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )