سوشل میڈیا دیکھ رہا تھا کہ برادرم خاور حسنین بھٹہ کی ایک پوسٹ پر رُک گیا‘ پڑھتا گیا اور آنکھیں نم کرتا گیا کہ خاور حسنین بھٹہ اپنے والد شفقت حسنین بھٹہ کا مرثیہ کچھ یوں بیان کر رہے تھے ’میرے متحرک ترین بابا ملک شفقت حسنین بھٹہ رح کی بھرپور و شاندار زندگی…. اپنے خونی رشتوں‘ دوست و احباب‘ محلے داری سے جہاں داری کے سبھی کرداروں کے حقوق و ذمہ داریاں کی اہمیت جانتے ہوئے پوری جسمانی و شعوری تگ و دو سے اس تعلق کا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کرنا اور کرتے چلے جانے کرتے چلے جانا…. میرے بابا بظاہر گہرے مذہبی و مسلکی نظریات سے وابستگی کی بنیاد پر اپنے وسیب کی بہت ہی قد آور ہستی تھے لیکن ایسے میں زمین زادے ایسے تھے کہ کسی انسان کی حرمت کو اس کے شرف کو اپنے گہرے مذہبی و مسلکی عصبیت کی کسوٹی پر نہیں تولتے تھے اور نہ ہی کبھی اس معیار پر کسی کو کم تر جانتے تھے ۔ تبھی تو پورا وسیب سوگوار ہے ۔پورے وسیب کے شیعہ‘ بریلوی‘ دیوبندی‘ اہلحدیث اکابرین سے اتحاد و یگانت کے نام پر ان کا کوئی مصنوعی تعلق نہیں تھا بخدا خانہ واحدی تھی ۔مسلکی بُعدکے باوجود سب اکابر سے ذاتی و خاندانی تعلق کا یہ عالم ہے کہ میرا بابا تمام اکابر کے بچوں کا بابا تھے ۔
میرا بیان تھر تھرا گیا ہے\ میرے خیالِ خوب بدتر سے بدتر ہوتے جارہے\ میری روح‘ میرا طاقتور شعور\علیل سے علیل تر ہوتا جارہا ہے\ میرے دن دہک رہے ہیں\ میری راتیں جل رہیں\ہر لمحہ لرز لرز کے گزر رہا ہے\ میری ساعتیں نہیں گزر رہیں \مسلسل صعوبتیں ہیں صعوبتیں ہیں\ بظاہر میرا درد نکل رہا ہے\ لیکن نہیں نکل رہا نہیں نکل رہا\ میری آنکھیں نہیں بہہ رہی\ میں بہہ رہا ہوں\ میں اپنے بابا کامستانہ لگ رہا ہوں\ میں دیوانہ ہورہا ہوں۔
بیٹے نے اپنے والد گرامی سے محبت کا ثبوت دیا۔ مجھے اچھا لگا کہ یہاں پر شفقت بھٹہ کی تربیت دکھائی دے رہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سال گزشتہ شفقت بھٹہ نے میرے مربی و مہربان ڈاکٹر غضنفر مہدی کی کتاب کی تعارفی تقریب رکھی تو مجھے ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا کہ نظامت کا فریضہ شاکر کے ذمہ ہے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی صدارت تھی، تقریب میں گفتگو کا سیشن بھی خوب رہا‘ عصرانہ کے بعد شفقت بھٹہ نے بھرپور شفقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کاش! آپ اپنے بولنے کا ہنر ہمیں بھی سیکھا دیں تو میں نے ڈاکٹر غضنفر مہدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ سب محبت کا اعجاز ورنہ من آنم کہ من دانم۔
شفقت بھٹہ شہر کی ہر تقریب میں شریک ہوتے۔ لباس دیدہ زیب‘گفتگو میں متانت اور سب سے محبت کا اظہار، یہی سب کچھ اُن کی شخصیت کا خاصا تھا۔ چند دن پہلے کورونا ہوا تو ہسپتال داخل کروا دئیے گئے‘ خیال تھا کہ جلد صحت یاب ہو نگے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ ایک دن اُن کے جانے کی خبر آگئی‘اُن کو ہم سے بچھڑنے کی اتنی جلدی تھی کہ یار لوگ جنازے کے وقت مشتہر ہونے کا انتظار کر رہے تھے کہ راتوں رات تدفین کا عمل مکمل کر لیا گیا اور یوں ہم اپنے مہربان بزرگ کے آخری دیدار سے محروم رہے۔ ابھی شفقت بھٹہ کا غم تازہ ہی تھا کہ ملتان شہر کی ایک سماجی و ثقافتی شخصیت مخدوم زاہد حسین شمسی بھی اچانک کوچ کر گئے۔ آپ قانون دان ہونے کے علاوہ دربار حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے سجادہ نشین بھی تھے ۔ شہر کے تمام سیاسی خانوادے اُن کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے ۔اُن کی ایک خواہش یہ تھی کہ میلہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ دوبارہ شروع ہو جائے‘ میلہ والی جگہ واگزار کرانے کےلئے بہت محنت کی لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور وہ دل کا دورہ پڑنے سے اچانک انتقال کر گئے ۔ حقِ مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
ابھی شہر کے باسی شفقت بھٹہ اور مخدوم زاہد حسین شمسی کو یاد کر رہے تھے کہ ملک کے ممتاز عالم دین علامہ سعید احمد فاروقی کے انتقال کی خبر بھی آ گئی۔ علامہ سعید احمد فاروقی کا شمار ملک کے اُن علما کرام میں ہوتا تھا جو اتحاد بین المذاہب کے قائل تھے‘ اُن کے والد علامہ فیض رسول نظامیؒ بھی شہر میں امن کے داعی رہے‘ اُن کے انتقال کے بعد ملتان کی قدیمی جامع مسجد طوطلاں والی میں خطیب رہنے کا اعزاز بھی علامہ سعید احمد فاروقی کے پاس رہا‘ انکی خطابت کا انداز ماضی کے اُن علما کرام جیسا ہوتا تھا‘ جنہیں عرف عام میں مقرر شعلہ بیان کہا جاتا ہے۔ علامہ سعید احمد فاروقی کی خطابت اتنی پرجوش انداز میں ہوتی کہ اُن کی تقریر کے دوران کسی کو جرات نہ ہو سکتی کہ وہ آپس میں بات چیت کر سکے۔ میں نے اپنی نظامت میں انہیں کئی مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے دیکھا اگر میں نے گفتگو مختصر کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے طے شدہ وقت میں اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کیا اور خوب داد پائی۔ علامہ سعید احمد فاروقی منہاج القران کے ساتھ بھی وابستہ تھے یہی وجہ ہے کہ اُن کے جنازے پر خصوصی طور پر علامہ طاہر القادری نے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا‘ اُن سے ابتدائی ملاقاتیں معروف مزاح نگار وانشائیہ نگار محمد اسلام تبسم کے دفتر پاکستان پوسٹ میں ہوئی جو بعد میں ذاتی تعلق میں تبدیل ہوگئی۔ چند ماہ قبل اُن کے بیٹے نے ٹریول ایجنسی کھولی تو یہ ایجنسی اسی پلازے میں تھی جہاں میرا آفس بھی موجود ہے توآتے جاتے اُن سے تواتر سے ملاقات ہونے لگی۔ اُن کے بیٹے کا دفتر شہر کے علما کرام کےلئے کسی نعمت سے کم نہ تھا‘ خود علامہ سعید احمد فاروقی بھی دوستوں سے ملاقات کر کے خوب تروتازہ رہتے ۔ علامہ سعید احمد فاروقی کب سے گردوں کے مرض میں مبتلا تھے‘ ہمیں علم نہ ہو سکا جب اُن کے انتقال کی خبر شہر میں پھیلی تو اگلے دن جامع مسجد طوطلاں والی میں ہزاروں کی تعداد میں سوگ وار انہیں رخصت کرنے آئے تو معلوم ہوا کہ وہ کتنے لوگوں کے دلوں میں بستے تھے؟ ایک ہفتے میں تین اہم افراد کا انتقال اہلِ ملتان کو اداس کر گیاتھا کہ معروف انسان دوست سیاست دان‘ دانشور اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھی حیدر عباس گردیزی بھی کورونا کی وجہ سے انتقال کر گئے‘اُن کی موت ایک بڑے انسان کی موت ہے۔ ابھی تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا لکھوں‘ سوائے اُس کے کہ اللہ تعالی سے دعائیں کی جائیں کہ وہ ہم گناہ گاروں پر رحم کریں کہ ہم سے یہ شہر دوستوں سےخالی ہوتے نہیں دیکھاجاتا۔
فیس بک کمینٹ