یہ بات 5 اپریل 2018 کی ہے ۔جب ملتان سے خالد مسعود خان ۔رضی الدین رضی ۔آصف کھیتران اور دیگر احباب نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کے مہمان تھے ۔سالانہ کتاب میلے کا افتتاح 6 اپریل کو ہونا تھا ۔تو 5 اپریل کو ڈنر پر جناب مسعود اشعر کی ملتان کے احباب ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میرا ملتان کیسا ہے؟ہم نے کہا ،آپ کے بغیر ملتان اداس ہے ۔
اگر ملتان میرے بغیر اداس ہے، تو پھر اہل ملتان نے مجھے کبھی یاد ہی نہیں کیا ۔اس پر خالد مسعود خان نے کہا ۔اشعر صاحب آپ تیار ہو جائیں
ہم آپ کے ساتھ ملتان میں تقریب رکھتے ہیں ۔یوں آپکی احباب سے ملاقات بھی ہو جائے گی ۔اور ہماری خواہش بھی پوری ۔کتاب میلہ اسلام آباد تین دن جاری رہا ۔تو اس دوران ان سے بارہا نشتیں ہوئی۔ہم ان سے افسانے کے عصری رحجانات پر بات کرتے ۔تو وہ بات کو تبدیل کر کے ملتان کے احباب کا ذکر شروع کر دیتے ۔کبھی امروز ملتان کے ساتھیوں کی باتیں، تو کبھی ملتانی سیاست دانوں کے قصے ،جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مراسم کو زیر بحث لاتے تو کہیں شہر کے بھولے بسرے لوگوں کو یاد کرتے ۔ایسے میں، میں نے انھیں ملک خلیل اللہ لابر اور ڈاکٹر علی حیدر کی ناگہانی اموات پر ان کے لکھے افسانے یاد کرائے ۔تو کہنے لگے ۔ملک خلیل اللہ لابر شہر کے درویش صفت انسان اور معروف سیاست دان تھے ۔جب ان کی چولستان کے صحرا میں پیاس کی شدت سے موت ہوئی تو میں نے وہ ساری کہانی ڈان میں پڑھی ۔جس کو ندیم سعید نے لکھا اور اس موت کے عینی شاہد شکیل انجم کے انکشافات نے مجھے افسانہ لکھنے پر مجبور کر دیا ۔مسعود اشعر کہنے لگے اسی طرح ایچی سن کالج کے مرکزی گیٹ پر ملک کے نامور آئی سرجن ڈاکٹر علی حیدر کو ان کے جوان بیٹے سمیت قتل کر دیا گیا ۔تو مجھے اس نوجوان کا ملتان میں گزارا ہوا بچپن یاد آ گیا ۔اس کی ناگہانی موت نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا کہ میں نے اس نوجوان کو نشتر ہسپتال ملتان میں اپنے والد ڈاکٹر ظفر حیدر کی کوٹھی کے باہر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا تھا ۔ پھر جب مجھے لاہور میں اس کی قتل کی خبر ملی تو تب مجھ سے رہا نہ گیا۔اور میں نے اس سانحہ پر افسانہ لکھ دیا ۔
میں نے ان سے پوچھا کہ صحافت، ادب،مترجم اور تجزیہ نگار میں سے آپکو اگر ایک شعبہ کا انتخاب کرنا پڑے تو کس شعبہ کی طرف آئیں گے ۔ترت جواب آیا
میری پہلی اورآخری محبت صحافت ہے۔
اور جو صحافت میں نے ملتان میں کی ہے ۔وہ یاد گار ہے ۔کہ میں نے ملتان کے مدارس میں پہلی مرتبہ ان کی تقریبات کی کوریج فوٹو گرافی کے ذریعے کرائی ۔خواتین کالج اور ان کی سرگرمیوں کی کوریج کے لیے نوشابہ نرگس کو ملتان کی پہلی خاتون صحافی بنایا ۔بےشمار لوگوں کو صحافت کی راہ دکھائی ۔ملتان میں پریس کلب کے لیے جگہ مختص کرائ اور اس کا پہلا صدر بھی منتخب ہوا۔امروز میں نئے لکھنے والوں نہ متعارف کروایا ۔بلکہ ان کی تخلیقات کو ملک کے اہم پبلشرز سے کتابی صورت میں شائع کرایا ۔مسعود اشعر باتیں کر رہے تھے ۔ہم ملتان والے انھیں سن رہے تھے ۔
اسی کتاب میلہ میں دو سیشن ایسے تھے کہ ہم دونوں نے انہی سیشن میں بولنا تھا ۔ میں ان سے گزشتہ رابطہ میں رہا۔ پہلے ان کی اہلیہ کے انتقال پر ہوا۔تو وہ بہت دل گرفتہ تھے۔کہ کورونا کی وجہ سے وہ گھر میں قید رہ رہے تھے ۔انہی دنوں ان کا نیا افسانوی مجموعہ بھی منظر عام پر آیا ۔تو ان کو اس کی اشاعت پر مبارک باد دی اور ان کو مرتبہ دوبارہ ملتان آنے کا وعدہ یاد دلایا ۔تو انھوں نے اپنے محبوب شہر آنے کا وعدہ کر لیا ۔اسی دوران ملتان کے سابق ڈپٹی کمشنر عامر خٹک نے چوتھی ریشم دلان ملتان کانفرس کے انعقاد کا اعلان خالد مسعود خان ۔خواجہ جلال الدین رومی اور چوہدری ذوالفقار علی انجم کی موجودگی کر دیا ۔ملتان سے باہر مسعود اشعر ۔اصغر ندیم سید، بشری رحمان ۔بیرسٹر ظفر اللہ خان ۔روف کلاسرا اور مختار پارس کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ۔ان تمام پیاروں نے نہ صرف کانفرنس کے انعقاد سے قبل اپنے مضامین بجھوا دیئے ۔بلکہ ان مضامین کو چوھدری ذوالفقار علی انجم نے دبیز کاغذ پر خوبصورت انداز میں شائع بھی کروا دیا ۔مسعود اشعر نے اپنے مضمون میں نہ صرف ملتان میں گزرے دنوں کو یاد کیا ۔بلکہ مضمون کے آخر میں ایک واقعہ لکھ کر اپنی ملتان سے محبت کو امر کر دیا ۔ مسعود اشعر نے لکھا کہ ہمیں اپنے ڈاکٹر بیٹے سے ملنے انگلینڈ جانا تھا تو اسلام آباد میں انگلینڈ کے ویزا آفس پہنچ گئے ۔ان کے بیٹے نے خاص انتظار گاہ کا انتخاب تو کیا ۔لیکن وہ فیس ادا کرنا بھول گیا ۔ویزا کاونٹر پر جب کو بلایا گیا تو علم ہوا کہ بیٹا خاص انتظار گاہ کی فیس ادا کرنا بھول گیا ہے ۔تو برٹش ویزا آفس نے فوری طور پر دس ہزار روپے طلب کئے تو دونوں میاں بیوی کے سات ہزار برآمد ہوئے ۔اگر ہم پیسے لینے ویزا آفس سے باہر جاتے تو باری نکل جاتی ۔اسی پریشانی کو دیکھ کر ایک صاحب نے قریب آ کر اپنا تعارف کرایا کہ میرا تعلق ملتان سے ہے۔میں آپکی کیا مدد کر سکتا ہوں؟
تو مسعود اشعر نے کہا کہ مجھے کچھ رقم درکار ہے ۔جو لاہور جاتے ہی آپ کو بھجوا دوں گا۔تو اس صاحب کا نام سید مظہر عباس گردیزی تھا ۔جو معروف شاعر حیدر گردیزی کا قریبی عزیز تھا ۔
کورونا کی وجہ سے چوتھی ریشم دلان ملتان کانفرس کا انعقاد محدود پیمانے پر رہا ۔مسعود اشعر کو ان کے بچے گھر سے باہر نہیں آنے دیتے تھے ۔ اس لئے کانفرنس میں شرکت نہ کر سکے ۔البتہ انھوں نے گھر بیٹھ کر خوب لکھا اور کھل کر موجودہ حکومت کے مختلف اقدامات کا تجزیہ کرتے رہے۔ گزشتہ دنوں عطاء الحق قاسمی نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا ۔جس میں علالت کی وجہ سے نہ آسکے ۔البتہ چند دن بعد 5 جولائی 2021 کو ان کے انتقال کی خبر آ گئی ۔اخبارات میں ان انتقال کی خبر جس انداز اور جتنے حالات زندگی کے ساتھ شائع ہوئی ۔یہ سب کچھ دیکھ کر بہت دکھ ہوا ۔کہ جس شخص نےسینکڑوں صحافیوں کی تربیت کی ہو ۔تو جب انکے انتقال کی خبر بنانے کا معاملہ آیا تو سب اخبارات نے پانچ چھ سطری خبر چھاپ کر ان کا صحافتی قرض اتار دیا ۔کہ جس کی قابلیت کا ایک واقعہ (جو ڈاکٹر حنیف چوہدری نے اپنی تازہ کتاب درانتی کے ایک مضمون میں لکھا)پڑھ لیں اور اندازہ لگائیں کہ ہمارے درمیان سے کتنا بڑا شخض اٹھ گیا ۔اور وہ بے خبر ہی رہے۔
میں نے امروز کی نوکری کے دوران مسعود اشعر، اقبال ساغر صدیقی، منوبھائی، شفقت تنویر مرزا، حمید اختر اورہارون سعد سے بہت کچھ سیکھا ۔ایک دن ہمارے نیوز ایڈیٹر اقبال ساغر صدیقی نے ذوالفقار علی بھٹو کی سلامتی کونسل میں قرارداد پھاڑنے کی خبر ترجمہ کرنے کے لیے دی ۔اس میں ایک فقرہ تھا ۔
I don’t believe in political cosmetics
اس جملے کا ترجمہ کرتےہوئے میں الجھ گیا ۔ڈیسک پر موجود اپنے سینئر جونیئر سے پوچھا ۔لاہور امروز کے دفتر رابطہ کیا ۔تو سب نے کہا کہ دفعہ کرو، کیا مصبیت ہے۔
لیکن میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی ،کہ آخر ذوالفقار علی بھٹو کی کہی ہوئی بات میں کوئی تو معنی ہوں گے تو رات کے ایک بجے مسعود اشعر کو فون کیا ۔سوتے میں ان کو جگایا اور کہا کہ میں حنیف چوھدری بول رہا ہوں ۔اس فقرہ کا ترجمہ نہیں ہو پا رہا ۔انھوں نے کہا کہ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے لکھ دو،
میں سیاسی لیپا پوتی پر یقین نہیں رکھتا ۔
(بشکریہ :روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ