چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ لاہور سے ایکسپریس کے فورم ایڈیٹر اجمل ستار ملک کا فون آیا کہ شاکر بھائی مَیں اگلے ہفتے ملتان آ رہا ہوں۔ ملتان کے ڈرامہ نگاروں کے ساتھ ایک فورم رکھنا ہے۔ آپ میرے فوکل پرسن کے طور پر ڈرامہ لکھنے والوں سے رابطہ کریں۔ ملتان اور اس کے نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو ایکسپریس فورم میں شرکت کی دعوت دیں۔ فورم کے متوقع شرکاء کی فہرست بنائی گئی تو ان میں اپنے کام کے حوالے سے ایک ایسی شخصیت کا تقریباً سب دوستوں نے تذکرہ کیا کہ اگر اس فورم میں قیصر ملک ملتان آ جائیں تو آپ کا فورم اچھا ہو جائے گا۔ مَیں نے رضی کے ذمہ لگایا کہ وہ قیصر ملک کا فون نمبر کہیں سے معلوم کریں۔ کچھ ہی دیر میں رضی نے مجھے ان کا نمبر ایس۔ایم۔ایس کر دیا۔ مَیں نے اگلے لمحے قیصر ملک کو فون کیا تو فون کرتے ہوئے میرے ذہن میں گورے چٹے شخص کا نقشہ ابھر آیا۔ ابھی مَیں قیصر ملک کے ”ہیلو“ کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں ان کی آواز آئی ”ہیلو“ مَیں نے ہیلو کے جواب میں فوراً اپنا تعارف کرایا۔ تو کہنے لگے آپ کو تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مَیں آپ کا کالم باقاعدگی سے ایکسپریس میں پڑھتا ہوں۔ مَیں نے اپنا حرفِ مدعا بیان کیا تو کہنے لگے آپ کو تو معلوم ہے مَیں اب کسی جگہ آتا جاتا نہیں لیکن مَیں ایکسپریس فورم میں تب آؤں گا جب آپ میرے ساتھ دفتر میں آ کر چائے پئیں گے۔ مَیں نے دفتر کا راستہ پوچھا تو کہنے لگے حسن پروانہ کالونی ملتان میں روزنامہ حق کے دفتر میں میرا ڈیرہ ہے۔ آپ جب بھی آنا چاہیں تو فون کر کے تشریف لے آئیں۔ مَیں نے اجمل ستار ملک کے حکم کی تعمیل کرنا تھی۔ سو قیصر ملک کی چائے تو اب مجھ پر لازم ہو گئی۔
قارئین کرام! آپ پریشان نہ ہوں مَیں آپ کو قیصر ملک کا تعارف کرائے دیتا ہوں۔ قیصر ملک ملتان جنوبی پنجاب کی نامور تہذیبی، ثقافتی، ادبی اور علمی شخصیت تھے (جن کا انتقال 8 اپریل 2017ء کو ملتان میں ہوا)۔ طالب علمی کے زمانے میں شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو آغاز سرائیکی ڈوہڑا کہہ کر کیا۔ جس طرح سیّد محسن نقوی ابھی ایمرسن کالج ملتان کے متعلم تھے تو ان کا پہلا شعری مجموعہ ”بندِ قبا“ کے نام سے آ گیا اسی طرح قیصر ملک کا پہلا شعری مجموعہ ”ڈوہڑا جاتِ قیصری“ بھی زمانہ طالب علمی میں آ گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تعلیمی اداروں میں موسیقی کی محافل اور تھیٹر ڈرامہ باقاعدگی سے ہوتے تھے۔ کالجز کی سطح پر پورا سال بین الکلیاتی تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا جن میں مشاعرے، تقریری مقابلے، موسیقی کے مقابلے، ڈرامے اور دیگر تقریبات شامل ہوتی تھیں۔ کالج کے زمانے میں قیصر ملک نے احمد شاہ ابدالی پر ڈرامہ لکھ کر اسے گورنمنٹ مسلم ہائی سکول کے سٹیج پر پیش کیا تو ان کی پورے ملتان میں تحسین کی گئی۔ اس ڈرامے کے بعد قیصر ملک باقاعدہ تھیٹر اور ڈرامہ نگاری کے شعبہ میں آگئے۔ انہی کے ڈرامے میں فلمسٹار اقبال حسن مرحوم کی منہ دکھائی بھی ہوئی۔ ریڈیو کے ساتھ وابستہ ہوئے تو لاہور ریڈیو سے موہنی حمید اور سلطان کھوسٹ نے ان کے ڈرامے میں اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ یہ شہرت تو اپنی جگہ ہے لیکن ان اصل پہچان سرائیکی زبان کی پہلی فلم ”دھیاں نمانیاں“ بنی۔ اس فلم میں قیصر ملک نے نہ صرف گیت تحریر کیے بلکہ کہانی اور مکالمے بھی خود تحریر کیے۔ باکس آفس پر اس فلم کو بہت کامیابی ملی۔ اس کی بے شمار وجوہات تھیں کہ سب سے پہلی بات تو یہی ٹھہری یہ سرائیکی کی پہلی فلم تھی۔ اداکاروں میں افضال احمد، عنایت حسین بھٹی، خانم، اسد بخاری، صاعقہ اور ننھا شامل تھے۔ اس فلم کے گیت آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
قیصر ملک نے سرائیکی، اُردو اور پنجابی فلموں کے گیت کہے اور سکرپٹ بھی لکھے۔ ان کے گیتوں کی دھنیں بابا جی۔اے چشتی، ماسٹر عنایت حسین، خواجہ خورشید انور، وجاہت عطرے اور دیگر نامور موسیقاروں نے ترتیب دیں۔ جبکہ ان کے گیت گانے والوں میں ملکہ ترنم نورجہاں، مہدی حسن، ناہید اختر، مہناز، ثریا ملتانیکر، شوکت علی، عنایت حسین بھٹی وغیرہ شامل ہیں۔ اتنی شہرت کے باوجود ان کے ہاں جو انکساری تھی وہ آج کل کے نامور لوگوں میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔ بہرحال تمام باتیں اور ان کی ذات سے وابستہ شہرت اپنی جگہ پر ہے لیکن ان سے پہلی ملاقات کے بعد میرے ذہن میں ان کی شخصیت کا بہت ہی خوبصورت تاثر بیٹھ گیا۔ جب مَیں ان کو ڈرامے اور تھیٹر کے حوالے سے ایکسپریس فورم میں شرکت کا دعوت نامہ دینے ان کے دفتر گیا۔ مخدوش عمارت کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے خوف لگا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مَیں کسی بھوت بنگلے کی سیر کو جا رہا ہوں۔ جیسے جیسے مَیں قیصر ملک کے دفتر کی طرف قدم بڑھا رہا تھا خوف میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ٹوٹی پھوٹی عمارت میں ایک چھوٹے سے صحن میں ایک کمرے کا دروازے دکھائی دیا۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ کمرے میں بیٹھا شخص مجھے صاف دکھائی نہ دیا۔ مَیں نے کمرہ میں داخل ہوتے ہی السلام علیکم کا نعرہ بلند کیا۔ جب میرے نعرے کا کسی خوبصورت آواز نے جواب دیا تو مَیں جان گیا کہ مجھ سے بات کرنے والا شخص قیصر ملک ملتانی ہے۔ کمرے میں ایک دیوار پر شیلف تھا جس میں بے شمار کتابیں موجود تھیں۔ قیصر ملک کے سامنے صرف ایک اخبار ایکسپریس موجود تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے آپ کا دعوت نامہ تب قبول کروں گا جب آپ چائے کا ایک کپ میرے ساتھ پئیں گے۔ مَیں نے چائے پینے سے معذرت کی تو کہنے لگے اچھا میرے فریج میں کولڈ ڈرنک موجود ہے انہوں نے اپنے ملازم کو بوتل لانے کو کہا تو مَیں نے گلے کی خرابی کا بتایا تو کہنے لگے قیصر ملک ملتانی کے ڈیرے پر کوئی شخص لنگر کھائے بغیر نہیں جا سکتا۔ اچھا یوں کریں آپ جاتے وقت اپنے ساتھ اچار کی یہ بوتل لے جائیں کہ یہ اچار آج ہی میرا مداح دے کر گیا ہے۔ میرے گھر میں اچار موجود ہے۔ مَیں نے ان سے کہا کسی تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن وہ بضد رہے۔ آخرکار انہوں نے اچار پیک کر کے میرے سامنے رکھ دیا۔ دوسری طرف مَیں اپنی تقریب میں انہیں مدعو کرنے کے لیے بے چین تھا۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ ایکسپریس ملتان میں ڈرامے کے موضوع پر فورم کرنے جا رہا ہے۔ آپ کی موجودگی اس لیے ضروری ہے کہ قیصر ملک ڈرامہ، فلم اور تھیٹر کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے۔ ہنس کر کہنے لگے آپ کی مہربانی ہے مجھے ایکسپریس فورم میں دعوت دینے کے لیے میرے تنگ و تاریک دفتر میں آئے ورنہ میری تو آج کل یہ صورتِ حال ہے کہ اس شہر میں موجود میرے دوست مہینوں میری خبر نہیں لیتے۔ معلوم نہیں آپ بار بار مجھے فورم میں آنے کے لیے اصرار کیوں کر رہے ہیں؟ مَیں نے انہیں بتایا کہ قیصر ملک ملتانی ہمارے ملک کی فلم انڈسٹری کا بڑا اور قابل صد احترام نام ہے۔ سو اس لیے آپ مہربانی کیجئے گا۔ ایک گھنٹہ کی نشست میں ان سے بے شمار باتیں ہوئیں اور پھر ایک دن اجمل ستار ملک ایکسپریس اِنک کے تحت ڈرامہ پر فورم کرنے کے لیے ملتان آئے۔ ملتان ٹی ہاؤس کا سٹیج ڈرامہ نگاروں سے سج گیا۔ لیکن اس میں ایک کرسی خالی تھی۔ اجمل ستار ملک نے کہا یہ خالی کرسی کس کی ہے؟ مَیں نے کہا قیصر ملک ملتانی کی۔ کب آئیں گے؟ انہوں نے پوچھا۔ مَیں نے کہا انہوں نے بروقت آنے کا وعدہ تو کیا تھا۔ ہم نے فورم کا آغاز کر دیا۔ سٹیج پر خالی کرسی خالی ہی رہی کہ مجھے یقین تھا کہ قیصر ملک ملتانی لازمی آئیں گے۔ فورم آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا لیکن قیصر ملک ملتانی کا دور دور تک پتہ نہ تھا کہ اچانک ملتان ٹی ہاؤس کے ہال میں قیصر ملک ملتانی داخل ہوئے تو مَیں بجلی کی رفتار کی طرح سٹیج سے اترا۔ قیصر ملک کو خوش آمدید کہا اور سٹیج پر موجود خالی کرسی پر ان کو بٹھایا۔ مائیک پر اعلان کیا قیصر ملک ملتانی کے آنے سے ہمارے فورم کا کورم مکمل ہو گیا ہے تو ہال میں موجود تمام شرکاءنے تالیاں بجا کر خوش آمدید کہا۔ اس فورم میں قیصر ملک ملتانی نے ماضی اور حال کے ڈراموں کا تجزیہ پیش کیا۔ فورم کے بعد چائے کی میز پر ہم گپ شپ کرتے رہے اور پھر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
9 اپریل 2017ء کی صبح دس بجے مَیں اپنے گھر سے چیمبر آف کامرس ملتان روانہ ہوا۔ جہاں مجھے لالہء صحرائی کی تین کتابوں کی تقریبِ رونمائی میں نظامت کرنا تھا۔ صدارت ڈاکٹر اسلم انصاری جبکہ مہمانانِ خصوصی میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر ریاض مجید، نصیر احمد سلیمی، خواجہ رضی حیدر، مخدوم جاوید ہاشمی، اجمل سراج و دیگر احباب تھے۔ تقریب ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوئی۔ تو تقریباً 12:30 بجے برادرم قاسم رضا کا برقی پیغام آیا کہ قیصر ملک کا جنازہ آج دوپہر دو بجے قبرستان پیر عمر میں ادا کیا جائے گا۔ مَیں نے وقت دیکھا تو جنازے میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ جبکہ تقریب ابھی آدھی ہی مکمل ہوئی تھی۔ بطور سٹیج سیکرٹری مَیں تو جاوید ہاشمی کو تقریر مختصر کرنے کا کہہ سکتا تھا اور نہ ہی صدرِ محفل کو۔ قصہ مختصر جب تقریب ختم ہوئی تو میرا خیال ہے کہ مولوی نے جنازہ پڑھانے کے بعد ان کے رسمِ قل کا بھی اعلان کر دیا ہو گا جو مجھ تک نہیں پہنچا۔ البتہ 9 اپریل سے لے کر اب تک مَیں نے کئی مرتبہ سوچا کہ قیصر ملک کے فون پر رابطہ کر کے ان کے گھر جاؤں لیکن یہ سوچ کر نمبر نہیں ملایا کہ اگر ان کا نمبر بند ہوا تو ان کو فون کرنے کی جو موہوم سی اُمید ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ مَیں قیصر ملک کے موبائل پر ڈائل کرنے کی خواہش کو تب تک زندہ رکھوں گا جب تک میرا دل تسلیم نہیں کرے گا کہ وہ ہم میں سے اُٹھ کر ایسے جہان چلے گئے ہیں جہاں سے کسی کی کوئی خبر نہیں آتی۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ