جب سے ستمبر کا آغاز ہوا ہے تب سے سوچ رہا ہوں کہ پروفیسر حسین سحر کی پہلی برسی (15 ستمبر) پر کالم کا آغاز کیسے کروں۔سمجھے نہیں آ رہا ہے کہ کالم کا تانا بانا کس طرح بُنا جائے کہ حسین سحر کی یاد بھی تازہ ہو جائے اور آنکھیں بھی نہ چھلکیں۔اسی خیال میں کئی دن گزر گئے لیکن کالم کے لیے پہلی لائن نہیں مل رہی۔ بڑی مشکل آن پڑی ہے ایسی کیفیت کبھی نہیں ہوتی۔ اس کی شاید یہ وجہ ہے کہ ان کا میرا ساتھ اتنا ہی پرانا ہے جتنی میری زندگی ہے۔ رشتے میں وہ میرے چچا اور خالو تھے لیکن مَیں نے ان کو ہمیشہ اپنے استاد کا درجہ دیا۔ گھر میں اگر ان کے ہمراہ ہوتا تو وہ سب سے الگ تھلگ ہو کر مجھ سے محو کلام ہوتے کہ ہم دونوں نے خاندانی معاملات کے علاوہ دنیا جہان کے تمام موضوعات پر بات چیت کرنا ہوتی تھی۔ وہ نامور شاعر، ادیب، ماہر تعلیم، نقاد، مرثیہ گو، نعت گو اور بچوں کے ادیب و شاعر تھے لیکن وہ اپنی تمام کتب کو ایک طرف رکھ کر کہتے کہ میری بخشش کے لیے میرا کیا ہوا منظوم ترجمہ قرآن ہی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے زندگی کے آخری 25 برسوں میں انہوں نے دینی ادب پر زیادہ توجہ دی۔
پروفیسر حسین سحر اس لحاظ سے بہت خوش قسمت تھے کہ انہوں نے زندگی میں جس چیز کی خواہش کی وہ خواہش ان کے بچوں نے پوری کر دی۔ ان کی سب سے اہم خواہش یہی ہوتی تھی کہ سال میں ایک کتاب لازمی منظر عام پر آ جائے۔ یوں ان کی یہ خواہش ان کے مرنے کے بعد بھی بچوں نے ان کی خود نوشت ’’شام و سحر‘‘ پہلی برسی پر شائع کر کے پوری کی۔
وہ اُردو ادب کے استاد تھے۔ جس وجہ سے ان کے شاگر پورے ملتان تو کیا پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے کہ انہوں نے پوری زندگی سوائے پڑھانے اور ادب تخلیق کرنے کے اور کچھ نہیں کیا۔ ان کاموں میں اتنے مصروف رہے کہ نہ ان کو پوری زندگی گاڑی چلانی آئی اور نہ ہی موٹر سائیکل۔ اس کے باوجود وہ پورے شہر میں متحرک دکھائی دیتے۔ کالج کے زمانے میں اگرچہ ہمارے استادِ محترم پروفیسر انور جمال ہوتے تھے لیکن مَیں اکثر حسین سحر کا لیکچر سننے کے لیے ان کی کلاس چلا جاتا کہ ان کے پاس دنیا جہان کی جو معلومات ہوتی تھیں وہ سب کچھ اپنے لیکچر کے دوران بیان کر دیتے۔ ان کی گفتگو سے کبھی کسی کو بور ہوتے نہیں دیکھا۔ جس موضوع پر وہ بات کرنا چاہتے ان کے پاس اُس موضوع پر اتنی معلومات ہوتیں کہ اپنے بیان کرنے کی خوبصورت صلاحیت کے ذریعے مزید دلچسپ بنا دیتے۔ ملتان کی سیاست، ثقافت اور ادب کا وہ چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ ہر شخص کے بارے میں ان کے پاس اتنی معلومات ہوتیں کہ یوں لگتا جیسے انہوں نے ملتان کے لوگوں کو حفظ کر رکھا ہے۔ ان میں یہ خوبی اس لیے تھی کہ وہ پاکستان بنتے ہی ملتان آ گئے تھے اور ملتان سے محبت کا اظہار کچھ یوں بھی ہوا کہ مرنے کے بعد ان کو ملتان کی مٹی ہی نصیب ہوئی۔
حسین سحر 10 اکتوبر 1942ء کو ضلع فیروزپور کے ایک قصبے جلال آباد میں پیدا ہوئے اور پاکستان بنتے ہی بھارت سے قصور پہنچ گئے۔ مارچ 1948ء میں ملتان آئے اور تادمِ مرگ اسی شہر سے محبت کرتے رہے۔ پرائمری کے زمانے سے ہی انہوں نے بچوں کے لیے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ انہی دنوں ان کی ملاقات نامور شاعر اقبال ارشد سے ہوئی جو بعد میں ایک ایسے رشتے میں تبدیل ہوئی کہ دونوں ہر جگہ پر لازم و ملزوم سمجھے جانے لگے۔ 1956ء میں بزمِ طلوعِ ادب کے تحت ٹاؤن ہال گھنٹہ گھر ملتان میں زندگی کا پہلا مشاعرہ پڑھا جبکہ آخری مشاعرہ اپنی موت سے چار دن پہلے ملتان لاء کالج میں پنجابی اکیڈمی میں پڑھا۔ اقبال ارشد کا ذکر آ گیا ہے تو حسین سحر کے ہم نوالہ و ہم پیالہ کا بھی احوال سن لیں کہ میری ان آخری ملاقات تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ اقبال ارشد اپنی یادداشت کھو بیٹھے ہیں۔ وہ اقبال ارشد جس نے درج ذیل مشہور ز مانہ شعر کہا تھا:
تو اسے اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنا
چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے
اقبال ارشد کو اب یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ شعر ان کا اپنا ہے اور تو اور یہ بھی یاد نہیں حسین سحر 15 ستمبر 2016ء کو انتقال کر گئے تھے۔ مَیں پوچھا اقبال بھائی سحر صاحب سے آخری ملاقات کب ہوئی تو کہنے لگے یاد نہیں آخری بار کب سحر آیا۔ سحر جہاں ہے موج کرے۔ اگر وہ مجھ سے ملنے نہیں آتا تو کوئی بات نہیں۔ وہ مصروف آدمی ہے کوئی بات نہیں۔
ملتان کے ادبی منظرنامے میں ان دونوں نے تقریباً 60 برس تک رنگ بھرے۔ حسین سحر اور اقبال ارشد نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ نثر لکھی، تقریبات کرائیں، ادبی رسائل جاری کیے، بچوں کے لیے شاعری کی، ریڈیو کے لیے ڈرامے اور فیچر لکھے۔ غرض یہ کہ انہوں نے ملتان میں سب سے پہلے کسی کتاب کی تقریب رونمائی کرائی۔ ملتان میں پہلا نعتیہ مشاعرہ بھی انہی کے حصے میں آیا یہ دونوں منتظمین میں شامل تھے۔ حسین سحر شاعری کے اتنے شوقین تھے کہ جب یکم جنوری 1962ء کو اپنی بارات لے کر لائل پور گئے تو وہاں کے شعراء ریاض مجید کو اطلاع کر دی کہ اب میرا آپ کے شہر میں باقاعدگی سے آنا جانا رہے گا۔ ولیمہ کے بعد مکلاوے پر لائل پور گئے تو ریاض مجید نے دولہا کے اعزاز میں شادی کی خوشی میں مشاعرہ کر ڈالا۔ اپریل 2017ء میں اسلام آباد میں جب ڈاکٹر ریاض مجید سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حسین سحر کو یاد کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ان کی اہلیہ کا نام ہدایت بیگم تھا جو بعد میں ثمینہ بیگم میں تبدیل ہو گیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے زیادہ وقت اپنے بیٹوں کے ساتھ گزارا۔ پاکستان موسمِ سرما میں آتے تو اپنے ساتھ کسی نہ کسی کتاب کا مسودہ ضرور لاتے۔ اسی آنکھ مچولی میں انہوں نے ایک یہ فیصلہ کیا کہ وہ مستقل ملتان میں رہیں گے۔ اب ان کے دن کبھی ملتان اور کبھی اسلام آباد میں گزرنے لگے۔ اگست 2015ء میں انہوں نے اپنے پوتے کی شادی میں شرکت کی اور 14 ستمبر کو ان کی اہلیہ کا اچانک انتقال ہو گیا۔ شریک حیات کی موت کا صدمہ انہیں موت کے قریب کرتا گیا۔ اس دوران ایک مرتبہ جب وہ ڈاکٹر سیّد ابوالحسن نقوی کے گھر سالانہ محفلِ مسالمہ میں سلام پڑھ رہے تھے کہ سلام کے اشعار پڑھتے پڑھتے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ہاتھ کانپنے لگے۔ مَیں نظامت کر رہا تھا انہیں فوراً پانی دیا لیکن اس کیفیت کے بعد انہوں سٹیج چھوڑ دیا۔ یہ واقعہ ان کی اہلیہ کے انتقال کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد کا ہے۔ چچی جان کی جدائی کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ہر وقت ان کی یادوں میں کھوئے رہتے کہ اپنی اہلیہ کی برسی کے ایک دن بعد (جس دن ان کی اہلیہ کی تدفین ہوئی) علی الصبح دل کا دورہ پڑا اور انتقال کر گئے۔
پوری زندگی ہر محفل کو گل و گلزار بنانے والے حسین سحر اپنی زندگی کے آخری سال ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ تمام بچوں نے پورا سال دلجوئی کی لیکن اب ان کا دنیا میں جی نہیں لگ رہا تھا کہ ستمبر کی ایک صبح خاموشی سے دنیا چھوڑ گئے۔ جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ پہلی برسی پر جب ان کی لکھی ہوئی سوانح ’’شام و سحر‘‘ شائع ہوئی تو ملتان ٹی ہاؤس میں ایک بار پھر وہی منظر تھا جو اُن کی موت کے بعد اسی جگہ پر ریفرنس کے موقع پر تھا۔ تقریب میں موجود ہر شخص کی آنکھ پُر نم تھی۔ تلاوت کی جگہ پر ان کی آواز میں قرآن پاک کا ترجمہ سنوایا گیا تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ ابھی ہال میں آ جائیں گے اور اپنی خود نوشت دیکھ کر اپنے بیٹوں مہزاد اور شہزاد کو داد دیں گے۔ لیکن یکم ستمبر 2017ء کو ملتان ٹی ہاؤس کے آڈیٹوریم میں محبانِ سحر ان کے بیٹوں کو داد دے رہے تھے کہ انہوں نے یہ کتاب شائع کر کے اہلِ ملتان پر احسان کیا ہے اور مَیں تقریب میں آخری نشستوں پر بیٹھے اس دن بھی ہال کے دروازے پر نظریں لگائے ہوئے تھا کہ وہ ابھی تقریب میں آ جائیں گے مَیں ان کو سٹیج تک لے جاؤں گا اور پھر ایسے میں۔۔۔۔۔۔ قارئین کرام آپ مجھے بتائیں مَیں حسین سحر کی پہلی برسی پر کالم کیسے لکھ سکوں گا کہ مَیں نے ابھی تک ان کی موت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ سو یہ کالم بغیر کسی آغاز کے ختم ہو رہا ہے جس طرح 15 ستمبر 2016ء کو جب سحر صاحب نے انتقال کیا تو صبح صادق کو مجھے ملتان کے ادبی منظرنامے کی شام ہوتی دکھائی دی۔ یہ کالم بھی اپنی شام کی طرف بڑھ رہا ہے کہ سحر کے بعد شام تو لازمی ہونی ہوتی ہے۔