ابھی ان کی بینائی ختم نہیں ہوئی تھی ۔ ابھی ان کے قہقہے دور تک سنائی دیتے تھے ۔ لیکن ان کے قہقہے تو ان کی بینائی ختم ہونے کے بعد بھی سنائی دیتے رہے کہ قہقہے بصارت کے محتاج تو نہیں ہوتے ۔ جب میں نے انہیں پہلی بار بابا ہوٹل میں دیکھا ۔ یہ 1983 کی کوئی شام تھی جب میں اطہر ناسک اور طفیل ابن گل کے ہمراہ نواں شہر چوک میں بابے کے ہوٹل پر گیا تھا ۔ اقبال ارشد نے ہوٹل کے دروازے پر آ کر دونوں ہاتھ اپنی دونوں آنکھوں پر اس طرح رکھے جیسے ہم دھوپ میں کسی کو پہچاننے یا دیکھنے کے لیے اپنی آنکھوں پر اپنے ہاتھوں کا سایہ کر لیتے ہیں ۔ پھر انہوں نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور ,, کوئی ہے ؟ .. کا نعرہ بلند کیا ۔
حیدر گردیزی اس محفل کی مرکزی شخصیت ہوتے تھے ۔ اور ان کے ساتھ ارشد ملتانی ، اصغر علی شاہ ، انور جمال ، ڈاکٹر امین ، عامر فہیم ، قمر الزماں بٹ ، صادق خان خاکوانی ، نوجوانوں میں وقار عظیم ، اختر شمار ، اقبال ناظر بلوچ ، خالد اقبال ، بابا ہوٹل کی رونق میں اضافہ کرتے ۔ کبھی الو چائے کا تقاضہ ہوتا تو کبھی باندر سلائیس شامیوں کے ساتھ منگوا کر کوفیوں کا ذکر کیا جاتا ۔اسی ہوٹل پہلی بار اقبال ارشد نے اپنا مشہور زمانہ شعر سنایا تھا ۔
تو اسے اپنی تمناوں کا مرکز نہ بنا
چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے
یہ شعر میں نے ساتویں آٹھویں جماعت کے دوران پڑھا لیکن مجحے اس کے خالق کا نام معلوم نہیں تھا ۔ جب مجھے پتا چلا کہ میں اپنے پسندیدہ شعر کے خالق کے ساتھ روز بیٹھتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔ انہی دنوں انہوں نے اپنا شعری مجموعہ شائع کرایا تو اس کا نام ٫٫ نظر انداز ،، رکھ دیا ۔ میں نے حیرت سے پوچھا کتاب کا نام ٫٫ چاند ہرجائی ہے ،، کیوں نہیں رکھا تو اقبال بھائی نے بتایا اس کتاب کا نام حسین سحر نے تجویز کیا ہے اور اس کتاب میں تو وہ غزل بھی شامل نہیں ۔ پھر یوں ہوا کہ ٫٫ نظر انداز کا شاعر واقعی نظر انداز ہو گیا ۔۔
بابا ہوٹل میں شام دن کی طرح اترتی تھی ۔ یہاں قاتلان شب جمع ہوتے اور اپنے اپنے جیون میں پھیلی ہوئی تاریکیاں ختم کرنے کی سعی کرتے ۔ پھر کوئی آٹھ نو بجے کے قریب روانگی کا وقت آتا تو ہم اقبال بھائی کی قیادت میں گھنٹہ گھر کی طرف روانہ ہوتے کہ انہیں دولت گیٹ سے پیراں غائب روڈکی ویگن ملتی تھی ۔ یہ تمام راستہ قہقہے لگاتے مصرعے لگاتے اور اطہر ناسک کی کہانیاں سنتے ایسے کٹتا کہ جیسے کوئی فاصلہ تھا ہی نہیں ۔ اس دوران کبھی تو ہم رک کر اطہر ناسک کی کسی خوبصورت کہانی پر ہنستے ہنستے ایسے دوہرے ہو جاتے کہ ہماری آنکھوں سے پانی بھی نکلنے لگتا ۔ کہ ان دنوں ہماری آنکھوں سے پانی صرف قہقہوں کے دوران ہی نکلتا تھا ۔ یہ برسات کا زمانہ تو بہت بعد میں آیا ۔ پھر طفیل ہنستے ہنستے کسی جگہ بیٹھ جاتے ۔
.. سید بادشاہ بس کر اپنی کہانیاں ، کچھ تو خدا کا خوف کر ،، اور ناسک کوئی اور کہانی شروع کر دیتا ۔ دولت گیٹ سے اقبال ارشد کے ساتھ طفیل ابن گل اور اختر شمار بھی ویگن میں سوار ہو جاتے اور میں اطہر ناسک کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کرتا ۔ واپسی ہماری سائیکل پر ہوتی تھی جو میں مسلسل اپنے ساتھ بابا ہوٹل سے گھسیٹتا ہوا لایا تھا ۔ وہ ہر کولیس سائیکل تھا ۔یہ میرے والد مرحوم کا سائیکل تھا ۔ جب ابدالی روڈ پر وہ حادثے کا شکار ہوئے تو سائیکل بچ گیا تھا ۔ جسے بعد میں مرمت کرا کے میرے حوالے کر دیا گیا تھا ۔ یہ عام سائیکل کے مقابلے میں اونچا تھا اس لیے اسے چلانا ناسک کے بس کی بات بھی نہیں تھی ۔ دولت گیٹ سے میں اطہر ناسک کو لے کر پہلے اس کے گھر قدیر آباد جاتا اور پھر اپنے گھر کی راہ لیتا ۔
چار ستمبر کو دن بھر ہم نے اقبال بھائی کی چھٹی برسی پر انہیں یاد کیا اور رات کے اس پہر جب دو بج چکے ہیں مجھے اقبال ارشد ہی نہیں وہ سب دوست یاد آ رہے ہیں جن کے ساتھ رہ کر میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکلتے تھے ۔ اطہر ناسک کی جدائی کو بارہ برس بیت گئے ۔ طفیل ابن گل اکیس برس قبل مجھے چھوڑ گئے ۔ اختر شمار کی جدائی کے بھی دو سال مکمل ہو گئے اور اب ہماری جان پہ بھاری ہے غم کا افسانہ ۔ میں کہ اسی کہاںی کا ایک کردار ہوں ۔
فیس بک کمینٹ