پسند اپنی اپنی ہوتی ہے مجھے ذاتی طور پر اپنے گھر کا آئینہ بہت پسند ہے اسے خریدتے ہوئے اللہ جانے مجھے کیوں یقین تھا کہ کم از کم یہ میرے بارے میں سچ ضرور بولے گا اور ایسا ہی ہوا چنانچہ میں جب صبح صبح آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں تو اپنی خوبصورتی پر عش عش کر اٹھتا ہوں۔ مجھے خود پر عامرخان ہونے کا گمان گزرتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو قطرینہ کیف بھی لگتا ہوں۔ مجھے اپنے حسن وجمال کے بیان کے لئے یہ ناکافی مثالیں دینا پڑی ہیں کہ بدقسمتی سے پاک و ہند میں بچی کھچی خوبصورتی بس اتنی ہی ہے۔ بہرحال آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر میں اپنے مد بھرے نین دیکھتا ہوں تو بے اختیار میری زبان سے اللہ کی حمدوثناء جاری ہو جاتی ہے جس نے صناعی کا یہ کمال دکھایا۔ اپنی ستواں ناک اپنے گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ اور اپنی کشادہ پیشانی دیکھ کر میں سوچنے لگتا ہوں کہ میں کس منہ سے خدا کا شکر ادا کروں۔ صرف یہی نہیں بلکہ میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر مختلف حرکات و سکنات کرتا ہوں جسے دوسرے لفظوں میں ادائیں دکھانا بھی کہا جاتا ہے اورپھر میں خود ہی اپنی ادائوں پر قربان ہونے لگتا ہوں۔ میں اس موقع پر شیرینی گفتار کا مظاہرہ بھی کرتا ہوں اور مجھے لگتا ہے میرے منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں۔میرا آئینہ میری عمر بھی صحیح بتاتا ہے یہی کوئی تئیس چوبیس سال اپنا صحت مند سراپا دیکھ کر بھی میں نظربد سے بچنے کی دعا مانگنے لگتا ہوں، سرخ وسپیدرنگ، ابھرے ہوئے ڈولے، تنا ہوا سینہ اور چھ فٹ قد، مجھے لگتا ہے میں خود پر عاشق ہو جائوں گا مگر اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو کہ ان دنوں عشق بھی بہت مہنگا ہے۔
دوسری طرف جب میں آئینے سے دور گھر سے باہر قدم رکھتا ہوں تو مجھے حاسدانِ شہر کے رویے پر بہت دکھ ہوتا ہے مثلاً جب میں بس میں سوار ہوتا ہوں تو بظاہر اس قماش کے لوگ میرا احترام کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’بابا جی کو جگہ دو، دراصل ان سے میری جوانی دیکھی نہیں جاتی۔ان لوگوں کو میرے چہرے کا ہر نقش اور میرا سارا سراپا بے ڈھنگا لگتا ہے۔ وہ میری ناک کو طوطے کی ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں بزرگو ذرا اپنی ناک آگے کریں میں نے کوٹ ٹانگنا ہےیہ لوگ میرے چہرے کو نونمبرکے جوتے سے تشبیہ دیتے ہیں ، میری کشادہ پیشانی انہیں ’’رڑا میدان‘‘لگتی ہے۔ان اندھوں کو یہ چھ فٹ قد بھی چار فٹ سے زیادہ نہیں لگتا، میرے سرخ وسپید چہرے کو دیکھ کر انہیں شب دیجور یاد آنے لگتی ہے، میرے گھنگھریالے بال انہیں نظرہی نہیں آتے چنانچہ وہ میرے سر کو سائبیریا قرار دیتے ہیں۔ جب میں محسوس کرتا ہوں کہ حاسدان ِشہر کا ہمنوا ہر وہ شخص ہے جو مجھے دیکھتے ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے تو کبھی کبھار میں خود بھی شک میں مبتلا ہو جاتا ہوں چنانچہ سارے کام ادھورے چھوڑ کر فوراً گھر کی طرف چل پڑتا ہوں اور آئینے کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہوں اور مجھے یہ دیکھ کر بے پناہ خوشی ہوتی ہے کہ آئینہ میرے بارے میں وہی رائے دیتا ہے جو رائے میں نے اپنے بارے میں قائم کی ہوتی ہےمگر کسی اور طرف سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ میرا ایک شاعر دوست میرے سامنے کئی دفعہ اپنا یہ دکھڑا رو چکا ہے کہ لوگ اسے وہ مقام تک نہیں دیتے جو وہ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، ناصر کاظمی، احمد فراز اور جون ایلیا وغیرہ کو دیتے ہیںجبکہ ان کا آئینہ ان کی شاعری کا موازنہ میر، غالب اور اقبال سے کرنےلگتا ہے جو اگرچہ اسے اچھا نہیں لگتا کہ وہ انہیں اپنے قد کے برابر نہیں سمجھتا لیکن اپنی کشادہ دلی اور وسیع النظری کی بنا پر وہ اس کی رائے کا احترام کرتا ہے۔
کچھ اس طرح کا معاملہ زندگی کے مختلف شعبوں کے ان افراد کا بھی ہے جنہوں نے اپنے مقام و مرتبہ کی تشخیص اپنے اپنے آئینے کی رائے کے مطابق کر رکھی ہے۔ ان میں سیاست دان بھی ہیں، علماء بھی، اسکالر بھی، صحافی بھی، موسیقار، گلوکار اور اداکار بھی ہیں۔ بس ایک ان کا آئینہ ہے جو ان کے مقام اور مرتبے کو پہچانتاہے لیکن بدخواہوں کی بدخواہی کا یہ عالم ہے کہ جب یہ گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو ان کے لئےعلاقہ غیر شروع ہو جاتا ہے۔ میں ایک دن اسلام آباد گیا وہاں جو صورتحال میں نے دیکھی آپ یقین جانیں میں اپنا اور اپنے ان تمام دوستوں کا دکھ بھول گیا جن کا ذکر میں نے اس کالم میں کیا ہے۔ وہاں میری ملاقات اکابرین اور عمائدین سے ان کے دفاتر میں ہوئی جن میں ہر طرف آئینے لگے ہوئے تھے اور یہ سب آئینے ان کے مدح خواں تھے۔ دورانِ ملاقات انہوں نے مجھ سے یہی بات کی کہ آپ ان آئینوں کو دیکھ رہے ہیں یہ ہماری پالیسیوں سے کس قدر مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا یہ آئینے ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ ملک میں کرپشن کا نام و نشان نہیں ہر طرف امن و امان ہے تمام ادارے بہترین حالت میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن میڈیا کو ہماری یہ کامیابیاں نظر ہی نہیں آتیں۔یہ کہتے ہوئے یہ عمائدین گلو گیر ہوگئے مجھ سے ان کی یہ حالت دیکھی نہ گئی دراصل ہم دونوں اپنے اپنے بدخواہوں کے زخم خوردہ تھے۔ ان کی باتیں سن کر میرا دل بھر آیا چنانچہ غم و اندوہ کے عالم میں وہاں سے رخصت ہوا۔
ان کے کمرے سے نکلتے ہوئے میں نے احتیاطاً اپنی جیب ٹٹولی تو یہ دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ میرا شناختی کارڈ غائب تھا اور یوں مجھے یہ ملاقات کافی بھاری پڑی کیونکہ پہلے میں قومی شناخت سے محرومی کا رونا رویا کرتا تھا اب میں اپنی شناخت سے بھی محروم ہوگیا ہوں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ