اس خطے کا نمائندہ اور تاریخی شہر ملتان ہے۔عاشورہ محرم اور غم حسین ؓ کے حوالے سے جو روایت اس خطے میں چلی آرہی ہے اس کے تاریخی اور ادبی پس منظر کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ ایک بڑی اہم بات ہے کہ صرف وادی سندھ اور اس کے نمائندہ شہر ملتان میں ہی کیوں مرثیہ ایک بڑی سرائیکی صنف سخن کے طور پر سامنے آیا ؟امام عالی مقام ؓ کی اپنی زبان عربی آج بھی دنیا میں ایک بڑی زبان مانی جاتی ہے ۔اس زبان میں بڑی اصناف سخن موجود ہیں لیکن عرب شاعر اور عرب معاشرے نے اس دکھ کو یقیناً اس سطح پر محسوس نہیں کیا جس سطح پر وادی سندھ میں محسوس کیا گیا۔عربی ادب میں قصیدہ ایک بڑی صنف سخن کے طور پر موجود ہ۔مرثیہ بھی ان کے پاس موجود ہے لیکن عربی شاعری میں مرثیے کا ایک بڑی صنف کے طور پر نہ ہونا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ان کا غم حسین ؓ اور اس سانحے کے ساتھ گہرا تعلق نہیں بن سکا۔فارسی بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے لیکن فارسی میں بھی مرثیہ بڑی صنف سخن نہیں۔وہاں بھی قصیدہ اور غزل ہی بڑی اصناف سخن ہیں ۔اسی طرح اردو زبان میں بھی مرثیہ ایک بڑی صنف سخن کے طور پر سامنے نہیں آیا ۔میں سمجھتا ہوں یہ اعزاز صرف سرائیکی زبان کو حاصل ہے ۔یہ سچ ہے کہ سرائیکی میں حسینی ڈوہرے بہت زیادہ لکھے گئے اور لکھے بھی جارہے ہیں مگر بڑا مرثیہ بھی صرف اسی زبان میں لکھا گیا ۔وادی سندھ سے باہر جہاں بھی غم حسین ؓ کا اظہار کیا جاتا ہے ،اسی زبان میں کیا جاتا ہے بلکہ عزاداری کا تصور بھی اسی زبان سے ابھرتا ہے ۔سرائیکی آج کروڑوں لوگوں کی زبان ہے اور اس سے کہیں زیادہ لوگ اس زبان کے سمجھنے والے بھی ہیں ان تمام لوگوں کو غم کا ایک احساس مربوط کرتا ہے۔المیے کا تصور بھی اسی زبان سے ابھرا ہے ۔مرثیے کی تاریخ میں سرائیکی وہ بڑی زبان ہے جس نے بڑا مرثیہ پیدا کیا۔
مرثیہ کیا ہے ؟مرثیہ ….آج کی مہذب ترین دنیا میں ایک مہذب احتجاج ہے اور یہ اس بات کی دلالت بھی کرتا ہے کہ اس خطے کا ہیرو کبھی حملہ آور نہیں رہا۔یہاں سکندر اعظم بھی آیا تھا ، سکندر کی شان میں یہاں کوئی قصیدہ نہیں لکھا گیا ۔دوسرے حملہ آور بھی یہاں آتے رہے اور لمبے عرصے تک قیام کرتے رہے لیکن ان کی شان میں بھی قصائد نہیں لکھے گئے اس دھرتی کا ہیرو شہید ہے اور اسی شہید کی محبت میں مرثیہ ضرور لکھا گیا ۔مرثیے نے ہمیں امن ،رواداری اور برداشت ایسے رویوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا ہنر سکھایا ہے ۔آج ہم دنیا کے تمام جنگ زدہ لوگوں کو یہ سکھا سکتے ہیں کہ آپ بھی کلمہ نفرت کہہ اور ظالم کو ملامت کئے بغیر اپنے دکھ کا مہذب انداز میں اظہار کرسکتے ہیں۔
ملتان آج بھی غم کی اس روایت کا امین ہے ۔یہاں محرم کا چاند نظر آنے سے پہلے ہی سوگواری کی فضا طاری ہوجاتی ہے۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں دکھ اور سوگ کے بہت سارے مظاہرے ہوا کرتے تھے ۔محرم کے ایام میں کسی کو مبارکباد نہیں دی جاتی تھی چاہے بیٹے کی ولادت ہی کیوں نہ ہو ۔ان ایام میں بھڑکیلے لباس نہیں پہنے جاتے تھے اور نہ ہی اچھے پکوان پکائے جاتے۔نیا کپڑا بھی نہیں پہنا جاتا تھا ۔ لوگ اپنے کلام کے لہجے کو بھی اس تاریخی الم کے ساتھ جوڑا کرتے تھے۔
آج کا ملتان بھی اس روایت کا مظہر ہے۔بزرگ بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے کے ملتان میں محرم قطعاً کوئی مذہبی اجتماع نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ ایک روحانی اور ثقافتی اجتماع تصورکیا جاتا تھا۔ملتان کے دو بڑے تعزیے جو برصغیر کے بھی بڑے تعزیے تصور کئے جاتے ہیں یعنی استاد اور شاگرد کا تعزیہ ۔ان دونوں تعزیوں کے صناع مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھے ۔ان تعزیوں کا ڈیزائن بھی انتہائی قدیم مندروں اور مذہبی عمارات کی طرز پر ترتیب دیا گیا ۔ پرہلادمندر کے ڈیزائن کی بھی ان تعزیوں میں جھلک دکھائی دیتی ہے۔اس خطے کا جو ساڑھے پانچ ہزار سال کا جوگ اور الم ہے ،وہ مرثیہ حسین ؓ کی شکل میں بھی ظاہر ہوا۔ملتان میں حسینی برہمنوں کا بھی رواج رہا ہے۔حسینی برہمن کے نام سے کچھ معزز ہندو مرثیے گایا کرتے تھے ۔ان میں سے ایک فیملی جو 1947ءمیں مسلمان ہوئی ،آج بھی کسی نہ کسی صورت عزاداری سے جڑی ہوئی ہے۔مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی تعزیوں کے راستوں میں دودھ اور مشروبات کی سبیلیں لگایا کرتے تھے جہاں سے تمام عزادار فیض یاب ہوا کرتے ۔خطہ ملتان کی مرثیہ گوئی اور تعزیہ سازی میں ہندوﺅں کا ایک بڑا کردار رہا ہے۔مجھے یقین ہے کہ محرم الحرام کی یہ روایت تا دیرجاری رہے گی۔