یہ شاید جمہوریت کا انتقام ہے کہ جس شخص کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ناقابل اعتبار اور جھوٹا قرار دے رہی ہے ، وہ ملک میں جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی کی علامت بن کر سامنے آرہا ہے۔ لوگ اس کو سنجیدگی سے سنتے ہیں اور عوام کے علاوہ مبصرین کی بڑی تعداد یہ مانتی ہے کہ اس ملک میں اگر حکمرانی کے پراسرار مسلمہ اصولوں کو مسترد کرکے حقیقی معنوں میں عوام کے حق حکمرانی کو استوار کرنا ہے تو نواز شریف کی مزاحمتی سیاست ہی واحد راستہ ہے۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد اگرچہ عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپنی ساکھ بنائے رکھنے کے لئے عوامی رابطہ مہم کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ جو عدالت ایک غیر متعلقہ معاملہ کو پاناما کیس میں کھینچتے ہوئے ، قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت رکھنے والی پارٹی کے سربراہ اور ملک کے منتخب وزیر اعظم کو عہدے سے برطرف کرنے کا حکم دے سکتی ہے ، وہ کبھی بھی انہیں انصاف فراہم نہیں کرسکے گی۔ یہ اندیشہ اس وقت بھی درست ثابت ہؤا جب نواز شریف کے خلاف نیب کے ریفرنس کے معاملہ کی نگرانی کے لئے بھی ایک ایسے جج کو مقرر کیا گیا جو پانچ رکنی اور سہ رکنی بنچ میں موجود تھے اور جنہوں نے جے آئی ٹی بنانے اور ثبوت اکٹھا کرنے کا حکم جاری کیا تھا تاکہ وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے عدالت کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہوں۔ لیکن 28 جولائی کے فیصلہ میں اسی اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے بہر حال نواز شریف کو وزارت عظمی سے برطرف کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ اب احتساب عدالت سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں اور جے آئی ٹی کے فراہم کردہ شواہد کی روشنی میں نواز شریف کے خلاف مقدمات کی سماعت کرے۔این اے 120 میں پولنگ سے دو روز پہلے عجلت میں جاری کئے گئے ایک حکم نامہ میں نواز شریف ان کے بچوں اور اسحاق ڈار کی نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کردی گئیں۔ ابھی تک اس بارے میں تفصیلی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن سپریم کورٹ کے ججوں نے سیاسی اہمیت کے ضمنی انتخاب سے پہلے اپیلیں مسترد کرنے کا حکم جاری کرکے اگر اپنے تعصب کا اظہار نہ بھی کیا ہو تو بھی ملک کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش ضرور کی ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے قابل احترام جج بھی یہ بات تسلیم کریں گے کہ تمام تر اختیارات کا مرکز ہونے ، آئین کی تشریح اور قانون کے نفاذ تک کا حق رکھنے اور اگر کوئی قانون دستیاب نہ ہو تو آئین کی شق 184 کے تحت انصاف فراہم کرنے کے اختیار کے باوجود، کسی جج اور عدالت کو ملک کی سیاست میں کردار ادا کرنے یا سیاسی فیصلوں کو مسترد کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ 28 جولائی کے فیصلہ میں عوام کے حق انتخاب کو مسترد کیا گیا تھا اور 15 ستمبر کے حکم میں سیاسی عمل میں براہ راست مداخلت کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی گئی ۔ یہ قیاس کرنا سادہ لوحی ہوگی کہ سپریم کورٹ کے جج اپنے حکم کے سیاسی مضمرات سے آگاہ نہیں تھے ۔ اس کے باوجود جب وہ اس قسم کے رویہ کا اظہار کرتے ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی اس کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو انصاف کے نام پر کھیلے جانے والے کھیل کے بارے میں شبہات ضرور سامنے آتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے منصفین اگر آج ان سوالوں کا جواب نہیں دیں گے تو آنے والے دنوں میں ضرور انہیں ان تلخ سوالوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور ان کا جواب بھی دینا پڑے گا۔ اسی لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ 28 جولائی کے ڈرامائی فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ کی پوزیشن واضح کرنے اور پاناما کیس میں سامنے آنے والی الجھنوں کا جواب دینے اور آئین کی شق 184 کے تحت عدالت عظمی کے اختیار کا تعین کرنے کے لئے فل کورٹ مقرر کریں جو اپنے طور پر اس عدالتی فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور متنازعہ اور حساس سوالات کا جواب سامنے لایا جائے۔ لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ آنے والا وقت یہ طے کرے گا کہ سپریم کے چیف جسٹس کس حد تک اس معاملہ میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ اس ساری صورت حال میں بطور ادارہ سپریم کورٹ کے وقار میں اضافہ نہیں ہؤا ہے۔ملک کی اعلیٰ ترین عدالت شفافیت عام کرنے اور سب کو بلاتخصیص رتبہ و حیثیت، انصاف فراہم کرنے کی پابند ہے۔ لیکن جب عدالت ملک کی سیاسی تقسیم میں فریق کے طور پر سامنے آئے، سیاسی منظر کے ایک طرف کے لوگ عدالت کی توصیف میں رطب الالسان ہوں اور اسے انصاف ہی نہیں جمہوریت کا علمبردار اور قانون کی حکمرانی کا ضامن ثابت کرنے میں اپنی ساری قوت کو استعمال کررہے ہوں۔ اور اسی منظر نامہ کے دوسری طرف کھڑے لوگ اس فیصلہ کو انصاف کا خون قرار دے کر یہ باور کروانے پر بضد ہوں کہ عدالت کا یہ فیصلہ نہ قانون کے مطابق ہے اور نہ نیک نیتی کا ثبوت ہے بلکہ یہ ان خفیہ ہاتھوں کی کارستانی ہے جنہوں نے ملک میں جمہوریت کے راستے میں کانٹے بچھائے ہیں۔ اور جو مسلسل یہ پروپیگنڈا عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جمہوریت عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے لوگوں کے ذریعے فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ عوام کے ووٹ لینے کے بعد سیاست دان وہ فیصلے کرنے کے پابند ہوتے ہیں جنہیں قوم اور ملک کا مفاد قرار دیا گیا ہو۔ گویا اس بات کا فیصلہ عوام کو نہیں کرنا کہ ملک کا مفاد کیا ہے بلکہ ان قوتوں کو کرنا ہے جنہوں نے بوجوہ خود کو اس منصب پر فائز کرلیا ہے۔ یہ ساری باتیں کسی حد تک بد گمانی اور ماضی کے تلخ تجربوں کی بنیاد پر بھی کی جاتی ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس اعلان کے بعد کہ فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، وہ آئین کی پابند ہے اور ملک کی منتخب حکومت کی قیادت میں کام کرنے کے لئے تیار ہے، اس قسم کی غلط اور گمراہ کن سوچ کو ختم ہو بھی جانا چاہئے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ اس بارے میں سامنے آنے والی افواہیں دم نہیں توڑتیں۔ ملک کے وہی معتبر چہرے اور ’ باخبر صحافی‘ یہ اطلاع کیوں دینے پر مصر ہیں کہ عوام کی حکمرانی کی بات کرنے والے دراصل تصادم کے راستے پر گامزن ہیں، جن کی وفاداریوں کے بارے میں سوالات موجود ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بعض مبصر یہ استدالال دیتے نہیں تھکتے کہ ملک میں جمہوریت کی کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ ان اداروں میں سب سے اہم فوج اور اس کے بعد سپریم کورٹ کا نام لیا جاتا ہے۔عام آدمی کا المیہ البتہ یہ ہے کہ ماضی میں ان ہی دو اداروں نے مل کر چار بار عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ ڈالا۔ آئین سے بغاوت فوجی کمانڈروں نے کی لیکن اسے نظریہ ضرورت کے تحت ملک و قوم سے وفاداری کے اعلان میں بدلنے کا کارنامہ سپریم کورٹ نے ہی ادا کیا۔ نظریہ ضرورت دفن کرنے کے اعلانات کے موسم میں جب عدالتوں سے ایسے فیصلے صادر ہوں گے جن کی عملی تعبیر خفیہ ہاتھوں کی دسترس اور قوت میں اضافہ کا سبب بنے گی تو فطری طور پر شبہات سر اٹھائیں گے اور اسے جمہوریت پر شب خون کا نام دیا جائے گا۔ اور جب ابھرنے والی تصویر میں رنگ بھرنے والوں میں ایک بار پھر ان دو اداروں کا ہی عمل دخل ہوگا جو ماضی میں بھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر قوم پرستی اور ملکی مفاد کا مخصوص نظریہ مسلط کرنے کا سبب بنے تھے تو سازش کی باتیں کرنے والوں کی زبان کو کون اور کیسے تھامے گا۔ کیا وجہ ہے کہ عدل کے اعلیٰ منصب پر بیٹھنے والوں کو یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ نیتوں کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن جب الزام کی زد پر آئے ہوئے کسی بھی شخص کے بارے میں مافیا اور گاڈ فادر جیسے فتوے دیئے جائیں گے اور اس کے بعد اپنی غیر جانبداری کا اعلان کرتے ہوئے سیاسی عمل پر اثر انداز ہونے والے حکم جاری ہوں گے تو سازش کا پورا منظر نامہ تیار کرنے کے اسباب از خود پیدا ہو جائیں گے۔ اس کی تردید کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ اس صورت میں صرف یہ نعرہ ہی مقبول ہوگا کہ جمہور کی آواز کو دبانے کے لئے ایک بار پھر گٹھ جوڑ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس نے سیاسی نوعیت کے مقدمات میں ملوث ہونے کا شعوری فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے ان شبہات کو رفع کرنا بھی عدالت عظمی ہی کی ذمہ داری ہے ۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی جمہوری انتظام میں اس بات کی گنجائش ہونی چاہئے کہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والا کوئی شخص خواہ وہ وزارت عظمی کے منصب پر ہی کیوں فائز نہ ہو، اس کا احتساب ہونا چاہئے اور اسے اپنے جرائم کی سزا ملنی چاہئے۔ لیکن کسی عدالت کو نہ تو کسی جمہوری لیڈر کو سیاسی سزا دینے کا اختیار ہے اور نہ ہی وہ صرف اس بنیاد پر قانون اور انصاف کے اس اصول سے انحراف کرسکتی ہے کہ ایک وزیر اعظم کے خلاف ملک میں سیاسی تحریک موجود ہے ۔ عدالت قانون کے مطابق شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ پاناما کیس میں بوجوہ اس بنیادی اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس فیصلہ کو سیاسی فیصلہ سمجھ کر ہی خوشی کا اظہار بھی ہو رہا ہے اور تنقید بھی کی جارہی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے آج احتساب عدالت کے سامنے پیش ہونے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی طرف سے سامنے آنے والی اسی کوتاہی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ سوال درست ہے کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ فیصلہ کرنے والے جج ہی اپیل سنیں ، وہی احتساب عدالت کی نگرانی کریں اور انہیں ہی حتمی اپیل سننے کا اختیار بھی حاصل ہو۔ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ کس اصول قانون کے تحت بے گناہی کا ثبوت فراہم کرنے کا بوجھ اس شخص پر عائد کیا گیا جس پر الزام عائد کئے جارہے تھے۔ اور الزام لگانے والوں کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیا گیا۔ بلکہ ان کی معاونت کے لئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں شاید ملک کی تاریخ کی سب سے طاقتور جے آئی ٹی قائم کی گئی۔ جس کے ارکان کو اب یہ’ مقدس مقام‘ حاصل ہے کہ کوئی محکمہ یا عدالت ان کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر ہے۔اسے ستم طریفی اور جمہوریت کا عجیب و غریب انتقام ہی کہا جائے گا کہ نواز شریف جو ملک میں جمہوری عمل اور آئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں اور جنہوں نے ذاتی اقتدار کے لئے ماضی میں ہر اصول اور ضابطہ کو مسترد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی، اب ملک میں جمہوریت اور طاقتور اداروں کے خلاف احتجاج کی علامت بن کر سامنے آرہے ہیں۔ اسی لئے ان کے لندن جانے کے بعد ’درپردہ مفاہمت‘ کی خبریں سامنے آتی رہیں اور ان کی واپسی پر یہ امید کی جارہی ہے کہ اگر وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے تو ملک میں جاری طریقہ حکومت کو تبدیل کیا جاسکے گا۔ اس موقع پر کوئی نواز شریف سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ وہ آج اس ’کینسر ‘ کا علاج کرنے کی بات کس منہ سے کررہے ہیں جس کو ملک کے سیاسی نظام میں پھیلانے میں ان کا اپنا بھی بھاری بھر کم حصہ ہے۔ کیوں کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے انہیں جمہوریت کے احیا کے لئے کھڑے ہونے والے لیڈر کا رتبہ عطا کیا ہے۔ اب سپریم کورٹ چاہے بھی تو نواز شریف سے یہ طاقت واپس نہیں لے سکتی۔ نواز شریف کو دبانے کی ہر کوشش صرف اس حادثہ کی طرف لے جائے گی جس کے بارے میں انہوں نے آج پریس کانفرنس میں اشارہ بھی کیا ہے۔ یہ ابھی طے ہونا باقی ہے کہ نواز شریف جیسے سیاستدان کو یہ ’رتبہ و مقام ‘ عطا کرکے سپریم کورٹ نے اس ملک کے نظام پر کیا احسان کیا ہے۔
(بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ