چند ماہ پیشتر سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ اعلان انہوں نے ملتان میں یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ شاید اس لیے کیا کہ یوسف رضا گیلانی بھی ان کی دیکھا دیکھی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں لیکن مخدوم احمد محمود کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو آج بھی ملکہ پکھراج کا گایا ہوا گیت بہت پسند ہے
ابھی تو مَیں جوان ہوں
جب مخدوم احمد محمود نے الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا تو مجھے سیّد فخر امام کی اہلیہ اور سابق وفاقی وزیر عابدہ حسین کا وہ بیان بھی یاد آ گیا جس میں انہوں نے کہا تھا وہ اب انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی۔ ان کی جگہ پر اب ان کی بیٹیاں اور بیٹا انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ عابدہ حسین کی ایک بیٹی صغریٰ امام سینیٹر ہیں جبکہ ان کا بیٹا عابد امام گزشتہ بلدیاتی انتخابات جیتنے کے بعد چیئرمین ضلع کونسل خانیوال کا اُمیدوار تھا لیکن میاں شہباز شریف نے ان کی جگہ پر رضا سرگانہ کو چیئرمین نامزد کر کے یہ پیغام دیا کہ سیّد عابد امام کو عام انتخابات میں ٹکٹ دیا جا سکتا ہے۔ اس ساری صورتحال کے بعد جب مَیں نے جنوبی پنجاب کے بزرگ سیاستدانوں کی سرگرمیاں دیکھیں تو خیال آیا کہ بہت سے سیاستدان پہلے سے ہی گوشہ نشین ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان ایک عرصے سے گوشہ نشین ہیں۔ اور وہ کسی بھی سیاسی یا سماجی سرگرمی میں دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر ملک مختار احمد اعوان اگرچہ کبھی کبھار شہر کی تقریبات میں رونمائی کروا دیتے ہیں لیکن عمومی طور پر لگتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی اُن کو ریٹائرڈ سیاستدان ہی سمجھتی ہے۔ اسی طرح سردار نصراﷲ دریشک نے اپنی زندگی میں اپنے تمام سیاسی اختیارات بچوں کے حوالے کر دیئے ہیں۔ تو دریشک صاحب کو بھی آپ گوشہ نشین ہی سمجھیں۔ سردار شیرباز خان مزاری 1977ءکی تحریک میں بہت نمایاں ہوئے۔ ضیاءدور میں بھی ان کی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں لیکن 1988ءسے لے کر آج تک سردار شیر باز خان مزاری کسی بھی سیاسی سرگرمی میں دکھائی نہیں دیئے سوائے اس کے کہ اس دوران ان کی سیاسی یادداشتوں سے متعلق انگریزی میں ایک کتاب منظر عام پر آئی۔ تب سے لے کر اب تک ان کا اب کہیں ذکر ہی نہیں ملتا۔ مزاری خاندان کا ذکر ہو رہا ہے تو سابق نگران وزیرِ اعظم میر بلخ شیر مزاری بھی اب پیرانہ سالی کی وجہ اپنے بچوں کے ذریعے علاقے میں سرگرم ہیں لیکن شنید ہے کہ 2018ءکے انتخابات میں وہ خود حصہ نہیں لیں گے۔یادش بخیر پنجاب کے سابق گورنر و وزیر اعلیٰ نواب صادق حسین قریشی کے دونوں بیٹے نواب عاشق حسین قریشی اور نواب ریاض حسین قریشی سیاست کے شوقین تھے بلکہ نواب عاشق حسین قریشی تحریکِ انصافکے قیام کے وقت عمران خان کے اتنے قریب ہوتے تھے جتنے آج کل جہانگیر ترین اور شاہ محمود ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال اور تحریکِ انصاف کی تعمیر میں نواب عاشق حسین قریشی عمران خان کے شانہ بہ شانہ رہے۔ شاید عمران خان اُن کی خدمات کے صلے میں اُن کو 2018ءکا انتخاب جیتنے کے بعد سینیٹ وغیرہ کا ٹکٹ دے دیں۔ اگر عمران خان کو 2018ءمیں اکثریت نہ ملی تو نواب عاشق حسین قریشی کا شمار ماضی کے سیاست دانوں میں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ان کے چھوٹے بھائی نواب عاشق حسین قریشی بھی پاکستان پیپلز پارٹی، فاروق لغاری کی ملت پارٹی اور پھر چوہدری شجاعت کی ق لیگ میں شامل رہے۔ تمام پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے جب کوئی کامیابی نہ ملی تو آج کل وہ گوشہ نشین ہو چکے ہیں۔ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے سردار ذوالفقار کھوسہ کا خاندان پچھلے کئی انتخابات میں انتشار کی وجہ سے شکست کا سامنا کر رہا ہے۔ انہی غموں کو بھلانے کے لیے انہوں نے چند برس قبل دوسری شادی بھی کی اور مسلم لیگ ن کے خلاف بیان بازی بھی۔ اس ساری صورتحال کے بعد یوں لگتا ہے کہ سردار صاحب کو جب کسی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملے گا تو وہ گھر میں بیٹھ کر ن لیگ اور میاں صاحبان کے خلاف بیان جاری کریں گے۔ مظفر گڑھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ملک نور ربانی کھر اگرچہ اس انداز سے سرگرم نہیں رہے جس طرح انہیں اپنے حلقے میں کام کرنا چاہیے تھا ان کے بارے میں بھی شنید ہے کہ وہ اگلا انتخاب اپنی بیٹی حنا ربانی کھر کو لڑائیں گے کیونکہ ماضی میں بھی وہ کئی مرتبہ اسی حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکی ہیں۔ کاش ملک غلام مصطفی کھر بھی اپنے آپ کو بزرگ سمجھیں اور گھر بیٹھ کر توجہ سے تہمینہ درانی کی لکھی ہوئی کتاب ”میڈا سائیں“ کا بغور مطالعہ کریں اور سوچیں کہ وہ اپنی سیاسی غلطیوں کو کس طریقے سے درست کر سکتے ہیں۔ قارئین کرام آپ حیران ہو رہے ہوں گے ہم نے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام اہم بزرگ سیاستدانوں کا تذکرہ کر دیا ہے اس میں ابھی تک بزرگ سیاست دان جاوید ہاشمی کا ذکر کیوں نہیں آیا؟ یہاں پر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جاوید ہاشمی کے چاہنے والے اُن کو بزرگ سیاستدان سمجھتے ہیں جبکہ جاوید ہاشمی اپنے آپ کو آج بھی کالج کا طالب علم تصور کرتے ہیں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ بھرپور سیاسی زندگی گزارنے کے بعد ان کو اب ایک سیاسی اکیڈمی تشکیل دے دینی چاہیے جس میں وہ سیاست میں آنے والے نوجوانوں کو لیکچر دیں۔ سیاسی پارٹی کب تبدیل کرنی چاہیے، آمریت کے خلاف آواز کیسے بلند کی جاتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ ہمارا خیال ہے کہ جیسے ہی وہ سیاسی اکیڈمی بنانے کا اعلان کریں گے بہت سے ان کے مخالفین اس اکیڈمی میں داخلہ لیں گے کیونکہ جتنے تجربات و مشاہدات پاکستانی سیاست کے متعلق ان کے پاس ہیں شاید ہی کسی سیاست دان کے پاس ہوں۔ اس لیے مَیں کہہ رہا ہوں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے ساتھی سیاستدانوں کے لیکچرز کروائیں تاکہ قوم کو کچھ بہتر سیاستدان مل سکیں۔ اس ساری لسٹ میں اگر آپ کو بزرگ سیاستدان سیّد فخر امام کا نام دکھائی نہیں دیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جوان ہیں ہم انہیں اب بزرگ سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ان سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اپنا حلقہ اپنے بیٹے کے لیے خالی کر دیں تاکہ اسے بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔
فیس بک کمینٹ