ٓآئندہ سال 2021-22کیلئے وفاقی بجٹ کا اعلان کردیا گیا ہے گزشتہ کئی دہائیوں میں آنے والے بجٹ کی طرح اس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ تاریخ کا سب سے بہترین اور اس سے بہتر بجٹ نہیں بنایا جاسکتا تھا مگر اپوزیشن جماعتیں ایسے بجٹ کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ قرا ر دینے پر مضر ہیں اور بیان کرتی ہیں کہ وہ اس بجٹ پر ٹف ٹائم دیں گے اب اپوزیشن کس طرح حکومت کو ناکام کرنے کی کوشش کرتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ جاری ہونے والے اعداد و شمار کی روشنی میں یہ واضع نظر آرہا ہے کہ عام آدمی کی مشکل میں اضافہ ضرور ہوگا مہنگائی بڑھنے سے قوت خرید میں کمی ہوگی جو نوشتہ دیوار ہے کہ بجٹ کا کل حجم 8487ارب میں 3990ارب خسارہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے کوئی معاشی حل یا میکنزم واضع نہیں کیا گیا پھر بھی اگلے سال کیلئے ترقی کا ہدف 4.8فیصد مقرر کردیا گیا جو بظاہر ایک مشکل ہدف ہے کم از کم اجرت 20000روپے ایک بہت ہی اچھا قدم ہے 3400سے زائد خام مال پر ڈیوٹیوں میں چھوٹ کا ثمر کس کو جائے گا بجٹ اس حوالے سے بھی خاموش ہے تنخواہوں میں 10فیصد اور کتابوں کا سستا ہونا اچھا شگون ہے 900ارب کے ترقیاتی بجٹ سے بنیادی انفر اسٹکچر کی تعمیر و ترقی سے معاشی استحکام میں مدد مل سکتی ہے لیکن یہ خسارے کی نسبت انتہائی قلیل رقم ہے کچھ محصولات میں اضافے سے اس پر قابو پانا ناممکن نظر آرہا ہے جو ظاہرکرتا ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی بجٹ تقریر میں جو عندیہ دیا تھا اس پر عمل کیا جائے گا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جاری اور سابقہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے اور پھر بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے نئی شرائط پر آئی ایم ایف سے بات ہوگی گو وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرکے آئی ایم ایف کی شرط کو نہیں مانا گیا لیکن واضع ہونا چاہیے کہ پٹرولیم پروڈکٹس اور بجلی کی قیمتیں بجٹ کے علاوہ خو د مختار ادارے پر رد و بدل کرتے ہیں یعنی وزیر یا تدبیر نے الٹے کان پکڑنے کی کوشش کی ہے کہ ٹیکس وصولیوں کے موجودہ نظام اور ایف بی آر کے ہوتے ہوئے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف کبھی پورا نہیں ہوا کیونکہ ٹیکس چوری میں تحفظ سرکاری ادارے ہی فراہم کرتے ہیں حکومت جتنا چاہے سخت قانون لے آئے لیکن اس میں کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا جاتا ہے جس کیلئے حکومت کو سنجیدہ ہونا پڑے گا اور محصولات کی وصولی کے سسٹم کو فول پروف بنا کر اس میں سوراخ بند کرنے ہوں گے ورنہ ٹیکس وصولی کا یہ نظام اسی طرح فیل ہوتا رہے گا جس کا ذکر وزیر موصوف اپنی پوسٹ بجٹ تقریر میں کرچکے ہیں کہ اربوں روپے سالانہ ٹرن اوور دینے والی کمپنیاں چند ہزار ٹیکس تک محدود ہیں اس کے ساتھ ہی خریداری پر اصل رسید حاصل کرنے پر انعامات کا اعلان کیا گیا ہے۔
اسی طرح ٹیکس چوری،بے نامی جائیدادوں اور منی لانڈرنگ سمیت بے نامی اکاؤنٹس کی صیحح اور جامع نشاندہی پر بھی اچھا انعام رکھا جائے اور اطلاع کنندہ کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا جائے تو کم ازکم ایک بجٹ خسارہ تو کم ہوسکتا ہے۔وفاقی بجٹ میں جنوبی پنجاب کیلئے رقم مختص کرنا خوش آئند اقدام ہے جس سے علاقے کے لوگوں میں اعتماد پیدا ہوگا۔لودھراں،ملتان روڈ کی تعمیر،بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں صوفی ازم کیلئے انسٹی ٹیوٹ،موسمی ریڈار،لیہ کو تونسہ سے ملانے کیلئے دریائے سندھ پر پل کی تعمیر سمیت مختلف تعلیمی اداروں کیلئے فنڈز بھی مہیا کئے جائیں گے۔اسی طرح فیصل آباد تا خانیوال اور ملتان تا لاہور موٹر وے کی اپ گریڈیشن کیلئے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ٹاٹے پور انٹر چینج ڈی جی خان سے ڈی آئی خان تک دورویہ روڈ کی تعمیر کیلئے بھی فنڈز رکھے ہیں تاہم وفاقی بجٹ میں صحت اور تعلیم کے حوالے سے خاطر خواہ فنڈز نہیں رکھے گئے جو قابل غور ہے تاہم بنیادی سہولتوں کیلئے رکھے فنڈز کے صیحح استعمال کیلئے حکومت کو لائحہ عمل بنانا ضروری ہے۔جبکہ بجٹ سے قبل محض افواہوں پر آٹو موبائل انڈسٹری نے گاڑیوں کے قیمتوں میں اضافہ کیا تھااس کی واپسی ضروری ہے۔ادھر پنجاب حکومت نے بھی آئندہ سال کیلئے بجٹ میزانیہ پیش کردیا ہے۔جس میں تین ڈویژنز پر مشتمل خطہ جنوبی پنجاب کا حصہ 35فیصد مختص کیا گیا ہے۔جس میں سکول ایجوکیشن کیلئے پندرہ ارب چھتیس کروڑ بیس لاکھ روپے، ہائر ایجوکیشن کیلئے چار ارب چھیاسی کروڑ ساٹھ لاکھ روپے، سپیشل ایجوکیشن کیلئے پندرہ کروڑ ستر لاکھ روپے، لٹریسی و نان فارمل ایجوکیشن کیلئے ایک ارب ڈیڑھ کروڑ روپے، سپورٹس و یوتھ افیئرکیلئے ایک ارب اسی کروڑ ساٹھ لاکھ روپے، سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر و میڈیکل ایجوکیشن کیلئے اٹھائیس ارب تیس کروڑ چالیس لاکھ روپے، پرائمری و سکینڈری ہیلتھ کیئر کیلئے پانچ ارب اٹھاسی کروڑ ساٹھ لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔اسی طرح پاپولیشن ویلفیئر کیلئے چھیاسٹھ کروڑ چالیس لاکھ روپے، واٹر سپلائی سینی ٹیشن کیلئے چار ارب اٹھاسی کروڑ نوے لاکھ روپے، سوشل ویلفیئر کیلئے چونتیس کروڑ نوے لاکھ روپے، ویمن ڈویلپمنٹ کیلئے چار کروڑ ساٹھ لاکھ روپے، لوکل گورنمنٹ و کمیونٹی ڈویلپمنٹ کیلئے سات ارب چھتیس کروڑ دس لاکھ روپے، روڈز کیلئے بائیس ارب باون کروڑ روپے، انہار کیلئے سات ارب نوے کروڑ دس لاکھ روپے، انرجی کیلئے ایک ارب نواسی کروڑ اسی لاکھ روپے، پبلک بلڈنگز کیلئے سات ارب سڑسٹھ کروڑ نوے لاکھ روپے، اربن ڈویلپمنٹ کیلئے تین ارب چھیانوے کروڑ ستر لاکھ روپے، زراعت کیلئے گیارہ ارب آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے، جنگلات کیلئے ایک ارب بارہ کروڑ ستر لاکھ روپے، جنگلی حیات کیلئے اکیس کروڑ تیس لاکھ روپے، ماہی پروری کیلئے ستائیس کروڑ چالیس لاکھ روپے، فوڈ کیلئے تیئس کروڑ ساٹھ لاکھ روپے، لائیو سٹاک و ڈیری ڈویلپمنٹ کیلئے ایک ارب اٹھانوے کروڑ ستر لاکھ روپے، صنعت و تجارت و سرمایہ کاری کیلئے چار ارب پانچ کروڑ ستر لاکھ روپے، معدنیات و کان کنی کیلئے چونتیس کروڑ روپے، سیاحت کیلئے اکتیس کروڑ ساٹھ لاکھ روپے، گورننس و انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے ایک ارب ساڑھے بیس کرو ڑ روپے، لیبر وترقی افرادی قوت کیلئے چودہ کروڑ ستر لاکھ روپے، ٹرانسپورٹ کیلئے ساڑھے چھتیس کروڑ روپے، ایمرجنسی سروسز 1122کیلئے چونسٹھ کروڑ چالیس لاکھ روپے، ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی کیلئے ایک ارب اڑتالیس کروڑ اسی لاکھ روپے، انفارمیشن و کلچر کیلئے پندرہ کروڑ بیس لاکھ روپے، محکمہ آثار قدیمہ کیلئے انیس کروڑ تیس لاکھ روپے، اوقاف و مذہبی امور کیلئے چوبیس کروڑ اسی لاکھ روپے، انسانی حقوق و ا قلیتی امو رکیلئے ستاسی کروڑ پچاس لاکھ روپے، پلاننگ و ڈویلپمنٹ کیلئے چودہ ارب آٹھ کروڑ تیس لاکھ روپے، سپیشل پروگرام و انیشیٹوز کیلئے پینتیس ارب ستر کروڑ بیس لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ضلع ڈیرہ غازیخان میں خواتین یونیورسٹی، یونیورسٹی آف تونسہ، راجن پور میں انڈس یونیورسٹی، یونیورسٹی آف مظفرگڑھ، یونیورسٹی آف لیہ کے علاوہ ضلع ڈیرہ غازیخان میں پانچ نئے کالجز، نئے او پی ڈی و ایمرجنسی بلاک، ایک سول ہسپتال، 15بی ایچ یوز کی اپ گریڈیشن، پانچ نئے بی ایچ یوز و ڈسپنسری کے قیام، 22سکولو ں کی اپ گریڈیشن، پانچ نئے ریسکیو سٹیشن، 100روڈز، پل کی تعمیر و بحالی، 25واٹر سپلائی سکیمز، بارتھی میں 132کے وی گرڈ سٹیشن کی تعمیر، ڈیرہ غازیخان میں سیوریج ٹف ٹائلز کے دو میگا پراجیکٹس کیلئے فنڈز رکھے گئے ہیں۔مگر اس کے ساتھ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام پراجیکٹس کیلئے پیسے تو مل جائیں گے مگر یہ استعمال کیسے ہوں گے کیونکہ ماضی میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ جنوبی پنجاب کیلئے مختلف پراجیکٹس کیلئے آنے والے فنڈز استعمال نہ ہو سکے اور واپس چلے گئے،اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پنجاب بالخصوص وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سالانہ میزانیہ 2021-22میں جنوبی پنجاب کی ترقی و خوشحالی کیلئے اعلان کردہ تمام پراجیکٹس کو ترجیحی بنیادوں پرمکمل کرائیں۔
فیس بک کمینٹ