شیرازی صاحب کے گھر میں اس وقت بالکل ایسی کیفیت تھی جیسے گھر کے کسی فرد کی موت ہوگئی ہو، سب بالکل خاموش ، سراسیمہ اور تذبذب کی حالت میں ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے، بات کرنے کا کسی میں یارا نہ تھا۔ اس وقت وہ اپنے عالیشان گھر کے لاﺅنج میں جمع تھے اور کسی بہت ہی گمبھیر مسئلے کا شکار تھے کہ ایک دوسرے سے نگاہیں تک نہیں ملا رہے تھے۔
ٓآخر شیرازی صاحب کی بیوی نے خاموشی کو توڑتے ہوئے اپنے چھوٹے بیٹے سے پوچھا کہ !! ظفر تم نے ٹھیک سے دیکھا بھی ہے؟ ان کے لہجے میں کچھ امید اور بے یقینی اب بھی عیاں تھی، جاﺅ ایک بار پھر ٹھیک سے دیکھ کر آﺅ، اور ہاں اچھی طرح آوازیں بھی دینا تاکہ اگر وہ باتھ روم میں ہو تو پتہ چل سکے، ظفر نے مایوسی سے ماں کی جانب دیکھا وہ پہلے ہی پورے گھر کا چپہ چپہ چھان چکا تھا، نادرہ کا کہیں کوئی پتہ نہ تھا، ساتھ ساتھ منا اور شہباز (نوشابہ کا شوہر ) کا بھی کوئی نام و نشان نہ تھا۔
شیرازی صاحب ایک غیر ملکی کمپنی میں اعلی عہدے پر فائز تھے ، ان کی دو بیٹیاں اور تین بیٹے تھے سب جوان تعلیم یافتہ اور اپنے اپنے پیشہ میں مگن تھے ، نادرہ سب سے چھوٹی تھی اور ابھی اس نے گریجویشن کیا تھا اور گھر پر ہی تھی۔ بڑا بھائی انجنیئر تھا، بہن ڈاکٹر تھی باقی دو بھائی بھی بینک میں کام کرتے تھے ۔
ٓٓآج شام جب یہ سب اپنے اپنے کاموں سے واپس آئے تو حسب معمول ، چائے کیلئے یکجا ہوئے، نوشابہ جو بڑی بہن تھی اپنے کمرے سے فریش ہوکر آگئی تھی ، اپنی والدہ سے پوچھنے لگی کہ امی منا اور شہباز کہاں گئے ہیں تو اس کی والدہ نے جواب دیا کہ جب میں آرام کرنے اپنے کمرے میں گئی تھی تو وہ یہیں موجود تھے، اس کے بعد سب نے محسوس کیا کہ سب سے چھوٹی بہن نادرہ بھی موجود نہیں ہے، اس کو بھی گھر میں تلاش کیا گیا، اس کے موبائل پر کال کی گئی تو موبائل بند جا رہا تھا، اور وہ گھر میں موجود بھی نہ تھی۔ اب سب کو تشویش ہونے لگی کہ، شہباز عموما گھر پر ہی رہتا تھا کیونکہ وہ گھر داماد تھا اور کوئی کام دھندہ نہیں کرتا تھا ، وہ ایک خوش شکل نوجوان تھا اور بظاہر بہت ہی شریف اور مناسب آدمی لگتا تھا۔ خاصہ خوش مزاج بھی تھا اور ہر وقت گھر والوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہتا تھا، خاص کر نادرہ سے اس کی خوب بنتی تھی۔ کیونکہ سب لوگ اپنی اپنی جاب پر چلے جاتے تھے اور گھر میں نادرہ اس کی والدہ شہباز اور منا رہ جاتے تھے۔ دوپہر کو والدہ بھی کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کیلئے اپنی خواب گاہ میں چلی جاتی تھیں ایسے میں شہباز منا اور نادرہ رہ جاتے تھے ان کے کمرے بھی بالائی منزل پر تھے ۔
جس نے انہیں تنہائی میں ملنے اور قریب آنے کا موقع دیا، گھر والوں کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ اندر ہی اندر کیا گل کھلائے جا رہے ہیں۔ آج اچانک گھر والوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری کہ نادرہ ، منا اور شہباز گھر میں موجود نہیں ہے، پریشانی تب شروع ہوئی جب ان کے موبائل فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، تو حیران کن طور پر دونوں کے موبائل بند جا رہے تھے۔ یہ گھرانہ بہت ہی رکھ رکھاﺅ والا اور تہذیب تمیز والا تھا ان کے تو لڑکوں کی بھی محلے کے عام لڑکوں سے دوستیاں نہ تھیں۔ ایسے میں گھر کی لڑکی کا بھاگ جانا وہ بھی اپنے سگے بہنوئی کے ساتھ ان لوگوں کے لئے تو جیسے مرجانے کا مقام تھا۔
شام گزر کر رات آگئی وہ بھی آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی، صبح ہوتے ہوتے شیراز صاحب کی حالت غیر ہونے لگی، گو کہ ڈاکٹر گھر ہی میں موجود تھی مگر انہیں فورا ہسپتال لے جایا گیا راستے میں انہیں جان لیوا دل کا دورہ پڑا، ہسپتال پہنچنے تک وہ خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ جب ان کے بیٹے میت لیکر گھر پہنچے تو ایک بار پھر کہرام مچ گیا، والدہ بیہوش ہوگئیں ہوش میں آنے پر ان پر سکتہ طاری ہو گیا اور وہ گم سم سی ہو کر رہ گئیں۔ میت کے گھر میں محلے والے اور رشتہ دار جمع تھے، شیراز صاحب کے گھر والے بڑے پریشان تھے کہ اس مصیبت کی گھڑی کا کس طرح مقابلہ کریں۔ لوگوں کو کیا بتائیں کہ چھوٹی بیٹی کہاں ہے؟ داماد کہاں ہے؟ جبکہ وہ گھر داماد ہے پھر اس مشکل گھڑی میں غائب ہوگیا ہے۔ بہر کیف یہ آفت تو ان سب نے جھیلنا ہی تھی سو جیسے تیسے والد کی تدفین کی تیاریاں شروع کردی گئیں اور وہی ہوا کہ گھر کے باہر لوگ داماد کو پوچھ رہے تھے اور اندر عورتیں نادرہ کو ، جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا، وہ سب نہایت بے بسی کی کیفیت سے دوچار تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بھرے بازار میں کسی نے ان سب کے کپڑے اتار دیئے ہوں۔ مگر ان کے پاس کوئی جائے فرار نہ تھی لہذا لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں اور سوالیہ چہروں کو برداشت کرتے رہے۔
کیونکہ وہ ویسے بھی محلے میں زیادہ گھلتے ملتے نہ تھے تو ا ب انہیں لوگوں سے کترانے میں کوئی دشواری نہیں ہو رہی تھی۔ جیسے تیسے انہوں نے والد کا دسواں کیا، اس کے بعد انہوں نے اپنا یہ گھر چھوڑ دیا، گھر کچھ دن بند رکھنے کے بعد انہوں نے کرائے پر اٹھا دیا اور خود کہیں دور ایک مکان کرائے پر لے کر رہنے لگے۔
اچانک ایک دن نوشابہ کا فون بجا اس نے فورا ہی اٹھا لیا، دوسری جانب شہباز تھا، بس نوشابہ نے ہلو کہا اور اس کے بعد ایک دم خاموش ہوگئی، بالکل خاموش، سب اس کے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھ رہے تھے ۔ کچھ دیر تک دوسری طرف کی بات سننے کے بعد اس نے فون بند کر دیا اور قریب پڑی کرسی پر بیٹھ کر زار و قطار رونے لگی۔
سارے گھر والے اس سے معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کس کا فون تھا مگر وہ کچھ بتا ہی نہیں پا رہی تھی ، بس روئے ہی جا رہی تھی ، جب بہت زیادہ استفسار کیا تو اتنا کہا کہ شہباز اور بیہوش ہوگئی، بڑی مشکل سے اسے ہوش میں لایا گیا، تو وہ بمشکل اتنا کہہ پائی کہ شہباز کا فون تھا اس نے مجھے طلاق دیکر نادرہ سے نکاح کر لیا ہے۔
فیس بک کمینٹ