اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق الزامات پر جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن، صحافی انصار عباسی اور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کو شوکاز نوٹس جاری کر کے 7 روز میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کردی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی تہلکہ خیز رپورٹ میں عدلیہ کے حوالے سے الزامات پراسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غور اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے آج پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
مذکورہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا محمد شمیم نے ایک نوٹرائزڈ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے‘۔
چنانچہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، صحافی انصار عباسی کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
عدالت کے طلب کرنے پر اخبار کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمٰن، ریزیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری اور رپورٹر انصار عباسی پیش ہوئے جبکہ رانا شمیم عدالت سے غیر حاضر رہے۔علاوہ ازیں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی عدالت بھی پیش ہوئے۔
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیٹے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ والد صاحب رات کو ہی اسلام آباد پہنچے ہیں طبعیت ٹھیک نہیں اس لیے عدالت میں حاضر نہ ہوسکے۔سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوشش ہے کہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو، ہم عدلیہ اور انصاف کی فراہمی کی مضبوطی چاہتے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا میں فرق ہے، ایک اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی ہوتی ہے۔
میر شکیل الرحمٰن کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت نے آپ کو نہ چاہتے ہوئے بلایا، یہ آئینی عدالت ہے، کیا لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد اٹھایا جارہا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ اخبار اور سوشل میڈیا میں فرق ہے، اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی ہوتی ہے لیکن سوشل میڈیا کی نہیں، آپ کی رپورٹ کی وجہ سے سابق چیف جج کو نوٹس کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے میرے ججز پر اعتماد ہے اگر اعتماد نہ ہوتا تو یہ کیس نہیں ہوتا، عدالتی کارروائی بہتر انداز میں نہیں چل سکتی، اس ہائی کورٹ میں ہر جج نے عوام کا اعتماد بحال رکھا ہے، ہائی کورٹ کے ججز پر تنقید ضرور کریں مگر لوگوں کا اعتماد نہ اٹھائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز بھی قابل احتساب ہیں، ججز پر تنقید شہریوں کا حق ہے، ہم اپنا دفاع نہیں کر رہے لیکن میرے خلاف سوشل میڈیا پر سنگین نوعیت کی مہم چلائی گئی۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا اخبار کی پالیسی یہ اجازت دیتی ہے کہ لندن میں فائل ہونا والا ایفیڈیوٹ(بیان حلفی) آپ اخبار کے پہلے صفحے پر چھاپ دیں؟یہ اسلام آباد ہائیکورٹ یعنی ایک آزاد عدلیہ کا معاملہ ہے۔دوران سماعت عدالت نے چیف ایڈیٹر کو دی نیوز کی ہیڈ لائن پڑھنے کی ہدایت کی تو انہوں نے کہا کہ میری عینک موجود نہیں ہے،جس پرعدالت نے انصارعباسی کو ہیڈ لائن پڑھنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس عدالت میں کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے کسی سے آرڈر لیا ہے، یہ بیان حلفی اس عدالت کے کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں، سابق جج نے بیان حلفی کو کہاں پر نوٹرائز کیا گیا؟ .
ان کا کہنا تھا کہ میرے جج پر انگلی اٹھائی گئی، یہ اعلیٰ عدلیہ کے تقدس کا معاملہ ہے، بیان حلفی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔انصار عباسی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بیانِ حلفی لندن میں دائر ہوا تو عدالت نے دریافت کیا کہ انہوں نے بیان حلفی کو باہر کیوں نوٹرائزڈ کیا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے انصار عباسی سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے چیک کیا احتساب عدالت کا فیصلہ کس تاریخ کو آیا تھا اور عدالتی بینچ کب بنا؟ یہ بات آپ رجسٹرار کو فون کر کے چیک کرسکتے تھے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ انویسٹیگیشن کے ماہر صحافی ہیں کیا آپ نے خود انویسٹیگیشن کی؟
انہوں نے مزید کہا کہ 16 جولائی کو اپیل دائر ہوئی، کونسا بینچ بنا ؟ جس وقت اپیل دائر ہوئی میں اور جسٹس عامر فاروق بیرون ملک تھے اور جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب موجود تھے، کیا آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے معلوم کیا؟
عدالت نے صحافی سے استفسار کیا اس کیس میں ملک سے نامی گرامی اچھے وکلا شامل تھے، کیا آپ نے ان وکلا سے پوچھا کہ انہوں نے الیکشن سے پہلے ڈیٹ مانگی تھی یا نہیں؟
عدالت نے مزید کہا کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا کیونکہ وہ پروفیشنل لوگ ہیں اور انہیں معلوم ہے، اس وقت جو درخواست گزار تھے ان کے وکلا کی بڑی ٹیم تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث پورے ملک کے سب سے بہترین وکیل اس وقت درخواست گزار کی پیروی کررہے تھے، کیا آپ نے ان سے چیک کیا کہ اس وقت کونسا بینچ تھا؟
انہوں نے کہا کہ کیا کسی وکیل دفاع نے یہ استدعا کی کہ عام انتخابات سے قبل کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، وکلا نے عام انتخابات کے بعد کیس مقرر ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، جس روز فیصلہ ہوا اسی روز معطل ہوا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ رجسٹرار سے پتہ کریں ایک سال سے دو بینچز کام کر رہے تھے، لوگوں کا اعتماد تباہ کرنے کے لیے اسکینڈلز بنانا شروع کر دیے۔عدالت نے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں جسٹس جج کا نام آپ نے خالی چھوڑ دیا، بار بار اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ بنچز کوئی اور بناتا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں لوگوں کا اعتماد تباہ کرنے کے لیے باتیں شروع ہو گئیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ میرے سامنے کوئی جج ایسے کہے تو میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جاؤں گا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک چیف جسٹس کسی کے سامنے کہے کہ جرم کرو، اس پر 3 سال تک خاموش رہا جائے، پھر ایک پراسرار بیان حلفی سامنے آجاتا ہے، اخبار نے کیسے ایسا بیان حلفی چھاپ دیا، عدالتی نظام انصاف کو مسلسل متاثر کیا جا رہا ہے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رانا شمیم کہاں ہیں، وہ خود کیوں پیش نہیں ہوئےجس پر وکیل آگاہ کیا کہ وہ برطانیہ میں تھے اور رات کو ہی وطن واپس پہنچے ہیں۔اس دوران صحافی انصار عباسی نے عدالت میں کچھ کہنے کی اجازت مانگی تو عدالت نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیا ہے۔
رانا شمیم کے وکیل نے عدالت میں استدعا کی کہ ان کے مؤکل بیمار ہیں لہٰذا ایک ہفتے کا وقت دیا جائے۔ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کل فیصل واڈا صاحب جو اول فول بکی ہے اس کا نوٹس بھی ہونا چاہیے، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ الگ سے درخواست دائر کر دیں، ہم اس کیس کے ساتھ اسے مکس نہیں کریں گے۔
( بشکریہ : ڈان نیوز )
فیس بک کمینٹ