مانچسٹر حملے کا واقعہ گزرے ایک ہفتہ ہو چلا ہے۔لیکن درودیوار پر بے گناہوں کے خون کے چھینٹے ابھی تک تازہ ہیں۔کچھ مزید دنوں ہفتوں مہینوں تک جسموں اور دیواروں پر سے اس بربریت کے نشانات تو مٹ جائیں گے، لیکن دلوں اور دماغوں سے مٹتے مٹتے مٹیں گے۔کچھ داغ تو ایسے ہوتے ہیں جو کبھی نہیں مٹتے۔جلیانوالہ باغ کے قتل عام والے دن اُودھم سنگھ سات سال کا تھا۔ باقی کی پوری زندگی وہ اپنے دل پر لگے اس گھاؤ کو کبھی بھول نہیں پایا، پھر وہ دن آ گیا جب اس کا سامنا اس خون کے ذمہ دار جنرل ڈائر کے ساتھ ہوا۔ کسی فرد، گروہ یا قوم کا بے گناہ خون اور انہیں زور زبردستی گھر سے بے گھر کر دینے کا ظلم ایسا ظلم ہوتا ہے جو ہمیشہ نسلوں کو برباد کرتا ہے۔ تاریخ کا یہی سبق ہے۔بنی اسرائیل کی بے دخلی سے لیکر بیسویں صدی کی برصغیر کی تقسیم کی یہی کہانی ہے۔ یہ وہ زخم ہیں جو صدیوں بعد بھی مندمل نہیں ہوتے۔ دلوں کو چھید دینے والا عمل یہ ہوتا ہے کہ اکثر ایسے مظالم کا نشانہ بے گناہ بنتے ہیں۔ وہ معصوم اور بے گناہ لوگ جو براہ راست ایسے مظالم کے ذمہ دار کبھی نہیں ہوتے۔مگر بھگتتے وہی ہیں۔ جیسا مانچسٹر والوں نے بھگتا۔ جیسا لیبیا سے لیکر افغانستان تک کے بے گناہ بھگت رہے ہیں۔امریکا ، فرانس ، بیلجیم، جرمنی ، برطانیہ ، مصر ، شام ، عراق، لیبیا، افغانستان اور پاکستان، کے عوام اور اُن کے بچے مر رہے ہیں، بغیر کسی جرم کے، بغیر کسی خطا کے۔ اس کا ذمہ دار مگر کون ہے؟۔ یہی آج کا سب سے بڑا سوال ہے۔ جواب بھی بہت سادہ اور صاف ہے۔ علاقائی غیر جمہوری طاقتیں اور عالمی سامراج۔ جن کی روزی روٹی کا سب سے بڑا ذریعہ ہی جنگ کے الاؤ بھڑکانا ہے، جن کا ہر لقمہ بے گناہوں کے خون سے تر ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا کا کوئی سب سے بڑا عالمی مجرم ہے تو اس کا نام امریکا ہے۔ اس کے بعد ہر وہ ملک جو اس کے جرائم میں براہ راست شریک رہا ہے۔جب سے روس عالمی مد مقابل دوسری سپر پاور کی حیثیت سے محروم ہوا ہے ، اس دن سے امریکا باؤلا ہو کر گلوبل بستی کے ہر چوراہے میں بے گناہوں کو کاٹتا بھنبھوڑتا پھر رہا ہے۔ اس کے اسلحے کی فیکٹریاں مسلسل دن رات چل رہی ہیں۔ پہلے یہ کسی ایک خطے کو نشانہ بنا کر وہاں کے سیاسی حالات خراب کرتا ہے۔ پھر اُن حالات کو ٹھیک کرنے کا نعرہ مار کر وہاں فوجیں اُتارتا ہے۔ وہاں کی حکومتوں کو اپنا اسلحہ بیچتا ہے۔ اس افراتفری اور بیچے گئے بارود کا نشانہ وہاں کے بے گناہ عوام بنتے ہیں۔ یہ اس پر بس نہیں کرتا ، وہاں پر طالبان ، القاعدہ، بوکوحرام،داعش جیسی خونی ملیشیا کھڑی کرتا ہے۔ انہیں اسلحہ اور ڈالر فراہم کرتا ہے۔جب ایسی تنظیمیں اپنے ہی لوگوں کے خون پر دہشت کا کاروبار گرم کرتی ہیں، تو مقامی پٹھو حکومتوں کو اس دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اپنا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ عالمی سطح پر محنت کش عوام کا خون چوسنے والے اپنے مالیاتی اداروں سے ایسی پٹھو حکومتوں کو بھاری قرضے فراہم کرواتا ہے۔ وہاں کی کاسہ لیس حکومتی اشرافیہ ان قرضوں کا نصف سے بھی زائد خود ہڑپ کر جاتی ہے باقی میں سے بھی بڑا حصہ افسر شاہی کی جیبوں میں چلا جاتا ہے ، نتیجہ، عوام بنیادی سہولیات کو بھی ترستے ہیں ان کے بچے بھی مقروض پیدا ہوتے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے ہمارے ایک برادر اسلامی ملک سے اس نے ایک سو دس ارب ڈالر کا سودا صرف اسلحے کی مد میں کیا ہے۔ مسلمان اس کا سب سے آسان شکار ہیں۔ اس لیے کہ ابھی تک فرقے اور مسلک کی سطح سے اوپر اُٹھ کر اپنی ناک سے ایک انچ آگے دیکھنے کا ہنرانہیں آیا ہی نہیں۔حالیہ مانچسٹر کے خود کش حملے کی جڑیں مذہب میں نہیں بلکہ قومیت پرستی میں گڑی دکھتی ہیں۔ جس طرح تباہی پھیلانے والے اسلحے کے ڈھیروں کا بہانہ بنا کر عراق کا ملیا میٹ کیا گیا ایسا ہی لیبیا کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ برطانیہ کے عوام پوری دنیا میں اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں سب سے نمایاں ہیں، جب برطانیہ نے امریکا کی دُم پکڑ کرعراق کی جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا تھا۔تو برطانیہ کے بیس لاکھ لوگوں نے گھروں سے باہر نکل کر اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ ٹونی بلیر کے اس گناہ کی سزا اس کی جماعت کو آج تک ہر الیکشن میں شکست کی صورت بھگتنا پڑ رہی ہے۔مغرب کی باشعور عوام کو اس بات کا اندازہ ہے کہ جنگ دنیا کے کسی بھی کونے میں چھیڑی جائے اس کے شعلے دُور دُور تک پہنچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کوربین نے اس پالیسی کے خلاف ایک واضح حکمت عملی وضع کی ہے۔ مغربی ممالک سمیت برطانیہ میں ان حملوں کا جلد یا بدیر کوئی نشانہ بنے گا تو وہ یہاں کے مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کو اس بات کا اب احساس ہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ مانچسٹر میں مقیم سب سے بڑی پاکستانی مسلم سوساہٹی نے اس حادثے کے فوراً بعد گھروں سے نکل کر صف اول میں اپنے سماجی فرائض کو نبھایا۔لیکن ہر باشعور پاکستانی اور کشمیری بالخصوص اور ہر مسلم بالعموم بہت پریشان ہے۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ان کے بچوں کو مستقبل قریب میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آج ہی عالمی شہرت یافتہ باکسر عامر خان نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس نے اپنی معصوم بچی کے متعلق خدشات ظاہر کیے ہیں۔کہ کل اس پر اس کے اور اس کے ماں باپ کے مذہب کے حوالے سے انگلیاں کھڑی ہو سکتی ہیں۔میں مسلسل لکھ رہا ہوں کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی و کشمیری سیاسی رہنماؤں کو آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا وقت آگیا ہے جن سے وہ مسلسل غافل رہے ہیں۔ یہاں مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو مسلکی و فرقہ وارانہ تقسیم کے ذمہ دار ہیں۔ اور جو آج بھی اپنا یہ مکروہ دھندہ پوری دل جمی کے ساتھ چلائے ہوئے ہیں۔ جب تک ایسے افراد کو کنٹرول نہیں کیا جاتا ۔ برطانیہ میں مقیم بیس لاکھ سے زائد پاکستانی و کشمیری مسلمان کبھی بھی برطانوی قومی سطح پر اپنا مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔
فیس بک کمینٹ