سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی سے کون آشنا نہیں ہے۔جہاں دیکھیں اسی کے چرچے نظر آتے ہیں،گھر ہو،دفتر ہو یا سڑک۔۔۔کوئی گوشہ اس کے کرشموں سے چھپا نہیں ہے۔۔۔اسی ترقی کی ایک حالیہ مثال آن لائن چلنے والی ٹیکسیاں بھی ہیں جوکہ موبائل ایپس کی مدد سے آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ با آسانی لے جانے کے لئے سروس مہیا کرتی ہیں۔ پاکستان میں اس قسم کی سروس ابھی چند ہی شہروں تک محدود ہے مگر ان کی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جلد ہی اس قسم کی سروس ملک کے گوشے گوشے میں پھیل جائے گی۔
بلا شبہ یہ میرے جیسے متوسط طبقے کے افراد کے لیے ایک اچھی اور خوش کن خبر ہے خصوصاً وہ افراد جو روزانہ سفر کی صعوبتیں اٹھانے پر مجبور ہیں۔ کون ٹیکسی والے کے نخرے اٹھائےجی، کون روز وین میں ذلیل ہو۔۔۔۔ اس سروس کی مدد سے بیٹھے بٹھائے کہیں بھی کبھی بھی سفر آسان ہو گیا ہے ۔مگر ٹھہریں یہ کہنا ابھی اتنا آسان نہیں ہے۔ اس سہولت سے متعلقہ بعض اہم اور توجہ طلب نکات ہیں جوکہ میں اپنے تجربے کی روشنی میں بیان کرنا چاہوں گی۔
آن لائن ٹیکسی سروس کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہ بیشتر اوقات آپ کو سفر کی روایتی "خواری” سے بچانے کے لیےاستعمال کی جاتی ہے۔مگر آپ کو یہ جان کر افسوس ہو گا کہ یہی "خواری” سے بچنے کی امید آپ کو سخت پریشانی میں بھی مبتلا کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ ایسی سروس میں اکثر ڈرائیورز ناتجربہ کار اور راستوں سے بالکل ناواقف ہیں۔شاذ ونادر ہی ایسا "ہیرا” آپ کو ملے جسے بغیر بتائے یا میپ پر دیکھ کر ہی راستہ سمجھ آ جائے۔ اب کل کی ہی مثال لے لیجئے۔میں نے ماما کے ساتھ کچھ ضروری سامان خریدنے بازار جانا تھا۔طے یہ پایا کہ میں دفتر سے واپسی پر ان کو پک کروں گی اور پھر ہم ایک ساتھ خریداری کر کے واپس گھر آ جائیں گے۔دفتر سے چھٹی پرگھر پہنچتے چونکہ کافی دیر ہو جاتی ہے تو میں نے سوچا کہ وقت بچایا جائے اور آن لائن ٹیکسی کے ذریعے گھر پہنچا جائے۔
بس یہی سوچ کر میں نے موبائل سے ایپ پر ٹیکسی بلاوائی اور عجلت میں بیٹھی کہ جلدی کام ختم کیا جائے۔میرے آرڈر کی دیر تھی کہ ڈرائیور منٹوں میں میرے پاس مقررہ مقام پر پہنچ گیا۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب آپ ایپ میں منزل کا نام ڈال دیتے ہیں تو ایپ خود ڈرائیور کو بول بول کر راستہ سمجھاتی رہتی ہے،البتہ اگرڈرائیورکو راستے کا علم ہو یا مسافر خود بتانا چاہے تو ایپ کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری نہیں سو ایسی صورت میں ڈرائیور اس کو بند کر سکتا ہے۔خیر میرے ڈرائیور کا نام اشتیاق تھا۔اشتیاق صاحب نے میرے بیٹھتے ہی پہلے تو ایپ سے ہدایات لینی بند کیں اور مجھے بھی کہا کہ میڈم مجھے راستہ معلوم ہے۔مگر جب اس نے گاڑی الٹی گھمانی شروع کی تو مجھے کچھ عجیب سا لگا کیونکہ وہ 180 ڈگری اینگل پر جا رہا تھا۔مجھے مغرب کی سمت جانا تھا وہ مشرق پر چل رہا تھا۔خیر میرے منع کرنے پر اس نے گاڑی موڑی اور دوبارہ ایک نئی سمت چلانے لگا۔اب کی بار بھی مشرق کی جانب نہیں،جنوب کی جانب۔۔۔۔ایسے راستے جہاں نہ کوئی بندہ نہ بشر۔۔۔۔
"بھائی!یہ راستہ بھی غلط ہے،آپ ایپ کو فالو کریں پلیز”میں نے فوراً ٹوکا۔
"جی باجی میں تو ایپ ہی کو فالو کر رہا ہوں،ایپ یہی راستہ بتا رہی ہے۔”ڈرائیور نے عذر پیش کیا۔معلوم نہیں ایپ میں مسئلہ تھا کہ اس نے خود غلط موڑی۔۔۔
"بھائی میں روز جانے والوں میں سے ہوں میں تو کبھی اس راستے سے اپنے گھر نہیں گئی۔پلیز آپ جہاں سے میں کہہ رہی ہوں وہاں سے چلیں۔” میں نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
"نا باجی،یہ ایک ہی راستہ ایپ میں نظر آ رہا۔۔۔” اس نے میری جانب موبائل گھماتے ہوئے کہا۔مگر پھر ایک اور غلط ٹرن لیا۔اب کہ وہ ممنوعہ علاقے میں داخل ہو رہا تھا اورباوجود میرے سمجھانے کے گاڑی اپنی مرضی سے الٹی جانب بڑھا رہا تھا۔ہر انسان کی صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔اس کے بعد آپ اس کے کچھ بھی توقع کر سکتے ہیں۔میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔جب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تو میں نے پہلے تو اسے خوب سنا ڈالیں پھر گاڑی سے سڑک پر ہی اتر کر عام ٹیکسی ڈھونڈنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔( گومجھے معلوم تک نہیں تھا کہ وہ اسلام آباد کا کون سا علاقہ تھا!)
۔یہ تو خیر ایک مثال تھی مگر ایسی کئی مثالیں میرے پاس موجود ہیں جن میں آن لائن ڈرائیوروں نے اپنی بے انتہا لا پرواہی اور راستوں سے ناواقفیت کا ثبوت دیتے ہوئے مسافروں کو عام ٹیکسیوں،وینوں اور بسوں سے بھی زیادہ ذلیل کروایا ہے۔اور ایسا محض اس لئے ہے کہ پاکستان میں کہیں قانون نامی چڑیا نظر نہیں آتی جو ٹیکسی،گاڑی،وین،رکشہ اور اس قسم کی نئی اور ماڈرن سروس چلانے والوں کو یہ پابند کر سکے کہ روڈ پر نکلنے سے پہلے تمام راستوں کا نہیں تو کم از کم آدھے راستوں کا علم تو لازم سیکھ لیں۔ باہر کے ممالک میں یہ ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے کی ایک اہم شرط ہے۔مگر پاکستان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساڈا صرف اللہ مالک اے!
فیس بک کمینٹ