محترم شاہ جی!
آپ کو یہ خط 21 اپریل 2017ء کے بعد لکھ رہا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کو یہ خط کبھی نہیں ملے گا کیونکہ 21 اپریل کی رات کو آپ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ یہ خط لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ شاہ جی یہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا کہ آپ کا ہمارا ساتھ گزشتہ دو عشروں سے تھا۔ آپ کی میری پہلی ملاقات ملتان کے ڈی۔سی۔او محمد اعجاز چودھری کے دفتر میں ہوئی جہاں آپ ایک نوآموز گلوکارہ شمیم انصاری کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ آپ نے مجھے وہیں پر بیٹھے ہوئے حکم دیا تھا کہ مَیں آپ سے علیحدگی میں ملنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے آپ سے کہا جب آپ کہیں گے مَیں حاضر ہوں۔ آپ کی میری اگلی ملاقات ملتان کے سابق ضلع ناظم پیر ریاض حسین قریشی کے دفتر میں ہوئی جہاں آپ اُن سے اپنی کتاب ”آزادی“ کی تعارفی تقریب میں شرکت کا کہنے آئے تھے۔ پھر اُسی ملاقات میں آپ نے حکم کیا شاکر بھائی میرے اس پروگرام کی نظامت آپ کریں گے۔ مَیں نے اُس وقت آپ سے ”آزادی“ کی ایک کاپی مانگی تو آپ نے مجھے اس کتاب کے ٹریسنگ دکھا دیئے کہ یہ کتاب تو ابھی پرنٹنگ کے لیے جانی ہے۔ یہ بات 8 اگست 2000ء کی ہے۔ شاہ جی آپ کو یاد ہو گا مَیں نے وہ ٹریسنگ دیکھتے ہی کہا تھا کہ میرے خیال میں 14 اگست تک کتاب نہیں آئے گی۔ تب آپ نے پیر ریاض قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ تقریب ہر حالت میں 14 اگست کو ہو گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں دن رات ایک کر کے 14 تاریخ کو کتاب ملتان آرٹس کونسل لے آؤں گا۔
شاہ جی! جب 14 اگست 2000ء کا دن طلوع ہوا تو میرا خیال تھا کہ آپ بغیر کتاب کے آرٹس کونسل میں موجود ہوں گے لیکن مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آپ نہ صرف ہال میں موجود سینکڑوں لوگوں کو اپنی کتاب مفت تقسیم کر رہے تھے بلکہ بڑی بے چینی سے تقریب کے مہمانِ خصوصی کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ دن اور 21 اپریل 2017ء کے دن تک مَیں نے آپ کو ہمیشہ کتابوں کے درمیان ہی پایا۔ کبھی آپ شاعری کی کتاب کا مسودہ بغل میں دبائے میرے ہاں موجود ہوتے تو کبھی آپ ”دبستانِ ملتان“ کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کرتے۔ شاہ جی آپ کو یاد ہو گا جن دنوں آپ دبستانِ ملتان پر کام کر رہے تھے تب بھی آپ شدید بیمار ہوئے تھے۔ اُس بیماری سے آپ اتنے مایوس ہوئے کہ ایک دن آپ نے دبستانِ ملتان کا مسودہ اٹھایا اور رضی کے حوالے یہ کہہ کے کر دیا کہ مَیں نے مر جانا ہے، میرے مرنے کے بعد یہ کتاب لازمی شائع ہونی چاہیے۔ آپ کے جانے کے بعد رضی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ مسعود کاظمی کو فوراً کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔ اُن کو سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے۔ مَیں نے آپ سے رابطہ کیا اور پھر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر رانا الطاف احمد کے ذریعے ایمرجنسی وارڈ میں داخل کروایا۔ ایک ہفتہ داخل رہنے کے بعد آپ کی صحت ایسی ہو گئی تھی کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ آپ کبھی بیمار بھی ہوئے تھے۔
محترم کاظمی صاحب آپ کو تو معلوم نہیں ہو گا لیکن آج بتائے دیتے ہیں ہم تمام دوستوں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی کی عیادت کو جاتے تو کبھی آپ کا ہاتھ خالی نہیں ہوتا تھا۔ کبھی گلدستہ یا کوئی فروٹ آپ کے ہاتھ میں ہوتا۔ سخن ور فورم کی سالگرہ کے موقع پر ہم ایک کیک تو کاٹتے لیکن آپ علیحدہ سے مٹھائی لانا نہ بھولتے۔ شاہ جی آپ کو یاد تو ہو گا ایک مرتبہ سہیل عابدی سے کسی بات پر آپ ناراض ہو گئے اور ہفتہ وار ادبی بیٹھک میں آپ الگ تھلگ دکھائی دیتے۔ پھر ایک دن مَیں نے آپ دونوں سے گزارش کی کہ اگر اس دنیا میں سیّد ہی لڑنے لگ جائیں تو ہم جیسے اُمتیوں کا کیا بنے گا؟ یہ سنتے ہی سہیل عابدی نے آپ کو گلے لگا لیا جس پر آپ نے اُسے فوراً معاف کر دیا۔
شاہ جی آپ کو دوستوں کی وہ شرارت تو یاد ہی ہو گی جب ایامِ عزا چل رہے تھے اور آپ کی سالگرہ آ گئی۔ ہم نے تمام دوستوں کو آپ کی سالگرہ کا میسج بھجوا دیا۔ دوسری جانب آپ نے سالگرہ کی تقریب میں آنے سے انکار کر دیا۔ ایک طرف چاہنے والوں کا اصرار اور دوسری طرف آپ کی محمد و آلِ محمد سے محبت۔ جب آپ نے آخری فیصلہ یہ سنایا کہ آپ جو مرضی کر لیں مَیں نے ان دنوں اپنی سالگرہ نہیں منانی تو پھر مَیں نے آپ کو یہ کہہ کر منا لیا کہ شاہ جی اپنی سالگرہ کا کیک نیازِ حسین سمجھ کر کھا لیجئے گا جس پر آپ پندرہ بیس منٹ بعد ہمارے درمیان آ گئے۔ لیکن پوری تقریب میں آپ ایک ہی بات کہتے رہے کہ میری بیگم اور بچے ناراض ہو جائیں گے۔
شاہ جی جب دبستانِ ملتان شائع ہو کر آئی تو مَیں نے آپ سے کہا کہ ہم دوستوں کا فیصلہ ہے کہ یہ کتاب ہم آپ سے تحفے کے طور پر نہیں لیں گے بلکہ تمام دوست آپ سے پانچ یا دس کاپیاں خرید کر تقسیم کریں گے۔ کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اس کتاب کی اشاعت میں آپ کی خطیر رقم خرچ ہوئی تھی۔ فی الحال اس خط میں دبستانِ ملتان کی تقریبِ رونمائی کا ذکر نہیں کروں گا جس میں ملتان کے لوگوں نے بھرپور انداز میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔ اس وقت تو مَیں آپ سے ایک شکوہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ جب کبھی آپ کی طبیعت خراب ہوتی تھی خواہ وہ دن ہوتا یا رات آپ کا بڑی محبت سے فون آ جاتا۔ بات کرتے ہوئے اکثر جملہ نامکمل ہو جاتا۔ تو میرے لیے اتنا ہی کافی ہوتا تھا کہ مَیں نے فوری طور پر کسی ڈاکٹر کے پاس بھجوانا ہے۔سرگودھا میں موجود ڈاکٹر پرویز حیدر ہوں یا ملتان کے معروف کارڈیالوجسٹ سارے ہی آپ سے بے لوث محبت کرتے تھے۔ آپ کے انتقال سے چند دن پہلے ہم دوستوں سمیت آپ کی عیادت کو آئے تو آپ نے کتنی خوشی کا اظہار کیا۔ اور شاہ جی جب مَیں 21 اپریل کی صبح کتاب میلے میں شرکت کے لیے ملتان سے اسلام آباد روانہ ہوا تو تمام دن کی تھکاوٹ کے بعد مَیں نے نہ چاہتے ہوئے بھی آرام کی غرض سے اپنا موبائل سرِشام آف کر دیا۔ اگلی صبح جب اٹھا تو میرے کمرے میں موجود محمد مختار علی نے پہلی بات یہی بتائی کہ ایک افسوسناک خبر ہے۔ سیّد مسعود کاظمی کا رات کو انتقال ہو گیا ہے تو مَیں فوراً اپنے موبائل کی طرف بھاگا کہ شاید اس پہ کوئی آپ کی مس کال آئی ہوئی۔ وہاں کوئی مِس کال نہیں تھی کیونکہ رات مَیں نے اپنے ہاتھوں ہی سے تو موبائل آف کیا تھا۔ شاہ جی مجھے یقین ہے آپ نے دنیا سے جاتے ہوئے آخری مرتبہ مجھے ضرور ڈائل کیا ہو گا۔ اور یہ کہنا چاہتے ہوں گے شاکر صاحب سانس نہیں آ رہا۔ کسی ڈاکٹر کے پاس بھیج دیں۔ آگے سے آپ کو میرا موبائل بند ملا ہو گا۔ شاہ جی میری معذرت قبول کریں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ اُس دن میرے شہر کو ویران کر دیں گے جس دن مَیں ملتان میں نہیں ہوں گا۔ تین دن بعد جب مَیں آپ کے گھر پہنچا تو آپ کے دونوں بیٹوں نے روتے ہوئے اس کمرے میں بٹھایا جہاں آپ کی لائبریری ہے۔ شاہ جی اس کمرے میں سارا کچھ ویسے کا ویسے ہی تھا بس آپ نہیں تھے۔ آپ کی خوبصورت آواز سننے کو نہیں ملی۔ البتہ آپ اپنی کتابوں میں مجھے جھانکتے ہوئے نظر آئے۔ مَیں نے آپ کی لکھی ہوئی کتابوں کو چھوا، اپنے ہونٹوں سے چوما، آنکھوں سے پڑھا اور زبان سے آپ کو خداحافظ کہہ کے نکل آیا۔ اس گھر اب ہمارا کوئی نہیں تھا۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)