ڈان ہوٹل بلوچستان کی سیاسی ،ادبی اور سماجی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔
یہ ہوٹل بھی کوئٹہ کے دیگر بڑے ہوٹلوں کی طرح ایرانیوں کی ملکیت تھا۔ پچھلی صدی کی ستر اور اَسی کی دہائیوں میں یہاں کے ہوٹل مختلف سماجی،سیاسی اور ادبی گروہوں کے ٹھکانوں کے بہ طور مخصوص ہوا کرتے تھے۔ جناح روڈ کے انتہائی شمالی سرے پر گوشہ ادب کے سامنے لبرٹی ہوٹل ہوا کرتا تھا، جہاں پر مرحوم عبدالرحمن ایسوٹ کے پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن والے بیٹھا کرتے تھے۔ یہی ہوٹل پاکستان سوشلسٹ پارٹی،سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے کارکنوں کا بھی اڈہ تھا۔ نیچے آئیں تو ریگل ہوٹل آئے گا۔ یہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی بیٹھک تھا۔ اس ہوٹل کے عین سامنے فرح ہوٹل واقع ہے جو کہ بڑے بڑے بیوروکریٹوں،ٹھیکیداروں اور بڑے لیڈروں کا ”اشراف خانہ“ تھا ۔ اونچے درجے کے اس ہوٹل میں کبھی کبھار صاحب لوگ کافی بھی پیتے تھے جو کہ بلوچستان میں ایک انوکھا اور ”عیاشی“ والا مشروب تصور ہوتا تھا ۔جنوب کی طرف اسی جناح روڈ پر واقع فردوسی ہوٹل میں پیٹی معاشی گروہ کے افراد بیٹھا کرتے تھے۔ اس سے ذرا جنوب کی طرف چوک پر ڈان ہوٹل واقع تھا۔ لیاقت روڈ والا کیفِ ایران اور مشن روڈ والا کیفِ صادق شہر میں نو آمد عناصر، طالب علموں اور عام لوگوں کے لیے عجوبہ تھے۔ وہاں خصوصاً کیفِ ایران میں دیواروں پرچاروں طرف آئینے لگے ہوتے تھے۔ اس کی اصل دیواروں کا پتہ ہی نہیں چل سکتا تھا۔ آئینوں میں اندر کے لوگ ہی نظر آتے اور اس طرح یہ بہت بڑی جگہ لگتی تھی۔ یہاں گراموفون پر فرمائش پہ گانوں کے ریکارڈ لگائے جاتے تھے۔ پرانے مغموم گانے، محبوبوں کے مسترد کردہ عاشقوں کے جلتے دلوں کو آکسیجن مہیا کرتے تھے جب کہ شوخ و چنچل گانوں کی فرمائشیں ان لوگوں کی طرف سے چٹ پر لکھ کر بیرے کے ہاتھوں کا ونٹر تک پہنچ جاتی تھیں ،جنہیں محبت کی ان مول نعمت حاصل تھی۔
میزان چوک پر قائم المرکز ہوٹل بھیڑ بکریوں کی تجارت سے وابستہ لوگوں کا مرکز تھا ،جہاں عام دیہاتی لوگ بڑی بڑی ڈانگیں (لاٹھیاں) لیے چند لمحوں کے لیے پیڑی(منڈی) سے نکل کر اپنی تھکاوٹ دور کرنے یا پھرقیمتوں پر مول تول کرنے بیٹھ جاتے۔ دیہاتی لوگ ہمیشہ اونچی اونچی آواز میں بولتے ہیں اورایک فقرہ دو تین بار دہراتے جاتے ہیں اور تکیہ کلام کے طور پر اپنے مخاطب سے پوچھتے رہتے ہیں” پوہ بیثغے“ (سمجھ گئے؟)۔ ان لوگوں میں بات کا سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے ،اس لیے کہ ان کی ہر بات کا مطلب ہوتا ہے ،لفظ کی اہمیت ہوتی ہے،ان کا اقرار نامہ معاہدہ ،تحریر،ریکارڈ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا ہے، اس لیے زبان بڑی تقدس والی شے ہوتی ہے۔ جبھی تو وہ قول دیتے ہوئے کہتا ہے؛ ” مجھے زبان ہے کہ فلاں کام فلاں روز کروں گا“ ”ھبر“( لفظ) کہا بھی تو قول ہوگیا۔ ”بے زبان“کا لفظ بلوچی میں گونگے کے لیے نہیں بلکہ بے اعتبار آدمی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ المرکز ہوٹل میں بہت خوب صورت روایت اور بھیانک تاجرانہ حربوں کا امتزاج موجود ہوتا۔ دل مل گئے تو فیاضی کے ساتھ کیک پیس بھی منگایا جاتا اور ہر تصنع سے ماورا ہوکر داڑھی،مونچھیں،قمیص اور ہاتھ”پیس آلود“ کیے جاتے۔
ڈان ہوٹل شہر کے دیگر سارے ہوٹلوں سے ممتاز اور یکتا تھا۔ یہ کسی خاص سیاسی و ادبی گروہ کے لیے مخصوص نہ تھا بلکہ یہاں مختلف بولیاں بولنے والے اور مختلف سماجی پرتوں سے تعلق رکھنے والے حضرات (خواتین کب ہوٹلنگ کرتی ہیں!) بیٹھا کرتے تھے۔ یہ انسانوں کا جنرل سٹور تھا جہاں ہر علاقے اور ہر عمر کے لوگ براجمان رہتے ۔ یہ جگہ ہر وقت دانش وروں،سیاست دانوں اور سیاست کاروں،عوامی تنظیموں کے کارکنوں ،راہنماوں اور راہ زنوں،شاعروں ، شاطروں،ادبیوں اور ادبی مافیا کے ممبروں،ایڈیٹروں اور آڈیٹروں سے بھری رہتی تھی۔۔۔۔اور سیاست دانوں کی رونق میں اضافے کے لیے یہاں سی آئی ڈی والے بھی ہمیشہ موجود رہتے تھے۔
یہ گویا سفید پوش مڈل کلاس سے وابستہ لوگوں کا ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ ریاست قلات کی طرح اس میں دو حصے(ایوانِ خاص اور ایوان ِعام) ہوا کرتے تھے۔ ایوان ِخاص ایئر کنڈیشن کمرہ تھا۔ ایئر کنڈیشن ہمارے صوبہ میں بھی کوئی خاص رعب نہیں جما سکا۔ پنجابی ناشکروں نے تو اسے اس قدر حقیر بنا ڈالا کہ وہاں انہوں نے ایئر کنڈیشن بسوں اور کوچوں کا نام(ٹھنڈی بس) رکھ دیا۔ اگر گرم موسم کو ٹھنڈا یخ کرنے والا ایئر کنڈیشن انگریز کے زمانے میں اُس کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ یقیناً پورے بلوچستان پر ایک بھی گولی چلائے بغیر قبضہ کرچکا ہوتا۔جنرل ڈائر نے صرف اپنی کار موٹر کو جادو کا کمرہ قرار دے کر نوشکی کے پورے علاقے کو اس قدر زیر کر لیا تھا کہ لوگ اس سے بارش کی دعائیں کرنے کی درخواستیں کرتے۔ ایک بار تو اس غیر مسلم کی دعا سے بارش برسی بھی تھی!۔
ڈان ہوٹل کے ایئر کنڈیشن والے حصے میں کرسیوں کے بجائے صوفے رکھے ہوئے تھے جسے بلوچ ” صُوفہ“ کہتے ہیں ۔ اس حصے میں کام کرنے والے بیرے شکل و صورت اور لباس میں اجلے ہوتے تھے۔ یہاں چائے کا ریٹ عام حصے کی بہ نسبت زیادہ تھا۔ اور ٹپ بھی ذرا زیادہ دینی پڑتی تھی ۔
ڈان ہوٹل کا دوسرا حصہ عام درمیانہ طبقے کے لوگوں کے لیے تھا۔ڈان ہوٹل کے اس حصہ میں آپ کو کہیں کوئی شاعر بیٹھا نظر آتا جو اپنے دوستوں کو اپناتازہ کلام جبراًسنا رہا ہوتا۔ چھ آٹھ مصرعوں پر مشتمل غزلوں کا رواج ابھی حال ہی میں پڑنا شر وع ہوگیا ہے۔ تین مصرعوں والے ہائیکو کا تو تصور ہی نہ تھا۔ حالاں کہ کچھ دوست بلوچی”ڈیھی“ کی ایک صورت کو جاپانی ہائیکو کی ایک صورت بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جیسے کہ مذہبی راہنما سائنس کی ہر نئی دریافت کو اپنی روحانی کتابوں میں سے اخذ کردہ قرار دیتا ہے۔
دانش ورانہ بحثیں رواں دواں تھیں۔ جب دیر ہوجاتی تو وقفہ کا اعلان کیا جاتا اور اگلی بیٹھک میں کسی بھی میز پر یا بیک وقت دو دو میزوں پہ بحث شروع ہوجاتی ۔ ڈان ہوٹل میں بیٹھنے والے صحافی بھی جانے پہچانے سے تھے۔ اس وقت کوئی پریس کلب نہیں تھا ۔ کوئی رشوت وغیرہ کا لمبا اور ننگا سلسلہ بھی نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ چائے کا ایک کپ کسی نے پلا دیا۔ وہ بھی روایت اور ادب و عزت کے دائرے میں۔
الغرض کیفے ڈان بہت عرصے تک ہر قسم ،ہر عمر اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کا ثقافتی و اطلاعاتی مرکز رہا۔ ایک پوری نسل نے یہیں پر سیکھا کہ Separate چائے کیا ہوتی ہے۔ اس چائے میں دودھ چینی کے تناسب میں ہمیشہ گھپلا ہوتا تھا۔میرے ایک عزیز نے چائنا ہوٹل میں Soup کے پیالے میں مائع سرخ مرچ کا ایک پورا چمچ سرکہ سمجھ کر ڈال دیا اور پھر اصلی بلوچ بن کر سارا وقت یہ سوپ’ کھاتا‘ رہا۔ اس طرح کہ دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے، ناک بہہ رہی تھی اور منہ سے شوں شوں کی آوازیں تیز رفتاری اور بلند آہنگی سے آ رہی تھیں۔چوں کہ اس چائے کے لیے لوگوں کاذوق (Taste ) بنانا تھا اس لیے بس فیشن کے بہ طور یہ ماڈرن کام کرنا پڑتا۔
دیگر ایرانی ہوٹلوں کی طرح یہاں بھی بیرے کشمیر ی ہوتے تھے۔ کم سن،خوب صورت اور مودب۔ یورپ میں سیلز گرلز ہوتی ہیں،مشرق میں سیلز بوائز! بیروں کی وردی سفید ہوا کرتی تھی۔ چائے serve کرنے اور برتن لے جانے کے بعد وہ ایک پلیٹ میں کاغذ پہ لکھا ہوا چائے کا بل لاتا اور ادب و امید کے ساتھ میز پر رکھتا اور خود اٹینشن ہوکرکھڑا ہوجاتا۔ بل دینے والا مطلوبہ رقم ادا کرنے کے علاوہ کچھ اضافی پیسے بھی ٹپ کے طورپر پلیٹ میں رکھ دیتا۔ بیرا شکریہ کہتا ہوا اپنی پلیٹ سنبھالتا،اضافی رقم اپنی جیب میں ڈالتا اور اصل بل کے پیسے کاؤنٹر پر مالک کو دے دیتا۔
دیہاتی لوگ ڈان یاترا کے بعد اپنے علاقوں میں واپس جا کر ساری روداد تفصیل سے بیان کرتے اور سامعین حیرت و دلچسپی سے یہ انہونی باتیں سنتے جاتے۔ اضافی رقم کو ٹپ کہا جاتا تھا۔ ٹپ کو الٹا کردیں تو یہ بلوچی زبان میں ایک گالی بن جاتی ہے مگر سرمایہ داری نظام تو خود ایک گالی ہوتا ہے۔یہ ذلتوں کا نظام ہوتا ہے۔ لہٰذا آج جاکر بلوچوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ ان کے صوبے میں زندگی کے ہر شعبہ میں ٹپ ہی ٹپ کا راج ہے۔ کہیں کمیشن کے نام پر،کہیں فیس‘ کہیں کک بیک اور کہیں کنسلٹنسی کے نام پر۔
ہوٹل کا بل دینے کے پیچھے بھی عجیب سازشیں اور قصے ہوتے ہیں۔ تلواروں کی لڑائی میں جواں مرد اور بہادر وہی شخص ہوتا ہے جو انتہائی دلیری اور پھرتی سے تلوار کے سامنے جائے، اپنے ساتھیوں، دوستوں اور عزیزوں میں سب سے پہلے بل ادا کرے۔ ہوٹل کا کاؤنٹر بھی تو ایک قسم کا تلوار بردار دشمن ہوتا ہے۔ ہر جواں مرد اپنے ساتھیوں کو کہنیوں سے پیچھے دھکیلتے ہوئے ،قسم اور طلاق کھاتے ہوئے سب سے پہلے کاؤنٹر پر پہنچتا ہے اور اپنا ذاتی وقار و ناموس سمجھ کر ہر ممکن طریقے سے بل ادا کرتا ہے۔ اور بل کی ادائیگی کا یہ عمل جنگِ نفسک کا منظر نامہ بن جاتا ہے۔
تنگ دستی کا غالب ہوجانا ایسے موقعوں پر ندامت سے مار دیتا تھا۔ مگر یہاں بل نہ دینے کے عادی مجرم بھی موجود ہوتے تھے ،جو یا تو ویسے ہی پیچھے رہ جانے والے آخری سرے کے بزدل ہوتے تھے یا پھر اٹھتے ہی تھوڑی سی مزاحمت میں ہی ہتھیار ڈالتے، اور یا کاؤنٹر پر جا کر اپنی جیبیں ٹٹولتے رہتے جب تک کہ بہادر جوہردار تیغ کاٹ چکا ہوتا ۔ کئی لوگوں کے پاس تو بل ادا کرتے وقت ایک ہی بڑا کم بخت نوٹ ہوتا تھا جس کا ٹوٹا ملتا ہی نہ تھا۔ قدِآدم آئینے لگے ہوئے ہوٹلوں میں بل نہ دینے والے کئی عادی مجرم اس وقت پتلون کی جیب سے کنگھی نکال کر آئینے کے سامنے زلف سنوارنے کھڑے ہوجاتے، جب بل ادا کرنے کا وقت ہوتا تھا ۔ بعد میں وہ اپنے ساتھیوں کے سامنے کھڑے اتراتا بھی تھا کہ ”دیکھو فلاں کو کس طرح بے وقوف بنا کر اس سے ہوٹل کا بل دلوایا میں نے ….“غیرت والے کو شہر میں نرم ترین الفاظ میں ”بے وقوف“ کہتے ہیں۔
ڈان ہوٹل میں ایک ہی مفت اخبار ہوا کرتا تھا، جسے پڑھنے کے لیے سو بیمار انتظار کے عذاب میں بیٹھے ہوتے۔ وِل ڈورانٹ سچ کہتا ہے کہ آج کے انسان کے جینز میں پتھر کے زمانے کے انسان کی عادتیں موجود ہیں جس وقت کہ شکار کم ہوتا تھا اور انسان ایک دوسرے کا شکار چھین کر اسے قتل کردیا کرتا۔ ڈان ہوٹل کا اخبار اور اس پر چھینا جھپٹی بالکل اسی دور کی یاد دلاتا تھا۔ پھر جس کم بخت کے ہاتھ میں غنیمت کا یہ خزانہ آجاتا تو وہ تو اشتہار تک پڑھ لیتا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کئی لوگ اسے پڑھنے کے لیے بے تاب ہیں۔ یہ ہے قبائلی معاشر ے کا Sadism!
ڈان ہوٹل میں ٹوائلٹ کی سہولت بھی موجود تھی جس کی اندرونی دیواروں پر ”اوپر دیکھو،دائیں دیکھو….“ جیسی بکواسیات کے علاوہ اور بھی بہت کچھ لکھا ہوتا ۔ تقریباً ہرسیاسی پارٹی اور طلبہ تنظیم کی زندہ بادی کی خواہش بھی لکھی ہوتی تھی۔ وہاں حاکمِ وقت کی عزیزاؤں اور اقارباؤں کے علاوہ خود اُس کے اپنے نام بھی بڑی ٹھیٹ گستاخیاں لکھی ہوتیں۔
..لوگوں کو اسی ہوٹل میں یہ معلومات بھی حاصل ہوتی تھیں کہ بوٹ پالش کرنے کا ایک علیحدہ”کاروبار“ وجود میں آ گیا ہے ۔ پالشی اپنے ہاتھ میں ہوائی چپل لیے ہوٹل میں داخل ہوتا اور بڑے سٹائلش انداز میں”پالس ش ش“ کہتا ہوا گزرتا ۔ جس کو جوتا پالش کروانا ہوتا، وہ اپنے جوتے اتار کر اسے دے دیتا اور خود ہوائی چپل پہن لیتا ۔ جوتے چمکتے ہوئے واپس آتے،ہوائی چپل واپس لے لیے جاتے اور اجرت ادا کی جاتی۔ مارکیٹ اکانومی کے تضادات دیکھئے؛ کہاں تو خدا کے گھر یعنی مسجد سے جوتے چرانے کا معمول اور کہاں جوتے دور لے جا کر پالش کرکے واپس پہنچا دینے کا معتبر وطیرہ!” واہ سرکار، تئی کمال!“
افسوس کہ ڈان ہوٹل اب بند ہوچکا اور اس کی جگہ ایک بینک نے اپنا سرمایہ دارانہ دھندہ شروع کردیا۔ زندگی ‘دکاں کے نام ہوگئی۔
(بشکریہ:حال حوال ۔۔ کوئٹہ)
فیس بک کمینٹ