اس وقت ہم پرائمری سکول میں پڑھتے تھے ۔ایک دن ہیڈ ماسٹر لطیف صاحب نے اعلان کیا کہ جنگ چھڑ گئی ہے اس لیے سکول بند کرنے کا حکم آیا ہے ۔میں نے پوچھا دوبارہ کب کھلیں گے تو ماسٹر جی نے بتایا جب اوپر سے حکم آئے گا تو آپ کو پتہ چل جائے گا ۔سب سے پہلے نعرہ حیدری لگا کے بستہ اٹھا کر گیٹ سے نکلنے والا بچہ میں تھا ۔خوشی سے میل ڈیڑھ میل کا فاصلہ دوڑ کر طے کیا ۔گاؤ ں کے باہر باوا مستان شاہ کے دربار پر کھڑے ہو کر دعا مانگی کہ بابا جی یہ جنگ کم از ایک سال تو ختم نہ ہونے دینا ۔یہ جنگ کیا ہوتی ہے بچوں کو کیا معلوم ۔گھر آ کر خوشی سے امی فضہ کو بتایا کہ امی جنگ لگ گئی ہے اور سکول بند ہو گئے ہیں ۔تو امی سے ہلکی سی ڈانٹ پڑی کہ یہ خوش ہونے والی بات نہیں ہے ۔جنگ میں ماؤں کے جوان بیٹے مر جاتے ہیں بہت خون بہتا ہے تو دل میں ڈر محسوس ہوا ۔جنگ تو کچھ دن بعد ختم ہو گئی مگر ہر بندہ اداس اداس پھر رہا تھا ۔پھر میں نے امی سے پوچھا اب کیا مسئلہ ہے لوگ جنگ بند ہونے پر اداس کیوں ہیں ؟ تو معلوم ہوا جنگ بند ہونے پر تو خوش ہیں مگر ہمارے بہت سارے فوجی بھائی بیٹے ہندوستان نے قید کر لیے ہیں ۔پھر کچھ دنوں بعد شام کو ریڈیو کے گرد سب بڑے خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ۔ریڈیو سے قیدی فوجی بولتے اپنا اور اپنے گاؤں کا نام بتاتے اور ہر روز یہ خبر ملتی کہ ہمارے گاؤں اور فلاں فلاں گاؤں کا فوجی ریڈیو پر بولا ہے ۔لوگ ان کی خیریت کی خبر سن کر خوش ہوتے ۔کسی گاؤں یا ارد گرد کے گاؤں کے فوجی کی خبر ملتی تو دربار پر میٹھی روٹیاں گڑ اور کبھی کبھی شہر سے منگوا کر مٹھائی بھی بانٹی جاتی ۔میرے گاؤں کی ماسی ریشماں اکثر ہمارے گھر آ کر کہتی نکے شاہ جی قیصر کا ابا خیریت سے گھر آ جائے گا ناں ،دعا کرو ولی اولیاوں کی اولاد ہو ۔ماسی کا شوہر فضل حسین بنگال میں تھا ۔جب اس کا بچہ ہونے والا تھا تو مجھے گھر اٹھا کر لے جاتی اور مرنڈہ لے کر دیتی اور کہتی کہ میرے گھر کے بنیرے پر چڑی بولے گی یا چڑا تو میں سمجھے بغیر کہتا ماسی چڑا بولے گا ۔بعد میں ماسی کے گھر قیصر پیدا ہوا تو ماسی میری معتقد ہو گئی اور کہتی یہ اس نکے شاہ کی دعا ہے ۔مگر اس بار میری دعا قبول نہیں ہوئی ۔ایک ٹھنڈی یخ شام کو ماسی کی چیخوں نے سب کے دل دہلا دیے ۔میں بھی دوسرے بڑوں اور بچوں کے ساتھ بھاگتا ہوا ماسی ریشماں کے گھر پہنچا تو ماسی بال کھولے دیواروں پر ہاتھ مار مار کر چیخ رہی تھی ۔او لوکو میں وسدی رسدی اجڑ گئی ۔میرا نکا معصوم قیصر یتیم ہو گیا ۔ ہنڑ ما پتر کہلے رہ گئے ۔او قیصر دے ابیا توں اپنڑے منتاں مراداں نال لبھے پتر نوں نہ ویکھ سکیا نہ کھڈا سکیا ۔او ربا میرے پتر دا کی بنڑے گا ۔ماسی کی چیخیں اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں ۔میں گھر آیا تو امی بھی رو رہی تھیں ۔وہ پردے کی وجہ سے وہاں جا نہیں سکتی تھیں ۔جب رات ہوئی تو برادری کی دوسری عورتیں اکٹھی ہو کر افسوس کے لیے گئیں ۔کچھ دن بعد ہماری برادری کے سید نذر شاہ صاحب کے گھر سے اسی طرح رونے پیٹنے کی آوازیں آئیں ۔میں وہاں پہنچا تو ان کا سب سے چھوٹا بیٹا سجاد جو مجھ سے دو سال بڑا ہو گا اپنے والد کی فوٹو گلے سے لگا کر اسی طرح رو رہا تھا ۔میرے شاہ جی ہمیں پیسے نہیں چاہیں بس واپس آ جاؤ ۔ بس اسی طرح کبھی خوشی کی خبر ملتی تو کبھی غم کی ۔کبھی گاؤں کے باہر پردیسیوں کو یاد کر کے کوئی ٹپہ ماہیا گاتا تو سارے گاؤں میں اداسی چھا جاتی ۔جن کے بیٹے قید میں تھے وہ کسان جب گلی محلے سے گزرتے تو ہر موڑ پر لوگ انہیں روک کر تسلی دلاسا دیتے ۔میں نے ایسے بوڑھے باپوں کو اکیلے چلتے ہوئے چپ چاپ روتے ہوئے بھی دیکھا ۔ہر روز بہت ساری عورتیں دربار پر حاضری دینے آتیں کہ ان کے پیارے پھر سے انہیں مل جائیں ۔میں نے کسی کو جنرل نیازی کو برا بھلا کہتے ہوے نہیں سنا ۔بلکہ لوگوں کو اس کی تحریف کرتے ضرور سنا کہ ہزاروں میل دور دریاؤں میں گھری ہوئی سر زمین پر ہمارے پتر مروانے کی بجائے ہتھیار پھینک کر جنگ بند کر دی ۔زندہ رہے تو رب ایک دن ملاد ے گا ۔ پھر پینتالیس سال بعد ان چیخوں میں 16 دسمبر 1914 کو پشاور آرمی پبلک سکول کے بچوں کی چیخیں بھی شامل ہو گئیں ۔
فیس بک کمینٹ