اس وقت جب یہ سطریں رقم کر رہا ہوں، سندھ میں لعل شہباز قلندر کے دربار پر خون کی ہولی کھیلی جا چکی ہے۔ یہ اس دربار پر پہلا حملہ نہیں ہے۔ قلندر کے دربار پر حملہ سندھ میں رواداری کی سب سے بڑی علامت پر حملہ ہے۔بیس برس ہوتے ہیں ، میں قلندر کے دربار پر سلام کرنے حاضر ہوا تھا۔ اس لیے کہ یہ وہ صوفی ہے جس نے بلا امتیاز مذہب و ملت رنگ و نسل ہر طبقے کو گلے سے لگایا۔بالخصوص کچلے ہوئے اور محروم طبقات کو۔ اُن کے آنسو پونچھے۔ اُن کے دکھوں دردوں کا بوجھ اپنے سینے پر محسوس کیا۔ جو عمومی مذہبی ذہن کبھی نہیں کرتا۔اس عظیم صوفی کے دربار پر آج بھی چراغی کی رسم ہندو ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف سندھ کے قرب وجوار سے بلکہ دُور دُور سے لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔یہاں آ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے دکھ درد بھول جاتے ہیں، انہیں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی ان کے سلگتے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہے۔ بہت آسودگی ملتی ہے یہاں خلق خدا کو۔ ایسی جائے پناہ بھی نہ چھوڑی ان بے دردوں نے۔ یہ کیسے لوگ ہیں اور اُن کا مذہب کیسا ہے؟ جو بے گناہوں کا خون پی کر نہ سیر ہوتا ہے نہ ضمیر پر کوئی خلش محسوس کرتا ہے۔ میڈیا پر کہا جا رہا ہے ، یہ دہشت گردی کی نئی لہر ہے۔نئی کہاں سے جناب؟۔ یہ پیچھے ہٹی اور تھمی ہی کہاں تھی؟۔ یہ تو ایک مسلسل لہر ہے جو پیچھے ہٹے اور تھمے بغیر ہمارے درو دیوار کو خون سے نہلا رہی ہے۔ پچھلے دنوں بتایا جا رہا تھا، ستر ہزار سے زیادہ بے گناہ انسان اس کی نذر ہو چُکے ہیں۔ ایسی کونسی سہ ماہی یا شش ماہی ہے، یا سال ایسا جس کا دامن بے گناہ خون سے پاک ہو؟۔ دنیا میں ایسی کونسی ریاست ہو گی جس نے ستر ہزار انسانوں کا خون دیکھ کر بھی کوئی سنجیدہ لائحہ عمل نہ اپنایا ہو؟۔ اس عفریت کے خلاف صف اول میں کوئی لڑ رہا ہے تو وہ ہماری بہادر افواج ہیں۔ بندوق برداروں سے تو فوج اور پولیس ہی نمٹ سکتی ہے اور وہ نمٹ رہی ہیں۔ لیکن کیا یہ عفریت صرف بندوق کا معاملہ ہے یا کچھ اور بھی؟۔ گاﺅں کے ایک ناخواندہ چرواہے کو بھی معلوم ہے کہ یہ باقاعدہ ایک سکول ہے۔ اس کی پرائمری سطح فرقہ واریت ہے۔ اس سے اگلا درجہ فرقے کی بنیاد پر تنظیم سازی اور انتہا عسکری جتھہ بندی ہوتی ہے۔ جس ریاست نے ابھی تک فرقہ بندی کے خلاف کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کر کے رکاوٹ نہیں ڈالی، وہ ریاست اس منظم دہشت گردی کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ کیا یہ کام بھی افواج کے کرنے کا ہے؟ یا سیاسی جکڑ بندیوں میں جکڑی ہوئی پولیس اس پر قابو پا سکتی ہے؟۔ گلی محلوں میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والے نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ موج میلہ کر رہے ہیں۔ ایک صاحب جو چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہیں پورے ملک میں مذہب کے نام پر سرعام تشدد کا پرچار کر رہے ہیں۔ نہ صرف پرچار بلکہ تنظیم سازی بھی۔ پنجاب سے سندھ تک تو وہ اپنا کام کر چکے ہیں۔ کیا ریاست اس انتظار میں ہے جب وہ کوئی مسلح جتھہ ترتیب دے کر ریاست کو ناکوں چنے چبوانے کا عمل شروع نہیں کرتے، اس وقت تک اُن سے صرف نظر ہی کیا جاتا رہے گا۔ پچھلے دنوں بی بی سی جیسے ادارے نے بھی اُن کی سرگرمیوں پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔لیکن ہماری ریاست کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ ایک ہفتے کے سات دنوں میں آٹھ حملے اور اس پر دعویٰ کہ کمر توڑ دی گئی ہے۔ اس سارے خون کا اصل ذمہ دار وہ مقتدر ذہن ہے جو آج بھی اس بات کا قائل ہے کہ سہولت کاروں سے درگزر کر کے بھی ہم اس آگ کو بجھا لیں گے۔میڈیا، پولیس، خفیہ ادارے،سکول، ہسپتال، تھانے، کچہریاں، عدالتیں، چھاؤنیاں، مسجدیں، امام باڑے، گرجے، مندر، خانقاہیں، تھڑے، تکیے، ڈیرے، دوکانیں، شاپنگ مال، کھیل کے میدان ، چوپالیں، سڑکیں چوہراہے، بسیں، ٹرینیں، ٹیکسیاں، پرائیویٹ کاریں، چاردیواریاں، کوئی بھی مقام ان سے محفوظ نہیں ہے۔ جو اپنے پاﺅں پر کھڑی ریاستیں ہوتی ہیں وہ اپنے ایک پولیس کانسٹیبل کے منہ پر مارا گیا تھپڑ بھی برداشت نہیں کرتیں۔ اس لیے کہ قانون نافذ کرنے والے اس ادنیٰ کارندے کا منہ ریاست کا اپنامنہ ہوتا ہے۔ اور یہاں اعلیٰ سطح کے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مار دیے جاتے ہیں، اور حکومت و ریاست زبان کھولتی ہے تو ایک گھسا پٹہ لفظ بولنے کے لیے” مذمت“۔یقین جانیں اب تو اس لفظ سے چڑ سی محسوس ہونے لگی ہے۔ افواج اور پولیس کی سطح پر بندوق برداروں سے نمٹنے کے علاوہ ریاست و حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عمل کیا ہے؟ یہ عمل اسے عوام کے سامنے سرخرو کرنے کے لیے کیا کافی ہے؟۔ ہر گز نہیں۔افغانستان سے ملحقہ سرحدوں پر افواج نے اپنی حد تک حد بندی کی ہے۔ لیکن حکومت اپنے میگا منصوبوں سے توجہ ہٹا کر (جن میں سے بہت سارے عوام پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں) اس طویل سرحد پر کوئی ٹھوس حد بندی کا کام کب شروع کر رہی ہے؟۔ گلی محلوں میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے والے مولویوں، ذاکروں، خطیبوں کو قابو کرنے کے لیے کیا ریاست کو نئی جیلوں کی ضرورت ہے؟۔ مسجدوں اور امام باڑوں سے کان پھاڑتے اور سکون غارت کرتے لاﺅڈ سپیکروں کو اتارنے کے لیے بھی حکومت کو فوج کی ضرورت ہے؟۔ یقین جانیں ان میں سے بہت سارے کام ایک بااختیار چھوٹا تھانیدار بھی بڑی آسانی سے سرانجام دے سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کی پیٹھ پر ایم پی اے، ایم این اے، نہیں بلکہ ریاست کی طاقت ہو۔ اگر نفرت و عداوت، فتنہ و فساد کی یہ چھوٹی چھوٹی نرسریاں تلف کیے بغیر دہشت گردی کی اس خار دار فصل کو کاٹ دینے کا کوئی خواب دیکھ رہا ہے تو اسے پہلی فرصت میں اپنے دماغ کا علاج کروا لینا چاہیے۔سندھ حکومت کے انتظام کا حال یہ تھا کہ جائے حادثہ سے جو مناسب ہسپتال قریب تھا وہ ایک سو کلو میٹر دور تھا۔ عدلیہ کا نظام مکمل طور پر گل سڑ چکا ہے۔ فوجی عدالتوں نے اڑھائی سو سے زائد لوگوں کو سزائے موت سنائی مگر بارہ سزاﺅں پر عمل ہوا۔ سول عدالتوں کا حال اس سے بھی خراب ہے۔ مذہبی جماعتیں نیشنل ایکشن پلان پر یک جہتی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انہیں مدرسوں میں مداخلت پسند نہیں۔ سیاسی جماعتیں بے عملی کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں اس عفریت پر کیسے قابو جا سکتا ہے؟۔
فیس بک کمینٹ