تین مارچ سنہ 2009۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے شہر لاہور میں تھی پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کا تیسرا دن شروع ہونا تھا۔ مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے 12 دہشت گردوں نے مہمان کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا تھا۔ اس واقعے میں حفاظت پر ما مور چھ پولیس اہلکار اور ایک ڈرائیور ہلاک ہوئے تھے۔ حملہ آور خودکار رائفلز، گرنیڈ اور راکٹ لانچرز سے لیس تھے۔ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے موجودہ کوچ ٹریور بے لس اور ان کے اسسٹنٹ پال فاربریس دونوں اُس وقت سری لنکا کی ٹیم کے لیے کام کرتے تھے اور ٹیم کی بس میں موجود تھے۔
آج دس سال بعد انھوں نے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتایا کہ اس دن وہ کیسے بچ نکلے تھے۔
فاربریس: ہم بس پر اسی سیٹ پر بیٹھتے تھے جس پر ہم شروع سے بیٹھ رہے تھے۔ میں ہمیشہ بس میں داخل ہو کر تین نشستیں پیچھے دائیں ہاتھ پر ہوتا تھا۔ اس صبح کو میری کمر بس کی کھڑکی کی طرف تھی اور ایک ٹانگ ساتھ کی سیٹ کے اوپر تھی۔ میں اپنے دھوپ والے چشمے صاف کر رہا تھا اور ٹریور کے ساتھ بات کر رہا تھا کہ ہم بولرز کو اس صبح کیا کہیں گے۔
اگلے ہی لمحے بس کو جھٹکا لگا اور جلد ہی وہ رک گئی۔
میں مڑا اور اپنے کندھے کے پیچھے سے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ میں نے ایک شخص کو بندوق کے ساتھ ہماری طرف آتے دیکھا۔ وہ بندوق سے فائر کر رہا تھا۔ پھر میں نے جب بس کے آگے دیکھا تو مجھے ایک سفید گاڑی کی چھت نظر آرہی تھی جسے گول چکر پر ہمیں روکنے کے لیے لایا گیا تھا۔ اگلے ہی لمحے بس پھر دوبارہ زور سے ہلی۔بس پر موجود سری لنکن لوگوں نے پہلے بھی بم حملے دیکھے تھے۔ ان کو بم حملوں کے بارے میں معلومات تھی اس لیے وہ جلدی سے جھک گئے۔ میرے خیال سے جب لوگ جُھکنے کے لیے آوازیں دے رہے تھے تو میں جھٹکے کی وجہ سے گر گیا تھا۔جب میں فرش پر گرا تو میرے گرد کافی خون تھا۔ جب تک میں نے اپنے بازو سے دھات کا ٹکڑا نکلے نہیں دیکھا تھا تب تک مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ خون کہاں سے آرہا ہے۔
بے لس: جب میں صبح جاگا تھا تو مجھے سر میں تھوڑا درد ہو رہا تھا لہٰذا میں سیٹ پر آنکھیں بند کر کے لیٹا ہوا تھا۔ میں عموماً ڈرائیور سے دو نشستیں پیچھے ہوتا تھا جبکہ دلشان ڈرائیور سے بالکل پیچھے میرے سے اگلی نشست پر تھا۔ایک دم سے دھماکا ہوا۔ وہ بہت قریب نہیں تھا لیکن اتنا قریب تھا کہ آپ کی توجہ مرکوز کر لے۔ کچھ ہی سیکنڈ میں گرنیڈ یا کچھ اور چیز بس کے قریب پھٹی۔ میں نیم نیند میں تھا۔ میرے ہلنے سے پہلے ہی سب لوگ بس کے درمیان فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں سیٹوں کے درمیان اچھل کر لیٹ گیا۔
وہاں(سڑک پر) ایک بڑا گول چکر تھا، بعد میں دلشان نے کہا کہ ایک سفید گاڑی وہاں سے ریورس لے کر ہماری بس کے سامنے رک گئی ہے۔ کچھ لوگ اس (گاڑی) سے باہر نکل کر ہماری بس سے آگے کھڑی پولیس کی وین پر فائرنگ کر رہے تھے جبکہ کچھ اور لوگ گول چکر کے درمیان میں ان کا انتظار کر رہے تھے۔
فاربریس: گرنیڈ نے ہمیں زخمی کر دیا، کچھ دھات کے ٹکڑے ہماری بس میں تھے کچھ ہمارے جسم میں۔ اجنتھا مینڈس میرے سے اگلی سیٹ پر تھے وہ بھی فرش پر گر گئے تھے اور ان کے سر کے پچھے سے کافی خون بہ رہا تھا۔بس میں میرے سے آگے مینڈس تھے اور میرے پیچھے تھارنگا پرناوتنا تھے۔ ان کے سینے میں ٹکڑا لگا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ ان کی سفید شرٹ خون سے لت پت تھی۔ وہ اپنی سیٹ پر ہی بے ہوش ہو گئے تھے ان کے سامنے بیٹھے ٹیم کے فیزیو اور ٹرینر نے ان کو ٹانگ سے کھینچ کر فرش پر لٹا دیا۔
ان کے پیچھے کمار سنگا کارا اور تھلان سمراویرا تھے جو اکٹھے بیٹھتے تھے۔جب سنگاکارا فرش پر گرے تو سمراویرا ان کے اوپر گرے۔ ان کو ان کی ران کے اوپر والے حصے میں گولی لگی۔
بے لس: میں سیٹوں کے درمیان میں تھا اور میرا سر بس سے باہر کی جانب تھا۔ میں اپنی ٹانگوں کے درمیان سے اپنے پیچھے لوگوں کو دیکھ سکتا تھا۔ فاربریس میرے فوراً پیچھے تھے اور ان کے بازو سے ایک ٹکڑا نکلاہوا نظر آرہا تھا۔ میں ان کے خون کو بہتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔بس کے اندر کا سکون کا ماحول میرے لیے ایک نمایاں بات تھی۔ صرف آہستہ سے یہ کہا جا رہا تھا ‘مجھے لگی ہے’، مجھے بھی۔’
اس طرح کی صورتحال میں محسوس ہوتا ہے کہ وقت رک گیا ہے۔
آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ بس آپ کو نیچے ہونا تھا، سر کو نیچے رکھنا تھا۔
بس کے ڈرائیور نے بھی فرش پر چھلانگ مار دی تھی اور کوئی چیخ رہا تھا کہ بس کو چلاؤ لیکن اس وقت بس پر گولیاں چل رہیں تھی۔
فاربریس: میں نے مرنے کا نہیں سوچا۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ اپنے بازو کو دیکھتے ہوئے میں بس یہ سوچ رہا تھا ‘پلیز دوبارہ مجھے مت مارنا۔‘
جس سیٹ پر ٹریور تھے اس کی کھڑکی پر تین گولیوں کے سراخ تھے۔ وہ نیچے ہو گئے تھے اور انھوں نے اپنے آپ کی تھوڑی حفاظت کے لیے کمپیوٹر سمیت اپنے بستے کو کھڑکی کے آگے رکھ دیا۔بس پر گولیاں لگ رہیں تھی لیکن سب پرسکون تھے۔ مجھے صرف دلشان کی آواز آرہی تھی، وہ بڑی مخصوص آواز تھی۔ میں ابھی بھی اسے سن سکتا ہوں غالباً میں پوری زندگی اسے سنتا رہوں گا۔ وہ ہمیشہ ڈرائیور کے پیچھے بیٹھتے تھے۔ میں انھیں سن رہا تھا وہ چیختے ہوئے ڈرائیور کو بس ریورس کر نے کا کہہ رہے تھے۔ ڈرائیور سٹیرنگ ویل کے نیچے سے اپنے بازو کو استعمال کر کے اسے گھما رہا تھا۔اس نے ریورس کرنا شروع کیا جبکہ دلشان اپنا سر اوپر کر کے ان کو حملہ آوروں سے دور جانے کا راستہ بتاتے تھے۔ ڈرائیور کو اس کا بہت کریڈٹ ملا۔ ہمیں اس صورت حال سے نکالنے کے لیے انھوں نے زبردست مہارت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن آج تک میں یہ سوچتا ہوں کہ دلشان کی بہادری نے ہماری جانیں بچائیں۔ سر اونچا کر کے ڈرائیور کو بتانا کہ کس طرف جانا ہے کہاں سے مڑنا ہے غالباً اس وجہ سے ہم بچ گئے۔محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب صدیوں میں ختم ہوا، لیکن غالباً وہ کچھ سیکنڈ یا ڈیڑھ منٹ کا واقعہ تھا، پتا نہیں۔یہ ایک بات ہے جس کے بارے میں مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اس سب میں کتنی دیر لگی۔
بے لس: کچھ نے کہا یہ سب 10 منٹ تک چلا لیکن حقیقت میں غالباً ایک یا زیادہ سے زیادہ دو منٹ میں ہوا ہو گا۔ اس قسم کی صورتحال میں وقت رک جاتا ہے۔ ہم سٹیڈیم سے 30 سیکنڈ کی دوری پر تھے جب ہم نے چلنا شروع کیا تو جلد ہی ہم محفوظ مقام پر پہنچ گئے لیکن ہم پھر بھی گولیوں کی آواز سن سکتے تھے۔ خوش قسمتی سے ہم میں سے کوئی ہلاک نہیں ہوا لیکن چھ پولیس والے اور دوسرا ڈرائیور مارے گئے تھے۔جب ہم زمین پر اترے تو ہم کافی محفوظ محسوس کر رہے تھے اور اب ہم کوشش کر رہے تھے کہ زخمی ہونے والوں کا خیال رکھیں۔
فاربریس:جب ہم نے اپنے ساتھیوں کو زخمی، تکلیف اور درد کی حالت میں بستروں پر لیٹا دیکھا تو ہمیں یہ سمجھ آنا شروع ہوا کہ صورتحال کتنی بُری تھی۔ اجنتھا کے سر سے 16 سے 20 دھات کے ٹکڑے نکالے گئے تھے۔انھوں نے کوشش کی کہ ہمیں ایمبولنس پر ہسپتال لے کر جائیں۔ لیکن میں نے فوراً منع کر دیا میں کسی بھی صورت میں اُس روڈ پر کہیں سفر نہیں کرنے والا تھا۔ لیکن سمراویرا اور پارناوتنا کو جانا پڑا کیونکہ ان کی حالت کافی خراب تھی۔
بے لس: (واقعے کی) تلخ یادیں ہمیشہ موجود رہیں گی۔ حملے نے یقیناً میرے اوپر اپنا اثر چھوڑا جو کافی عرصہ تک رہا۔ غالباً چار مہینوں تک میں بتی جلا کر سوتا رہا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا جب لوگ میرے پیچھے چلتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد آپ معمول پہ واپس چلے جاتے ہیں۔وہ ایک خوفناک واقعہ تھا اس میں لوگ ہلاک ہوئے۔ ہمیں ایک کرکٹ میچ تک پہنچانے کے لیے لوگ مارے گئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔مجھے اس پر غصہ نہیں ہے۔ بس جو لوگ مر گئے ان کے لیے کافی دکھ ہے۔ وہ جنگ کے لیے نہیں جا رہے تھے۔ وہ ہماری لاہور شہر میں رہنمائی کر رہے تھے، ایک ایسا شہر جو میرے لیے ہمیشہ دلکش رہا ہے۔ میرے خیال سے یہ غم ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔
ـ( بشکریہ : بی بی سی اردو )